پرانے ٹھگ
رضا علی عابدی نے پرانے ٹھگوں کا طریقہ واردات, عقائد اور معاشرتی حیثیت کو کہانیوں کی شکل میں بیان کیا ہے. یہ معلومات ٹھگوں کے پکڑے جانے کے بعد ان کے بیانات کی روشنی میں مرتب کی گئی ہیں. یہ ظالم طبقہ قافلوں سے یارانے بنا کر ان کے ساتھ کئی دن چلتا تھا اور موقع ملتے ہی "تمباکو لاو” یا "پان لاو” کا نعرہ بلند کر کے ان کے گلے میں رومال سے پھندہ ڈال دیتا تھا. اپنے جرم کے نشان مٹانے کے لیے مقتولوں کو منوں مٹی تلے دفن کرکے زمین برابر کر دی جاتی. عورتوں اور بچوں کو مارنا یہ گناہ سمجھتے تھے. ان کے بقول کالی دیوی اور بھوانی اس عمل سے ناراض ہوتی ہے لیکن کبھی کبھار اس دیوی کی ناراضی کو بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا تھا. حیرت کی بات ہے کہ اتنا ظلم کرنے کے باوجود وہ معاشرے میں معزز شمار کیے جاتے تھے کیونکہ ان کے بیوی بچے بھی اکثر ان کی ٹھگیوں سے لاعلم ہوتے تھے.
یہ ضعیف الاعتقاد اور توہم پرست طبقہ شگون کا قائل تھا, جانوروں اور پرندوں کی آوازوں سے اچھے یا برے شگون کا اندازہ لگاتے تھے. ان کا تعلق بھی مختلف مذاہب سے تھا. فرنگیا اور امیر علی جو ٹھگوں کے سرغنہ رہے, لاکھوں لوٹے اور ہزاروں کو درگور کیا. ان کا ذکر تفصیل سے موجود ہے. بھلا ہو سلی مین کا جس نے اس کا قلع قمع کرنے کی ٹھانی اور اپنے مقصد میں کامیاب رہا, انھیں پھانسی دلوائی, میتیں برآمد کیں اور لوٹا ہوا مال حق داروں تک پہنچانے کی کوشش کی.
رضا علی عابدی نے کتاب کا نام "پرانے ٹھگ” رکھ کر اس کی معنویت بڑھا دی ہے کیونکہ ان کے نزدیک پرانے اور نئے ٹھگوں کا مزاج ایک جیسا ہے کہ دونوں خوش مزاج ہیں, دونوں ہنس کر ملتے ہیں, معززین سمجھے جاتے ہیں اور خون بہائے بغیر سب کچھ نچوڑ لیتے ہیں:
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
مبصر: سجاد حسین سرمد
مدیر سہ ماہی دھنک رنگ فتح جنگ
لیکچرر کیڈٹ کالج مہمند
9 فروری 2023ء
مدیر : سہ ماہی دھنک رنگ – فتح جنگ
لیکچرر اردو
کیڈٹ کالج مہمند
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔