اپنا تراپ
تراپ ضلع اٹک کی تحصیل جنڈ کا ایک دُور کا قصبہ ہے اور غالباً تحصیل جنڈ کا سب سے بڑا قصبہ ہے۔ تراپ دریاے سواں کی وجہ سے تراپ شمالی اور تراپ جنوبی دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ دریا کے اِس پار تراپ شمالی(گاؤں تراپ، اور اسکی مضافاتی ڈھوکیں) اور تراپ داخلی(گاوں امن پور اور اسکی مضافاتی ڈھوکیں) ہیں۔ جبکہ دریا کے دوسری طرف تراپ جنوبی ضلع چکوال تحصیل تلہ گنگ کا حصہ شمار ہوتا ہے جس میں ڈھوک چٹھہ، کھرمار، شمار اور علاقہ لیٹی شامل ہیں۔
تراپ شمالی حالیہ حلقہ بندی اور شماریات کے حساب سے دس ہزار سے زیادہ نفوس پر مشتمل آبای کا قصبہ ہے جس کی وجہ شہرت پورے علاقہ بھر میں آج سے چند سال پہلے تک ایک بہترین شاپنگ پوائنٹ تھی کیونکہ تراپ اور اسکی مضافاتی درجن بھر سے زیادہ ڈھوکیں اور گاوں امن پور، بروالہ، ڈھوک سرفراز، انجرا، کانی، ہدووالی، مکھڈ شریف، چھوئی، نکہ افغاناں اور لکڑمار تک کے لوگ شادی بیاہ تک کی خریداری کے لیے یہاں کے مشہور تاجر مرحوم حاجی سلطان اور انکے صاحبزادوں، مرحوم حاجی عبدالرحمان اور انکے صاحبزادوں کی دکان سے کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں مگر انہی تاجروں نے انجرا کو مرکز جانتے ہوے اپنا کاروبار کا آدھا حصہ علاقاٸی عوام اور بزنس پروموشن کے لیے وہاں شفٹ کر لیا۔ تراپ میں اسوقت ایک اندازے کے مطابق تین سو سے زیادہ دکاندار مختلف چھوٹے بڑے کاروبار کر رہے ہیں۔
تراپ قصبہ میں مساجد کی بات کی جاے تو پچیس سے زیادہ مساجد ہیں اور دو امام بارگاہ ہیں(تراپ میں اتحاد بین المسلمین کا بہترین نمونہ جامع مسجد بنی والی بھی موجود ہے جہاں اہلِ تسنن و اہل تشیع مل کر عبادات کرتے ہیں)۔
تراپ گورنمنٹ بوائز ہائی ا سکول اپنی مینیجمنٹ اور اساتذہِ کرام کی وجہ سے بھی پورے علاقہ میں توجہ کا باعث رہا ہے مزید گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول، بنیادی مرکزِ صحت، ویٹنری ڈسپنسری کی سہولت ریاست کی طرف سے مہیا ہے جبکہ کمپیوٹرائزڈاراضی مرکز بھی آفیشلی فنگشنل ہونے کےقریب ہے۔ دہائیاں پہلے واٹر سپلائی اسکیم کے کنویں بھی مکمل واٹر سپلائی سسٹم کے ساتھ موجود تھے جو کہ لوکل بورنگ کیوجہ سے اب ضرورت میں نہیں رہے۔ تراپ میں بھٹو صاحب کے دور میں بنی ایک بھٹو کالونی بھی موجود ہے جو اُسوقت کے مستحقین میں غالباً پانچ مرلہ سکیم کے تحت پلاٹنگ کے دی گئی تھی۔
تراپ چونکہ ضلع اٹک کا دور کا قصبہ ہے جس وجہ سے صحت اور تعلیم کی سہولت کی خاطر عوام کو قریب اور دور کے شہروں میں بالخصوص ضلع کے صدر مقام کی طرف ہجرت پہ مجبور کرتا رہا۔ مگر پھر بھی علاقہ کے چند مثبت سوچ کے حامل ازہان نے دامِ درمے سخنے قریب بارہ سال پہلے سماجی کاموں کی طرف اپنی مدد آپ کے تحت دھیان دیا۔ ان تمام کاوشات کی اگر فردِ واحد کو شاباش دی جاے تو مرحوم ماسٹر عبدالرحیم صاحب کے فرزند برادر احمد علی ملک کا حق بنتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے گاوں کو سوشل میڈیا کے توسط سے اپنا تراپ کے نام سے ویب پیج بنا کر متعارف کرایا مگر سلسلہ روزگار ہمیشہ سے سماجی کاموں کے تسلسل میں آڑے آتا رہتا ہے۔
تراپ میں سماجی کاموں کی ابتدا کے لیے تحریکِ انسانیت تراپ(موجودہ کنسیپٹ ”اپنا تراپ“) کی چلتے پھرتے ہی بنیاد رکھ دی گئی۔
اس پروگرام کے لیے راقم کی تجویز پہ چندہ مہم کے لیے ماہانہ بنیادوں پہ انتہای کم ڈونیشن کےلیے تحریکِ انسانیت تراپ کے نام سے ممبر شپ مہم بھی چلائی گئی مگر اس سے زیادہ چند گاوں سے محبت کرنے والے اور دور کے شہروں میں بسنے والوں نے اندازے سے بڑھ کر معاونت کی جس بنا پر گرلز اور بوائز ا سکول کے مستحق بچوں میں سکالر شپ جیسی معاونت، پوزیشنز ہولڈرز میں انعامات، آٹھویں گریڈ سے اگلی کلاس میں پروموٹ ہونے والی بیٹیوں میں پردے کی اہمیت کو مسلسل رکھنے لیے چادروں کی تقسیم، اطرافی ڈھوکوں سے تراپ میں خریداری کے لیے آنے والی خواتین کے لیے قصبہ کے لاری اڈہ پہ سٹیل فریمڈ شیڈ(زنانہ مسافر خانہ) کی تعمیر جیسے بنیادی نوعیت کے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس شامل تھے۔
سال ٢٠١٥ کے بعد سی پیک کی تعمیر سے ایک حوصلہ افزا بات سامنے آئی جس میں ڈیرہ اسماعیل خان سے ہکلہ تک کے سی پیک روٹ پر ایک انٹر چینج ہمارے قصبہ کے حصہ میں آئی جس سے تراپ جیسے قصبے کا نام بھی ضلع اٹک کے بڑے بڑے ناموں اور دفتروں میں بھی عام ہونے لگا مگر_______.
خیر انجمنِ دوستاں و امیدوارانِ بہار اپنی مصروفیات میں سے قصبہ کے لیے وقت نکالتے رہے۔ سال ٢٠١٩ میں کے آخر میں میل چوک جسے بھٹو چوک بھی کہا جاتا ہے کی ری ہیبلیٹیشن کے لیے برادر احمد علی نے پھر سے آغاز کیا جسے محدود پیمانے پہ بنایا گیا کیونکہ چاروں اطراف کی بے ہنگم ٹریفک سے اس چوک نے ایک سے دو جانیں بھی لے لی تھیں مگر کوہاٹ، جنڈ__تلہ گنگ کی ٹریفک کا زور اینٹوں کے سہارے بنا مانومنٹ برداشت نہ کر سکا۔
سال ٢٠٢٠ میں کرونا کی لہر میں بڑے شہروں میں مخیر حضرات اور سماجی ورکرز نے جہاں خدمتِ خلق کی وہیں تراپ میں بھی برادر احمد علی کے مشورے پہ کمیٹی بنی اور انکے ہمراہ برادر حنیف اور سر اشفاق صاحب نے باقی تمام احباب کے ساتھ ملکر کم و بیش ساڑے تین سو سفید پوش گرائیوں کے گھر راشن پہنچایا۔
عرصہ چھ سات سال سے جہاں سوشل میڈیا پاکستان کے چھوٹے سے چھوٹے گاوں کے مکینوں کےلیے بھی اخبار کا کردار ادار کرنے لگا وہیں سال ٢٠٢١ کے جولائی میں جنڈ واسیوں کی مہم مشن گرین جنڈ سے بہت انسپائریشن ملی اور راقم کی تجویز پہ اپنا تراپ کےنام سے بنے سوشل گروپ میں مہم شروع کی گئی جس کو ہمیشہ کی طرح عملی جامہ پہنانے کے برادر احمد علی ملک، برادر محمد حنیف اور سر اشفاق صاحب نے کمر کس لی اور مشن گرین تراپ کے نام سے بسم اللہ کر لی مگر اگست ٢٠٢١ میں ٹارگٹ پورا نہ ہونے سے شجرکاری کو فروری ٢٠٢٢ تک کے لیے پوسٹ پون کر دیا گیا۔
اِمسال جنوری کی مہم سے ایک معقول رقم اور بزرگ مخیران کی طرف سے عطیہ کیے گۓ پودوں سے کم و بیش اٹھارہ سو پودوں سے مختلف مقامات پر شجرکاری کی گئی مگر مقامی آبادی سے دور سڑک کے اطراف کی گئی شجرکاری مسلسل آبیاری کا بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے حوصلہ افزا نہ رہی جس کے لیے آئندہ شجرکاری مہم میں مخصوص بجٹ کا تعین ہی مقصد پورا کر سکے گا۔
انشااللہ اسی جذبے کے تحت تراپ/میل چوک کی ری کنسٹرکشن سمیت صفاٸی کے مسئلے سمیت، زنانہ مسافر خانہ کی توسیع، اگر یہ جذبہ مسلسل رہا تو اپنی مدد آپ کے تحت گاوں کے بچوں کے لیے کسی شاملات پہ پلے پارک،تراپ کی واحد ہیریٹیج سائٹ(شیر شاہ سوری کے دور کی بنی ”واں“) کی مزید تزین و آرائش(رنگ و روغن کی ذمہ داری ڈھوک ڈوبہ کے جوانان نے پوری کر دی) چند ایسے بنیادی نوعیت کے منصوبہ جات ہیں جس کے لیے انشااللہ خیر ہوگی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔