ہندوستان میں مغل دور میں متعارف ہوئی جوکہ عوامی سماعت اور انصاف کے انتظام کا ایک نظام تھا۔
مغل دور (1526-1756): مغل بادشاہوں، خاص طور پر اکبر نے حکمرانی میں شفافیت اور جوابدہی کو فروغ دینے کے لیے "کھلی کچہری” کا تصور متعارف کرایا۔ یہ ایک عوامی فورم تھا جہاں لوگ اپنی شکایات بیان کر کے انصاف حاصل کر سکتے تھے۔
برطانوی دور (1757-1947): برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد میں برطانوی حکومت نے "کھلی کچہری” کے نظام کو اپنایا اور اس میں ترمیم کی۔ انہوں نے "دربار” یا "عدالت” کا تصور متعارف کرایا جہاں برطانوی حکام عوامی سماعت کر کے انصاف فراہم کرتے تھے۔
انگریزوں کے دور میں "کھلی کچہری” کا نظام استعمال کیا جاتا تھا جس کے ذریعے ٹیکس اور محصول جمع ہوتا٫ انصاف کا انتظام اور تنازعات کو حل کیا جاتا٫
عوامی شکایات کا ازالہ کیا جاتا٫ برطانوی قوانین اور ضوابط کو فروغ دے کر حکمرانی کو استحکام دینا
"کھلی کچہری” نظام نے ہندوستان میں مغل ور برطانوی دونوں دور میں انصاف اور حکمرانی کے انتظام میں اہم کردار ادا کیا۔
”کھلی کچہری“ کے نظام کا تسلسل اسی مزاج اور انہی حکومتی اہداف پر پاکستان کے قیام کے بعد سے آج تک موجود ہے۔وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے عوام سے رابطے بہتر بنانے کیلئے افسران کو کھلی کچہری لگانے کا حکم دیا ہے جس سے پنجاب میں ”کھلی کچہری“ کی خبریں رپورٹ ہو رہی ہیں۔
ضلع چکوال٫تلہ گنگ٫ٹمن٫ملتان خورد٫لاوہ میں ضلعی پولیس انتظامیہ کھلی کچہری کا انعقاد کیا جس میں شکایات کو سنا گیا اور احکامات جاری کیۓ گۓ۔
”کھلی کچہری“ کاایک پہلو اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ روائیتی نظام بے حسی کا شکار ہو گیا ہے٫انتظامی سسٹم مفلوج ہو گیا ہے یا دہلیز تک انصاف کی فراہمی ممکن نہیں رہی تو کسی خاص واقعہ کی انکواری٫ داد رسی یا قانون کی بالا دستی کے لۓ کھلی کچہری منعقد کی جاتی ہیں۔کبھی کبھی مخصوص حالات مثلا دہشت گردی ٫ چوریوں کی روک تھام اور شہریوں کو تحفظ کا احساس دلانے کے لۓ بھی کھلی کچہری کو انتظامی ٹول کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔بعض اوقات کھلی کچہری حکومت اور سیاست دانوں کا بغل بچہ بھی بن جاتی ہے۔کھلی کچہری کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ محکمانہ اور عوامی سطح پر تحریک پیدا ہوتی ہے نظام پر جوش اور عملہ مستعد دیکھائ دیتا ہے۔
کھلی کچہری کی روایات کے ساتھ ساتھ نئ ٹیکنالوجی کے ذریعے زیادہ آسانی سے مستفید کیا جا سکتا ہے۔ آئ ٹی یا مصنوئی ذہانت سے کھلی کچہری کا ایک جدید ڈٖیجیٹل ورژن بنایا جا سکتا ہے۔
ورچوئل اسسٹنٹ: الیکسا، گوگل اسسٹنٹ، یا سری جیسے ورچوئل اسسٹنٹس کو شہریوں کو مسائل کی اطلاع دینے اور وائس کمانڈز کا استعمال کرتے ہوئے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کرنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔
ورچوئل اسسٹنٹ*: الیکسا، گوگل اسسٹنٹ، یا سری جیسے ورچوئل اسسٹنٹس کو نافذ کریں تاکہ شہریوں کو مسائل کی اطلاع دینے اور وائس کمانڈز کا استعمال کرتے ہوئے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔
شہریوں کی مشغولیت کے لیے چیٹ بوٹس: شہریوں کو مشغول کرنے، معلومات فراہم کرنے اور تاثرات جمع کرنے کے لیے مختلف پلیٹ فارمز (جیسے ویب سائٹس، سوشل میڈیا، میسجنگ ایپس) پر چیٹ بوٹس تعینات کیۓ جا سکتے ہیں۔
بلاکچین پر مبنی شفافیت: شکایات کے ازالے کے عمل میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانے کے لیے بلاک چین ٹیکنالوجی کا استعمال ہو سکے گا۔
مصنوعی ذہانت "کھولی کچہری” سسٹم بنانے میں مدد کر سکتی ہے، جس سے شہریوں کو سرکاری اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کرنے اور مسائل کی آسانی سے رپورٹ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
عہد نوIT سے مصنوعی ذہانت (AI) ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہا ہے، کئی نئی ٹیکنالوجیز ابھر رہی ہیں اور آنے والے سالوں میں ان کی اہمیت حاصل ہونے کی امید ہے۔ ان میں سے کچھ ٹیکنالوجیز میں شامل ہیں:
کوانٹم کمپیوٹنگ: کمپیوٹنگ کے لیے ایک نیا نمونہ جو حساب کرنے کے لیے کوانٹم مکینیکل مظاہر کا استعمال کرتا ہے۔
توسیع شدہ حقیقت (XR): ایک چھتری کی اصطلاح جس میں ورچوئل رئیلٹی (VR)، اگمینٹڈ ریئلٹی (AR)، اور مخلوط حقیقت (MR) شامل ہے۔
بلاک چین اور ڈسٹری بیوٹڈ لیجر ٹیکنالوجی: ڈیٹا کو ذخیرہ کرنے اور اس کا نظم کرنے کا ایک غیر مرکزی، محفوظ، اور شفاف طریقہ۔
انٹرنیٹ آف باڈیز (IoB): پہننے کے قابل اور لگانے کے قابل آلات کا ایک نیٹ ورک جو انسانی صحت کی نگرانی اور انتظام کرتا ہے۔
مصنوعی حیاتیات: مخصوص افعال انجام دینے کے لیے نئے حیاتیاتی نظام، جیسے مائکروجنزموں کا ڈیزائن اور تعمیر۔
نیورومورفک کمپیوٹنگ: کمپیوٹنگ کی ایک قسم جو انسانی دماغ کی ساخت اور کام کی نقل کرتی ہے۔
ہولوگرافک ڈسپلے: ایک ٹکنالوجی جو تین جہتی ہولوگرافک امیجز کی تخلیق کے قابل بناتی ہے۔
بائیو میٹرک ٹیکنالوجیز: انسانی شناخت کو پہچاننے اور اس کی تصدیق کرنے کے جدید طریقے، جیسے چہرے کی شناخت، آواز کی شناخت، اور ڈی این اے تجزیہ۔
ان ٹیکنالوجیز سے صحت کی دیکھ بھال، مالیات، تعلیم اور نقل و حمل سمیت مختلف صنعتوں پر نمایاں اثرات مرتب ہوں گے اور ممکنہ طور پر انسانی تہذیب کے مستقبل کو تشکیل دیں گے۔
ان ساری ٹیکنالوجیز پر ”نیت“ کی ٹیکنالوجی بھاری ہے۔ حکومت٫سیاست دان اور محکمے ملک پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی ”نیت“ کی تجدید کر لیں تو پھر ٹیکنالوجیز بھی مستفید کرنا شروع کر دے گی۔
ہم بہت جلد ”آخری کھلی کچہری“ میں کھڑے ہونے والے ہیں جس میں انسانی اعضاء گواہ ہوں گے٫جہاں بہنوں کو زمینوں کے حق سے محروم کرنے والوں کے موٹی گاۓ کے صدقے قبول نہیں ہوں گے٫جہاں اختیاواقتدار انجواۓ کرنے والے ”کامل انصاف“کے سامنے لرز رہے ہوں گے۔جہاں انصاف کا کھیل کھیلنے والے اپنے انجام سے بے حال ہوں گے۔کھلی کچہری ذمہ داری اور جوابدہی کا نام ہے اسے خبر اور فوٹو سیشن کے لۓ استعمال کرنے والے جرم دار ہوں گے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔