دنیا میں اس طرح سے کچھ الجھے ہوئے ہیں سب
عقبی ٰ کو اک فسانہ ہی سمجھے ہوئے ہیں سب
مغل بادشاہ اکبر کے دور میں انتظامی ڈیویڑن میں بہرائچ سرکار کے طور پر جانا جاتا تھا جس میں موجودہ ضلع کے علاوہ گونڈہ اور کھیری ضلعوں کے کچھ حصہ بھی شامل تھے
مباحثے اور مشاعرے اولڈ ہوسٹل میں ہوا کرتے تھے ۔ کالج کے پاس پانی کی فراہمی کے لئے اپنا کنواں تھا جہاں بیل جوت کر روائیتی طریقے سے پانی حاصل کیا جاتا تھا
انسان نماز شب کے لیے اٹھتا ہے تو اللہ رب العزت اپنے فرشتوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ دیکھو میرا بندہ میری بندگی کرنے کے لیے اپنے سکون کو ترک کر رہا ہے اس لیے میرے اس بندے کے لیے رحمت کی دعا کرو
کتاب کا مقدمہ معروف صحافی ، ادیب و کالم نگار جبار مرزا نے تحریر کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ “یہ مکاتیب گزرے دنوں کی یاد، ادب دوستی اور تاریخ بھی ہیں۔
شفیق رائے پوری مشکل بات کو اتنی آسانی سے کہتے ہیں کہ سننے والا دنگ رہ جاتا ہے کہ دو لائنوں کے شعر میں بہت بڑا موضوع کتنی آسانی سے سمو دیا ہے
کالج میں قدم رکھا ہی تھا کہ انجمن اتحاد طلباء یعنی اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن آگئے ۔ طلباء برادری تین واضح دھڑوں میں بٹ گئی ، چھاچھی گروپ ، قاضی خالد , احسن خان
نماز شب کی کیا عظمت ہے؟ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اپنی ساری زندگی میں نماز شب کو کبھی ترک نہیں کیا اور حالت اسیری میں بھی
مذہبی پیشہ ور اور خود غرض لوگ جنکی روزی مذہبی رسومات کے عمل پر منحصر ہے معصوم سادہ لوگوں کو طرح طرح کے توہمات میں پھنسا کر سچی روحانیت سے گمراہ کر دیتے ہیں
وہ بوڑھا لوہار تو 1975میں [رابطے] پر آیا تھا جب کہ شاہین پاکستان 1998میں آیا تھا۔گویا گوجرانوالہ کے لوہار اور شاہین میں 23۔برسوں کی دوری ہے