ہمارے ابا جی ! قاضی عبدالقدوس
ہمارے والد صاحب قاضی عبدالقدوس1928 میں گنڈاکس ضلع اٹک میں پیدا ہوئے .اس وقت پرائمری سکول چار کلاسوں تک تھا انہوں نے 1943 میں موتا سنگھ خالصہ مڈل سکول نیلہ (چکوال) سے مڈل پاس کیا۔ اس وقت ہاسٹل نہیں تھا ۔سردیوں میں بچے نیلے جان پہچان والے لوگوں کے گھروں میں رھتے تھے۔عبدالقدوس صاحب بھی چار سال موسم سرما میں ایک ماسی کے پاس رہے ۔اتنے لمبے انٹر ایکشن کے باوجود ماسی کی زبان پر عبدالقدوس نہیں چڑھا وہ ہر دفعہ اندازے سے کوئی ملتا جلتا نام لے کر کام چلا لیتی تھیں۔
1945 میں نیلہ مڈل اسکول کو میٹرک کی سطح تک اپ گریڈ کیا گیا ۔قاضی اسحاق ملہوالہ نیلہ سے 1947 میٹرک پاس کرنے والے پہلے شخص تھے۔طلباء کی اکثریت ہندو / سکھ تھی ان کے انڈیا جانے سے سکول 1947 میں دوبارہ مڈل ہو گیا۔ عبدالقدوس صاحب نے 1945 میں فتح جنگ سے میٹرک کیا۔ وہ اپنے ماموں قاضی عبدالحق کے پاس رہتے تھے۔
اس وقت راول پنڈی میں کوئی سرکاری کالج نہیں تھا۔ تین پرائیویٹ کالج تھے ۔ عیسائی حضرات کا گورڈن کالج تھا۔ ہندو حضرات کے دو بڑے مسلک ہیں ۔ آریہ سماج کا دیانند اینگلو ویدک کالج (DAV College)تھا ۔یہ گورڈن کالج کے پاس تھا۔ کالج روڈ اس DAV کالج کے نام پر ہے۔ 1947 میں کالج ختم ہوکر ہائی اسکول بن گیا ۔یعنی کالج روڈ رہ گئی کالج ختم ہو گیا۔ اتفاقات ہیں زمانے کے
سناتن دھرم مسلک کا کالج سناتن دھرم کالج تھا۔1947 میں اس کا نام اصغر مال گورنمنٹ کالج ہو گیا۔
اصغر مال کی نئی پوش آبادی (1920 میں بنی )کا نام اصغر علی شیخ قانونگو بی اے پنجاب اور کیمبرج بار ایٹ لاء کے نام پر رکھا گیا ۔وہ اس وقت راولپنڈی کے ڈی سی تھے۔اصغر علی امرتسر کے رہنے والے تھے ۔
1945 میں عبدالقدوس صاحب نے سناتن دھرم کالج میں داخلہ لیا .اس کالج کے پرنسپل چھاچھی محلہ کے رہنے والے تھے۔ ہارون اسرار کے دادا بابا قاضی سعید نے ان سے رابطہ کیا تو پرنسپل نے عبدالقدوس کے یتیم ہونے کی بنا پر فیس میں رعایت دے دی۔
قاضی سعید صاحب کی پبلک ریلیشننگ زبردست تھی ۔اس سے وہ لوگوں کے کام نکلواتے رہتے تھے۔ان کی یہ خوبی ان کے بیٹے اسرار قاضی میں بدرجہ اتم موجود تھی۔2010 میں راقم کی پنشن کے سارے کام انہوں نے خوش دلی سے کئے ۔ اللہ پاک ہمارے ان محسنوں کے ساتھ آسانی والا معاملہ فرمائے۔
عبدالقدوس نے 1947 میں ایف اے پاس کیا۔ اس وقت انٹرمیڈیٹ میں انگلش لازمی کے علاوہ تین مضمون ہوتے تھے۔ان کے مضامین میں Trigonometry شامل تھی۔ ان کی کلاس میں صرف 3 مسلمان طلباء تھے۔ دو کا ایک ہی نام عبدالقدوس تھا۔
1947 میں سناتن دھرم کالج میں تڑارکھل کے نام سے آزاد کشمیر کا ہیڈ کوارٹر قائم کیا گیا -قاضی عبدالقدوس نے 1949 میں ملٹری اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی پہلی تنخواہ ساٹھ روپے ماہانہ تھی۔ وہ 1988 میں AAA آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس اسسٹنٹ کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ ان کی آخری تنخواہ 2295 روپے ماہانہ تھی۔ انہیں 1,64,000/- کمیوٹیشن کے طور پر ملے۔ ان کی ابتدائی پنشن 884/- روپے ماہانہ تھی۔ انہوں نے راولپنڈی، کوہاٹ، نوشہرہ اور اٹک میں سروس کی۔
1953 میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل فارسی پاس کیا۔ منشی فاضل/مولوی فاضل کے بعد بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے صرف بی اے انگلش کا امتحان پاس کرنا ہوتا تھا۔ ریگولر بی اے والے منشی فاضل کے راستے .بی اے کرنے والوں کو دو نمبر مال سمجھ کر ان کو مذاق سے (BA via Bathinda) کہتے تھے۔ اب بھی شارٹ کٹ کے ذریعے کام کو لاہوری محاورے میں’ وایا بھٹنڈا’ کہتے ہیں۔ اس کی بیک گراؤنڈ یہ ہے۔دہلی سے لاہور ٹرین کا عام رستہ انبالہ ، لدھیانہ، جالندھراور امرتسر والا تھا۔دوسرا راستہ روھتک ، حصار بٹھنڈا،فیروزپور، قصور اور رائیونڈ والا تھا۔وائیا بھٹنڈا’ والا محاورہ گجرانوالا کے اصغر بٹ ( پروفیسر ڈاکٹر) سے 1978 میں کئی دفعہ سنا۔بٹ صاحب لاہور میں ہمارے جونئیر تھے۔
پرانے زمانے میں مسلمان پنڈت اور ہندو مولوی بھی ہوا کرتے تھے.سنسکرت پڑھ کر مسلمان شاستری / پنڈت اور عربی فارسی پڑھ کر ہندو مولوی اور منشی بن سکتے تھے.یہ دراصل زبانوں کی ڈگریاں تھیں۔
بہاولپور میں ایک بزرگ پنڈت واحد بخش سیال ایک عالم تھے، جنہوں نے فریدیات پر قابل قدر کام کیا.
وایا بٹھنڈہ کی اب ایک نئی شکل بھی ہے۔مدارس کے درس نظامی کے بعد بھی صرف انگریزی پاس کرکے ڈگری مل جاتی ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی تاریخ دان ہیں ان کے سکول کے زمانے میں سندھ میں میٹرک گیارہ سال کا تھا ۔اس لئے انہوں نے ادیب (اردو) کا 1956 میں امتحان دے کر 1957 میں صرف انگلش کا پیپر دیا اور میٹرک پاس کر لیا ۔اس بات کی تفصیل ڈاکٹر صاحب نے اپنی سوانح عمری ‘در در ٹھوکر کھائے’ میں لکھی ہے۔
بی ایس سی،ایم بی بی ایس سیکنڈ ائیر ایم بی بی ایس کے بعد صرف انگریزی کا امتحان دے کر بی ایس سی کی ڈگری حاصل کرنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ھے ۔
کچھ اس کو مستحب سمجھتے ہیں کہ بی ایس سی ایم بی بی ایس لکھنے سے رائٹنگ پیڈ اور کلینک کا بورڈ بھرا بھرا بلکہ ہرا بھرا نظر آتا ھے۔ مریض کو بھی تسلی ہوتی کہ اعلی ڈگریوں والے ڈاکٹر سے علاج کروا رہا ہوں ۔
کچھ حضرات اس وکھری ٹائپ کی ڈگری کو اس طرح لکھتے تھے
BSc ( Eng ) .Eng = English
ہمارے ایک کلاس فیلو نے اس طرح کی بی ایس سی کے فضائل یہ بتلائے کہ اس کی وجہ سے جیل میں اعلی کلاس ملتی ہے۔
کچھ علماء اس ڈگری کو مکروہ بتلاتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ لائق طلباء کو ایف ایس سی کے بعد ایم بی بی ایس میں داخلہ مل جاتا ہے۔ کچھ لوگ جن کو اس طرح داخلہ نہیں ملتا وہ بی ایس سی کر کے آتے ہیں ۔اس طرح وہ کم قابلیت والے سمجھے جاتے ہیں ۔ اس لئے ڈاکٹر حضرات کا بی ایس سی کو اپنی ڈگری لکھنا مکروہ ہے۔ راقم کا بھی ووٹ اس گروہ کے ساتھ ہے۔
عبدالقدوس صاحب کی والدہ،والد اور ہمشیرہ کا 1945 میں ایک ہی سال میں انتقال ہو گیا۔ اور وہ اکیلے رہ گئے۔ ان تینوں بزرگوں کی قبریں گنڈاکس مغربی قبرستان میں مسلم بنھ (pond) کے پاس ہیں ۔ھماری دادی جان کا نام نور جہان اور پھوپھی کا نام حلیمہ تھا۔ قاضی عبد الحق ان کے ماموں تھے۔وہ اپنی فریدآباد ( ہریانہ) کی پوسٹنگ پر حلیمہ کو سیر کرانے ساتھ لے گئے ۔ ہماری دادی جان کی وفات کی خبر جب ان کے پیکے ملہوالہ پہنچی تو ان کی بڑی بہن گنڈاکس آئیں ۔ انھوں نے آ کر اپنی معلومات کی بنا پر زیور ایک پرانی چھٹ چھ پر زبر ( اونی ڈبل بوری) سے نکال کر محفوظ کر لیا۔
1945 / 1946 کو نانا جی عام الحزن دکھ کا سال کے نام سےکبھی کبھارذکر کرتے تھے۔ اس سال ان کے پانچ قریبی رشتےداروں کا انتقال ہوا بہن ،بہنوئی،بھانجی، بھائی اور بیگم۔
دادی جان کا کھیتر ایماں ( ائمہ) گنڈاکس اور ملھوالہ کے درمیان midway تھا ۔اس لئے وہ دو تین دن بعد دوپہر کو پیکے چکر لگا لیتی تھیں ۔ ایک دفعہ وہ پوٹلی سمیت ملھوالے آئیں۔ان کے بڑے بھائی عبدالعزیز صاحب نے اندازہ لگا لیا کہ یہ روٹین / معمول کا وزٹ visit نہیں۔انہوں نے پوچھا
نور جہان خیریت سے آئی ہو۔ جواب ملا ،لالہ جی گھر والوں سے ناراض ہو کر رُس کے آئی ہوں۔
عبدالعزیز صاحب نے کہا معمول کے مطابق تم روز آؤ،موسٹ ویلکم لیکن رُس کر آنے کی اجازت نہیں ہے۔
چا پوٹلی ۔ تے لگ اگے ، ڈانگ ہاتھ میں لے کر انہی قدموں پر بہن کو گنڈاکس چھوڑ آئے۔ یہ تھی اصل خیر خواہی۔ یہ تھا بہنوں / بیٹیوں کے 🏡 گھر آباد رکھنے کا صحیح طریقہ۔
1952 میں شجاعت علی صدیقی صاحب ملٹری اکاؤنٹنٹ جنرل تھے انہوں نے اپنے محکمے میں ابتدائی فوجی ٹریننگ شروع کرائی۔اس کا نام تھا پاکستان رائفل کلب۔ فوجی تربیت کا پہلا سبق ہے فوجی انداز میں چلنا پیٹ اندر سینہ باہر ۔
Tummy in ..Chest out
بائیں سے جلدی چل
۔ By the left ..Quick March
اباجی عبدالقدوس صاحب فرماتے تھے کہ بجائے بائیں کے میرا ہر دفعہ دایاں پاؤں پہلے اُٹھ جاتا اس طرح ٹریننگ میں گڑبڑ چلتی رہی لیکن تھری ناٹ تھری رائفل Rifle 303چلانی آ گئی۔
رائفل جس کی نالی کے دہانے کا قطر اعشاریہ تین صفر تین (303ء) انچ کا ہوتا ہے۔ انگریزی میں تین کے لیے تھری اور صفر کے لیے زیرو یا ناٹ کا لفظ بولا جاتا ہے اس لیے عرف عام میں اس رائفل کو تھری ناٹ تھری کہتے ہیں۔
آجکل جیسے کلاشنکوف ایک مہلک ہتھیار مشہور ہے پرانے زمانے میں تھری ناٹ تھری رائفل بہت مشہور تھی۔ اس کو پکی بندوق بھی کہتے تھے ۔ گنڈاکس کے فسادات میں شاید بابا معموری کھوکھر نے اس سے ہندو مارے تھے۔
ہم 1967 میں اٹک شفٹ ہوئے .ابا جی رات کو ہمیں کہانیاں سناتےتھے .ہم ان کے ساتھ پیدل کبوتر والی زیارت اٹک جاتے تھے اور دیمی (ندیم) ٹرائی سائیکل پر ہوتا تھا۔ندیم کہتے ہیں میرے ذہن میں بچپن کی ایک تصویر جمی ہوئی ہے کہ میں ابا جی کے ساتھ گرلز کالج کے قریب سڑک کے موڑ پر ٹرائی سائیکل پر جارہا تھا۔
اکرام کہتے ہیں ، ہائی سکول نیلہ میں تقسیم کے وقت اسحاق میٹرک کا طالب علم تھا اوران کے بھائی زین العابدین فارسی کے استاد تھے۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر خصوصی طور پر چھاچھی محلہ راولپنڈی آئے اور عبدالقدوس صاحب کو بطور استاد سکول جائن کرنے کی آفر کی۔اس وقت ہندو استادوں کے انڈیا جانے کی وجہ سے اساتذہ کی کمی تھی ۔ راولپنڈی میں رہنے والے ہمارے رشتہ دار چھاچھی محلہ کو قاضی سعید صاحب کی وجہ سےجی ایچ کیو کہتے اور سمجھتے تھے۔
اباجی نے کئی بار ڈپارٹمنٹل ایس اے ایس کے امتحان کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ اس پر انہوں نے غصے میں کورس کی کتابیں دریائے کابل نوشہرہ میں پھینک دیں۔ اس وقت وہ نوشھرہ میں نوکری کر رہے تھے ۔
قاضی عبدالقدوس صاحب کا تعلق ڈیرہ غازی خان کے عبدالحق صاحب کے اویسیہ سلسلۂ سے تھا۔ جام پور کے شوق محمد فریدی عبدالحق صاحب کے خلیفہ تھے .یہ لوگ اپنے کے پیر بھائیوں کو دوست کہتے تھے۔ اس سلسلہ کی تعلیم کا نچوڑ تھا خدمت اور دعا۔ بزرگوں کی خدمت کرو اور بزرگوں کی دعا حاصل کرو۔ اصلاح نفس پر زیادہ زور نہیں تھا ۔
اباجی مغرب کے بعد روزانہ مراقبہ کرتے تھے اور پھر اپنے سلسلے کا شجرہ اونچی آواز سے پڑھا کرتے تھے۔ یہ شجرہ قاضی عبدالقدوس کے شاگرد ماموں عرفان کے پاس ملنے کی امید تھی لیکن وہاں بھی نہیں ملا.اس شجرہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب کا نام بھی آتا تھا۔ شیخ عبدالغفور حقانی راولپنڈی اس گروپ کے سرکردہ رکن تھے۔
قاضی عبدالقدوس اکثر جام پور ڈی جی خان جاتے تھے جس کی واپسی کی کوئی خاص تاریخ نہیں ہوتی تھی۔ اس روٹین سے ہم بچے بہت پریشان ہوتے تھے۔ ملتان سے اٹک آنے والی ٹرینیں منزل پر پہنچتنے سے پہلے وسل سیٹی بجاتی تھیں اس کی آواز ہمارے گھر صاف پہنچتی تھی۔ ہر سیٹی ہماری امیدوں کو جگاتی تھی کہ اباجی آ رہے ہونگے .لیکن اکثر ہمیں مایوسی ہوتی تھی ۔۔ میڈیکل کالج کے دوران راقم دو بار جام پور گیا ۔ان بزرگوں کی شفقت اور مہمان نوازی لاجواب تھی لیکن ان کی دینی فکر سے زیادہ متاثر نہیں ہوا۔ ان کی تعلیم میں باجماعت نماز کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔
شوق صاحب نے ,ابا جی کے سامنے عبدالسلام کی اپنے خاندان میں جامپور شادی کرنے کی تجویز رکھی ۔ انہوں نےمیڈیکل کالج کی تعلیم کے اخراجات وغیرہ کو پورا کرنے کی بھی پیشکش کی۔ اس عجیب و غریب حرکت سے پورا خاندان پریشان ہو گیا۔ میرے انکار پر انھوں نے ارشاد فرمایا ‘قاضی عبدالقدوس صاحب اس امتحان میں فیل ہوگئے ہیں ‘۔امتحان میں پاس کرانے اور مزید ترغیب دینے کے لیے ایک پیر بھائی کو قاضی صاحب کے پاس بھیجا ۔ ایک دوسرے بزرگ ملک آمین صاحب سنٹرل ماڈل سکول کے ٹیچر تھے وہ ہاسٹل میں راقم کو سمجھانے آئے۔ لیکن میری قسمت میں یہ سعادت نہیں تھی۔
خلقِ خدا کی گھات میں
رِند و فقیہ و مِیر و پیر
(ہر کوئی عام آدمی کا استحصال کر رہا ہے)
ریٹائرمنٹ کے وقت شیخ عبدالغفور حقانی صاحب نے ابا جی کو walkچہل قدمی اور اخبار پڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کا مشورہ اباجی کے نزدیک حکم تھا۔وہ روزانہ ایک گھنٹے کی سیر کے لیے جاتے تھے۔ بارش میں بھی وہ ناغہ نہیں کرتے تھے بلکہ چھتری لے کر واک کے لئے جاتےتھے ۔ گھڑی باندھ کر سیر کرتے ۔جہاں تیس منٹ ہوتے وہاں سے واپسی شروع کرتے تھے۔ اس روٹین اور پابندی سے ان کا سٹیمنا Stamina بن گیا تھا .راولاکوٹ میں میں راقم ان کے ساتھ واک کرتا تھا .چلتے وقت وہ ہمیشہ مجھ سے آگے رہتے تھے . کھاریاں کینٹ میں ایک بار وہ واک کے دوران گھر کا راستہ بھول گئے۔ انہوں نے میڈیکل کور کے ایک سپاہی کو سرخ ٹوپی سے پہچان لیا کہ یہ عبدالسلام کے محکمے کا بندہ ہے اسے اپنا مسئلہ بتایا ۔وہ جوان ان کو واپس گھر چھوڑ گیا۔
نوائے وقت ان کا پسندیدہ اخبار تھا۔ جنگ کو حجام کی دکان کا اخبار سمجھا جاتا تھا۔ سنجیدہ طبقہ نوائے وقت پڑھتا تھا۔ ایک دفعہ میں نے انہیں اخبار پڑھتے دیکھا۔ ہر چند منٹ بعد وہ اخبار بند کر کے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے . میں نے پوچھا ابا جی آپ کیا کر رہے ہیں؟ فرمانےلگے، جب میں اخبار میں موت، یا کسی حادثے کی خبر پڑھتا ہوں،میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہوں۔ اور کبھی کوئی اچھی خبر ہوتی ھے تو اللہ پاک کا شکر ادا کرتا ہوں۔
اور یہی سب کو کرنا چاہیے۔ اموات / حادثات پر دعا کرنا۔ خوشخبری پر شکر کرنا۔
اسی قسم کی بات حضرت اشرف علی تھانوی نے اپنے مضمون اخبار بینی میں لکھی ہے۔
کوئی خبر خود مقصود (End) نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ کسی مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ (Mean to end) ہوتی ہے۔
1- مثلاً آپ کسی شخص کے متعلق یہ خبر درج کرتے ہیں کہ اس نے چند ہزار روپیہ کسی نیک کام میں صرف کیا تو اس کے بعد اس شخص کے لئے دعائے ترقی اور دوسرے مسلمانوں کے لیے اس کی ترغیب ذکر کردی جائے یا
2-مسلمانوں کی کسی کی مصیبت کا ذکر آیا تو خود بھی دعا کرے اور مسلمانوں کو بھی اس کی طرف متوجہ کرے نیز یہ کہ جس سے ہوسکے اُس کی مادی امداد بھی کرے
3-کسی کی موت کا ذکر کیا ہے تو لوگوں کو اس طر ف متوجہ کرے کہ دعا مغفرت کریں اور اپنی موت کے واسطے سامان تیار کریں۔
ایک بار میری بیٹی چھٹیاں گزارنے اٹک دادکے گئی۔اس نے واپسی پر بتایا ایک دن دادی جان نے دادا جان کو بہت ڈانٹا۔
جب تفصیل پوچھی گئی تو اس نے بتایا کہ فیملی ری یونین تھی اور گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ دادی جان کو اس رولے میں دادا جی کو روٹی دینا یاد نہ رہا۔ صبح ہوئی تو دادی جان کو معلوم ہوا کہ دادا جی نے رات کا کھانا نہیں کھایا۔ انھوں نے دادا جی سے پوچھا کہ میں تو رش میں کھانا دینا بھول گئی تھی لیکن نیک بختو !آپ نے کھانا کیوں نہیں مانگا؟ ان کا جواب تھا – میں نے سوچا کہ مہمانوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے کھانا ختم ہو گیا ہوگا اورمیرے لیے کھانا نہیں بچا ہوگا ۔ وہ ساری رات بھوکے رہے لیکن نہ کوئی مطالبہ نہ کوئی شکایت ۔
اس میں ہم بےصبروں کے لئے سبق ہے جو کھانے میں ذرا سی دیر ہونے پر پانی پت کی چوتھی جنگ شروع کر دیتے ہیں۔
ایک دفعہ اباجی گولڑہ شریف کی زیارت کے لیے گئے۔ وہ راولپنڈی سٹیشن سے ٹرین میں سوار ہوئے ۔ کچھ دیر بعد اگلا اسٹیشن آگیا۔ ابا جی اترے تو دیکھا کہ چکلالہ اسٹیشن ہے ۔ انہیں احساس ہوا کہ وہ پشاور جانے والی ٹرین کی جگہ غلطی سے لاہور جانے والی ٹرین میں سوار ہو گئےتھے۔
راولاکوٹ میں ہم خوبصورت علاقے، چشموں اور آبشاروں کی سیر کے لیے گئے۔ اباجی نے ہر جگہ 2 نفل پڑھے۔ میں نے پوچھا اس عمل کی کیا حکمت ہے؟ انہوں نے فرمایا – سیر تو اپنی جگہ ہو ہی رہی ہے میں ان مقامات کو نماز پڑھ کر اپنے نیک اعمال کا گواہ بنا رہا ہوں۔
ان کی دولہا والی کلہ پگڑی 1981 تک محفوظ تھی ۔میران شاہ کے دورے پر میں یہی پگڑی بغیر کلے کے باندھ کر گیا ۔ تیس سال گزرنے کی وجہ سے پگڑی کا کپڑا ‘ پڑ َ ‘ گیا تھا یعنی کمزور ہو گیا تھا۔ ان کا زری کلہ 2022 میں بھی ہمارے پاس ہے۔
شیخ عبدالغفور حقانی نے ان سے نوشہرہ میں پوسٹنگ پر ملاقات کی۔ وہ ان کے محکمے میں افسر تھے۔ انہوں نے پوچھا . قاضی صاحب کیا آپ کے خاندان میں کوئی پیر/فقیر بھی ہو گزرا ہے ؟ اباجی نے جواب دیا۔ مجھے کسی فیملی پیر کے بارے میں تو علم نہیں نہیں. جہاں تک میرا اپنا تعلق ہے ، میں تو ٹاپاں چیر ہوں ۔ دبا کر روٹی کھانے والا ہوں۔
میری بیٹی یاد کرتی ہے۔ دادا جی ہمیشہ بہت شائستہ اور مدد کے لیے تیار رہتے تھے۔کھاریاں میں جب ہم سکول سے واپس آتے تو وہ ہمارا ان الفاظ کےساتھ استقبال کرتے تھے: ‘فوجیں واپس آگئی ہیں’
فوجاں واپس آ گیاں ان۔
ڈاکٹر تبسم کہتی ہیں۔ جام پور میں شادی کی تجویز تب دی گئی جب عبدالسلام ایم بی بی ایس تھرڈ ایئر میں تھے۔ اس تجویز پر اتفاق نہیں ہوا۔ عبدالسلام کو امتحان میں فارماکالوجی میں سپلیمنٹری آ گئی۔ اس بات کو خدا کی ناراضگی کی علامت کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
1976 میں ڈاکٹر تبسم ایف ایس سی میں تھیں۔ کالج میں ویمین گارڈ/نیشنل کیڈٹ کور کورس چل رہے تھے۔اس میں 20 روپے ماہانہ اسکالرشپ تھا۔ اور سب سے بڑھ کر FSc میں اضافی 20 نمبر ملتے تھے۔
ابا جی مرد انسٹرکٹرز کی وجہ سے WG/NCC کے لیے راضی نہیں تھے۔ تبسم نے کہا نہیں ابا جی یہاں لیڈی انسٹرکٹر ہیں۔ ابا جی نے ریمارکس دیئے ۔ تم مجھے بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہی ہو۔ پیسے اور نمبروں کی فکر نہ کرو۔ اللہ اپنے خزانوں سے بدلہ دے گا۔
1979 میں تبسم نے علامہ اقبال میڈیکل کالج برڈ ووڈ روڈ لاہور میں داخلہ لیا۔ ابا جی ان کے ساتھ ملک امین صاحب کے گھر سمن آباد میں ٹھہرے۔ تبسم اور ابا جی صبح 8 بجے پیدل کالج جاتے. فیروز پور روڈ کراس کرتے ہوئے کالج پہنچتے ۔پھر وہ 2 بجے تک لان میں اس کا انتظار کرتے رہتے۔ یہ سلسلہ 15 دن تک جاری رہا یہاں تک کہ تبسم وہاں سیٹل settle ہو گئی۔
ابا جی اور امّی جان دونوں کو زندگی کے آخری مرحلے میں فالج ہو گیا تھا۔ میری بیگم صاحبہ نے اس مشکل وقت میں ان کی بہت اچھی طرح دیکھ بھال کی۔ میں اس غیر معمولی احسان کے لیے اس کا شکر گزار رہوں گا۔
” رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا "
’’اے پروردگار
ان دونوں پر ایسا خاص رحم فرما جیسا
کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا اور
کمال شفقت و رحمت سے میری پرورش
کی جبکہ میں بالکل عاجز اور لاچار تھا۔‘‘
آمین
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔