شاہد اعوان، بلاتامل
تاریخِ اقوام کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ تہذیب و تمدن کی تعمیر و تخریب وجودِ زن کے گرد ہی گھومتی ہے، کسی بھی معاشرے کی صورت گری عورت کی مرہون منت ہے غرض یہ کہ عورت کی گود میں قوموں کی تقدیریں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ مغربی دنیا کی تحریکِ آزادیٔ نسواں خراماں خراماں اب اسلامی ریاستوں میں بھی قدم جما چکی ہے اس کے باوجود دینِ فطرت مغربی تصورِ مساوات مردوزن کا قطعاٌ قائل نہیں۔۔۔ نہ جانے مسلمان خواتین اب شمعِ محفل بننا چاہتی ہیں یا چراغِ خانہ؟؟؟ مظفر وارثیؔ کا شعر ہے:
مردوں کے اگر شانہ بشانہ رہے عورت
کچھ اور وہ بن جاتی ہے عورت نہیں رہتی
انبیاء، اولیاء اور صوفیاء سب بطن نساء ہی سے پیدا ہوتے ہیں، قوم کے مصلحین، محافظین اور قائدین بھی آغوشِ مادر ہی میں پرورش پا کر شاہراہِ منزل پر گامزن ہوتے ہیں اس لئے قدیم مفکر نظام الملک طوسیؔ عورت کو اس کی گھریلو ذمہ داریاں یاد دلا تا ہے۔ اور وہ بھی ایک عورت تھی جس کے بارے قلندرِ لاہوریؔ کو کہنا پڑا:
فاطمہؑ! تُو آبروئے امتِ مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
آج ایک ایسی مظلوم خاتون کا ذکر مقصود ہے جس نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود زیست کے سفر کو رواں دواں رکھا، اسے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں عین جوانی کے ایام میں خاوند کے ہاتھوں دین اسلام کے سخت ناپسندیدہ عمل ’’طلاق‘‘ کا عذاب سہنا پڑا تب اس کے دو بچے بڑے جبکہ ایک بچی ابھی اس کی کوکھ میں تھی۔ ایک عام سی گھریلو عورت جو تعلیم کے زیور سے آراستہ تو تھی لیکن والدین اور سسرال کے اصرار پر محض ’’ہاؤس وائف‘‘ بن چکی تھی۔ جب اچانک ایک عورت کے سر سے چھت چھین لی جائے اور اسے کڑکتی دھوپ میں لاکھڑا کیا جائے جہاں دور دور تک کوئی سایہ بھی نہ ہو ایسے میں بعض اوقات قوتِ فیصلہ بھی جواب دے جاتی ہے۔ طلاق کے غم سے نکل کر ننھی سی بچی کی دیکھ بھال اور غمِ روزگار کے درمیان توازن رکھنا تنہا عورت کو ایک مشکل دوراہے پر کھڑا کر دیتا ہے ایسے میں ایک عورت ہی ہوتی ہے جو صبر و استقامت کے ساتھ خود کو مستقبل کے تانے بانے بننے پر آمادہ کرلیتی ہے۔ اگر وہ چاہتی تو بیٹی کو نظرانداز کر کے اپنا نیا گھر بھی بسا سکتی تھی لیکن ممتا کا جذبہ غالب آ گیا اور اس نے نئی دنیا بسانے کے بجائے بچی کی اچھی پرورش کا فیصلہ کیا اس نے مقامی کالج میں درس و تدریس کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی بیٹی کی تعلیم و تربیت پر مکمل توجہ مبذول کر لی۔ خیر بیٹی کی تعلیم مکمل کرائی اس کے ہاتھ پیلے کیے اور یوں اللہ کے حضور اپنے فرض سے سبکدوش ہو گئی۔ جب بیٹی سسرال کو سدھار چکی تو اسے احساس ہوا کہ اس کے بالوں میں چاندی کے آثار اترنے لگے ہیں۔ جیسے کہاجاتا ہے کہ عورت کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا ابتدائی زندگی میں والدین کا گھر ، جوانی میں خاوند کی چوکھٹ اور بڑھاپے میں بچوں کا آشیانہ ایک عورت کا مسکن ٹھہرتا ہے،لیکن جب کسی عورت کے پاس ان میں سے کوئی ایک جائے پناہ بھی نہ ہو تو ایسے میں وہ کیا کرے؟ جب تمام بچے بھی اپنے اپنے گھروں کے ہو جائیں اور سب اپنی اپنی دنیا بسا لیں تو وہ پھر اکیلی کی اکیلی۔۔۔ ۔یہ ہمارے معاشرے کے وہ تلخ حقائق ہیں جو عورت کے نصیب کا حصہ ہیں! سرائیکی شاعر انہی صدمات اور دکھوں کو اپنی شاعری میں ڈھال کر یوں بیان کرتا ہے:
باقی ہر گَل پُچھ تو خوش ہو کے
اک اُجڑن دے حالات نہ پُچھ
جیویں کوئی آیا، کوئی چھوڑ گیا
کیویں آخری ہوئی ملاقات؟ نہ پُچھ
میڈی عاجزی دے جذبات نہ پُچھ
اوہدی تلخی دے حالات نہ پُچھ
دم نازؔ دا نکل اتھائیں ویسی
میڈے اجکل گزر اوقات نہ پُچھ
شاہد اعوان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔