سستی شہرت کا جنون!
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ ہے کہ ہمارے لکھنے والے قارئین کی نفسیات کو سطحی اور منفی انداز میں کیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چند دن ہوئے ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے ایک مضمون پر سوشل میڈیا میں طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے جس انداز میں چند خواتین کے ایک مسئلے کو موضوع بحث بنانے کی کوشش کی وہ انتہائی تضحیک آمیز اور شرمناک ہے۔ اس کے حق اور مخالفت میں بڑے عجیب و غریب تبصرے آ رہے ہیں۔ "دروغ برگردن راوی۔” اس موضوع جس کا عنوان لکھنا بھی زبان کو تار تار کرتا ہے کی تفصیل سے پہلے موصوفہ "نتھ اتروائی” اور "نتھ ڈلوائی” کا مطلب واضح کرتے ہوئے کچھ پسماندہ علاقوں کا نام لے کر اس رسم کو عورت ذات کو نکیل ڈال کر رکھنے کے برابر قرار دیتی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ،
"عورت بننے سنورنے کے شوق میں ناک چھدوا تو لیتی ہے لیکن اس ناک اور نتھ سے وابستہ تصور کے متعلق باخبر نہیں ہوتی- یہ نکیل وہی ہے جو جانور کے ناک میں سوراخ ڈال کر اس میں سے لگام گزار کر مالک اپنے ہاتھ میں پکڑتا ہے اور گدھے گھوڑے، بیل، بھینس یا بندریا کی نکیل جانور کو بتاتی ہے کہ مالک کیا چاہتا ہے؟”
عورتوں کا ناک سلوانا یا نتھلی اور کوکہ وغیرہ پہننا قبائلی، سرائیکی یا سندھی علاقوں ہی کا رواج نہیں بلکہ یہ رسم پورے پاکستان میں رائج ہے جو ہمارے لوکل کلچر اور ملکی تہذیب کا حصہ ہے مگر ڈاکٹر صاحبہ نے اسے ایک اور مسئلے کے ساتھ ڈھٹائی کے ساتھ نتھی کر دیا ہے جس کی حقیقت ہی مشکوک نظر آتی یے۔ موصوفہ کے مضمون پر گالی گلوچ پر مبنی نازیبا قسم کی بحث ہو رہی ہے! بعض فیمینسٹ ایکٹیوسٹ انتہائی گھٹیا زبان استعمال کرتے ہوئے پورے معاشرے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ سرے سے کوئی موضوع ہی نہیں بنتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چند ابنارمل افراد کے رویئے اور سوچ کو ایک معاشرتی مسئلہ سمجھ کر پورے معاشرے کو رگیدنا بذات خود ایک ابنارمل سوچ ہے۔
ہر معاشرے میں کچھ جنونی اور انتہا پسند لوگ ہوتے ہیں جن کو معاشرے کا حصہ بنانے کے لئے ترقی یافتہ ممالک ان کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اور بعض مخصوص معاملات میں ان کی "کونسلنگ” کی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں الٹی کنگا بہتی ہے ہمارے دانشور جس مظلوم طبقے کی وکالت کرتے ہیں سب سے پہلے وہ اسی طبقے کو ننگا کر کے ذلیل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بھی یہی کیا ہے اور اپنے مضمون میں ایسی لچر زبان استعمال کی ہے کہ جس کو یہاں دہرانا بھی باعث شرم ہے۔ بہت سے لوگ اس حوالے سے لاعلم تھے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مرد حضرات اپنی شریک حیات پر ایسا ظلم روا رکھیں! گو ایسے ہولناک واقعات شرمناک اور ننگ انسانیت ہیں۔ لیکن ایسے واقعات کو بنیاد بنا کر پاکستان اور مسلم معاشرے کو پوری دنیا میں بدنام کرنا کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی بیشتر تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لبرل ہیں، الٹرا فیمنسٹ اور سیکولر ہیں۔ جب ہم خود کو اسلامسٹ اور رائسٹ کہتے ہیں اور کسی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ نہیں اپناتے تو انہیں بھی حق ہے کہ وہ اپنی سوچ اور فکر کی ترویج کریں مگر اس دفعہ انہوں نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے وہ ایک خاص علاقے کی خواتین اور مردوں کو غیر ضروری طور پر اچھال کر سستی عالمی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے قبل وہ عورت مارچ، ٹرانس جینڈر، مذہب کا ریاستی قوانین میں کردار اور اسلامی ریاست وغیرہ کے موضوعات پر لکھتی رہیں ہیں جہاں وہ عموما اخلاقی حدود اور معاشرتی اقدار کے تقاضوں کو عبور کر جاتی تھیں مگر اس دفعہ تو انہوں نے حد ہی کر دی ہے۔
اصول تو یہ ہے کہ آپ کا بدترین دشمن بھی اگر کسی جگہ درست بات کر رہا ہو اور درست جگہ پر کھڑا ہو تو اس کی حمایت کی جانی چاہئے اور یہی تعلیم یافتہ معاشروں اور افراد کی نشانی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحبہ کو یہ معاملہ آگاہی دینے کے حوالے سے قبائلی حکومت کے ساتھ اٹھانا چاہئے تھا ناکہ مذہب، ملک اور معاشرے کو رسوا کرنے کے لئے یوں اجاگر کرنا چایئے تھا جیسا کہ انہوں نے کیا!
یہ سوشل میڈیا کا دور ہے جہاں کسی کی زبان بندی کرنا ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ ایک جگہ انتہائی نازیبا زبان استعمال کرنے کے بعد لکھتی ہیں، "کیا اکیسویں صدی میں اس سے بڑھ کر کوئی ظلم اور نا انصافی ہو سکتی ہے عورت کے ساتھ؟” میں ان سے پوچھتا ہوں اس پدر سری کے انداز میں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے زیادہ ان مظلوم عورتوں کے ساتھ اس سے زیادہ زیادتی کیا ہو سکتی ہے کہ جو بدنام نہیں ہیں آپ ان کو بھی بدنام کر رہی ہیں؟ جو گائناکالوجسٹس خواتین ڈاکٹرز ان واقعات کی گواہ ہیں انہیں چایئے کہ وہ یہ واقعات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو رپورٹ کریں اور متعلقہ حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ اس رسم کو (اگر ہے تو) ختم کرنے کے لئے تادیبی کاروائی کریں۔
ڈاکٹر صاحبہ! بہتر ہوتا کہ آپ بھی چند معصوم خواتین کی عزت کی یوں واٹ لگانے کی بجائے حکومت سے رابطہ کرتیں یا ان علاقوں میں جا کر ان کے مردوں کی تعلیم و تربیت کرتیں۔ ان پسماندہ خواتین کو ایسے نام و ناموس کی ضرورت نہیں جس کی آپ متلاشی نظر آتی ہیں:
ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام،
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا؟
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔