مشاہدہ، حقیقت اور نظریہ اعیان
دنیا کے عظیم ترین سائنس دان البرٹ آئنسٹائن کو شکایت تھی کہ ان کو چاند اسی وقت نظر آتا ہے جب وہ اسے دیکھتے ہیں۔ کیا اس قول سے یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ حقیقت تب وجود میں آتی ہے جب ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں؟ آئنسٹائن ایک سائنس دان تھا جبکہ اسی بات کو رینی ڈیکارٹ نے ان الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی کہ "میں ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ میں ہوں” (I Think Therefore I Am) یا اسے انگریزی زبان میں یوں بھی لکھتے کہ "میں اس لئے ہوں کہ میں سوچتا کہ میں ہوں”I Am Because I Think I Am) جس کا بالواسطہ مطلب یہ ہے کہ ہمارا (اور چیزوں کا) وجود ہمارے تعقل کا محتاج ہے جو ہماری حسیات سے قائم ہوتا ہے۔ اگر ہم اس مفروضے کو سچ مانتے ہیں تو اس سے ایک سادہ سا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کائنات ہمارے لئے ایک فریب، سراب یا ایک نظری دھوکہ ہے اور دوسرا متناقضہ قسم کا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اس حقیقت کا کوئی وجود نہیں ہے کہ جس تک ہمارے حواس کی رسائی ممکن نہیں ہے، اور پھر حواس تو اس قدر دھوکہ دیتے ہیں کہ شفاف پانی میں کھڑی سیدھی چھڑی بھی ہمیں ٹیڑھی نظر آتی ہے! حالانکہ کائنات تو ایک مادی اور ٹھوس حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے ہے جس کے مشاہدے کے لیئے ہم ہوں یا نہ ہوں "دائم آباد رہے گی دنیا، ہم نہ ہونگے کوئی ہم سا ہو گا” کے مصداق یہ کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ قائم رہے گی۔
کائنات کو دھوکہ-برم (Illusion) اور سائنس کی زبان میں نقل یا نقلی (Simulation) بھی قرار دیا جائے تو اس کی اصل حقیقت تو پھر بھی ہم سے اوجھل ہی رہتی ہے جس کے بارے میں پورے تیقن کے ساتھ ہم کوئی بھی دعوی نہیں کر سکتے ہیں کہ جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ جو کائنات ہمیں نظر آتی ہے وہ آئنسٹائن کے "چاند” کی طرح ہے بھی یا نہیں ہے اور یا پھر یہ کائنات بھی ہمیں صرف اس وقت نظر آتی ہے جب ہم اس کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قدیم یونان کے عظیم الشان فلسفی افلاطون نے اپنے "نظریہ اعیان” میں بھی کائنات کو ایک وہم اور دھوکہ ثابت کرنے کے حق میں دلائل دیئے تھے۔
افلاطون کی تصانیف "مکالمات” کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی سب سے زیادہ معروف کتاب ”جمہوریت” ہے جو اسکا شاہکار تصور کیا جاتا ہے۔ افلاطون اپنے نظریات اور منطق میں غیر مشہود اشیاء کو اعیان ثابتہ اور وہم و گمان قرار دیتا ہے۔ انکے مطابق صور علمیہ یا اعیان ثابتہ ہی حقیقی وجود رکھتے ہیں اور وہی "قائم بالذات” یعنی حقیقی جوہر ہیں جبکہ باقی اشیاء اسکے ناقص نقول یا ظل یعنی سایہ ہیں۔ افلاطون کے مطابق اعیان ثابتہ حقیقی معنی میں صاحب وجود ہیں اور یہ کہ محسوسات کی دنیا ایک استعارہ یے۔ افلاطون کی تعلیمات کے مطابق یہ کائنات اور محسوسات کی دنیا جو مادی وجود رکھتی ہیں ایک واہمہ ہیں جو ایک عالم عیان کی نقل یا کاپی ہیں جس کی مثال وہ ایک غار میں بیٹھے اس انسان کی دیتا یے کہ جس غار کے باہر سے آدمیوں کی ایک قطار گزرتی ہے تو اس پر روشنی پڑنے سے اس آدمی کو غار کی دیوار پر ان کا سایہ نظر آتا ہے جس کو وہ اصل سمجھنے لگتا ہے حالانکہ یہ ان آدمیوں کے سائے ہیں جبکہ کائنات کی ساری اصل چیزیں عالم اعیان میں ہیں اور یہ دنیا اس کی ایک نقل ہے۔ افلاطون اس ضمن میں دلیل دیتا ہے کہ دنیا میں موجود لکڑی کا ایک ٹبیل اصل نہیں بلکہ یہ ہمارے حواس کے زریعے آنے والی ایک "نقل” ہے جس کی "اصل” عالم بالا میں ہے اور پھر یہ کہ کائنات حادث اور تغیر پذیر ہے لہٰذا اسکی کوئی حقیقت نہیں یے کیونکہ یہ عالم ناپید کا ظل یا مجازی عکس ہے۔
اب کائنات کے بارے جدید سائنس مثلا میکانیات کے انکشافات اور تھیوریز مثلا "سٹرنگ تھیوری” (String Theory), "ملٹی ورسز” (Multi Verses) اور "قانون غیر یقینیت” (Law of Uncertainty) وغیرہ بھی کائنات کی "!بتداء” اور "حقیقت” پر سوالات اٹھا رہی ہیں تو انسان دوبارہ "الہامی عقل” کی طرف بڑھ رہا ہے۔
مسلمانوں کی دانش اور فلسفہ آغاز ہی میں مذہبی انتہا پسندی کی زد میں آ گیا تھا جس کو عظیم مسلم فلسفی ابن رشد نے بھی محسوس کیا تھا اور کہا تھا کہ، "ہمارے ہاں سوچنا گناہ اور سوال اٹھانا بدعت سمجھا جاتا ہے۔” اس کا تسلسل صدیوں سے اب بھی جاری ہے اور سائنس درحقیقت مسلم امہ کے لئے ایک شجر ممنوعہ بن چکی ہے۔ یہ ایک وجہ ہے کہ مسلم فلاسفرز مغربی فلسفیوں کی طرح تخیل اور دلیل کی باریک بینی سے کائنات کو سمجھنے اور پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں اور جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ فلسفے کی کوکھ سے جنم لینے والی سائنس کے میدان میں مسلم دنیا پیچھے رہ گئی ہے۔ حالانکہ افلاطون کے نظریات اسلامی فکر اور بعد از موت کی زندگی وغیرہ کے زیادہ قریب تھے مگر کچھ مسلم حکماء نے افلاطونی سوچ کو دنیا سے تیاگ اور فرار کے مترادف قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔ علامہ اقبال بھی اس غلطی کے مرتکب ہوتے ہوئے افلاطون کو مرشد ماننے والے فارسی شاعر حافظ شیرازی کو مطعون کرتے ہیں۔ اقبال اپنی کتاب "اسرار خودی” کی ایک نظم میں نفی خودی کے عواقب کی مد میں ایک بحث کے دوران نظریہ اعیان ثابتہ کی شدید مخالفت کرتے ہیں اور افلاطون اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے حافظ شیرازی کے نظریات کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔
البرٹ آئنسٹائن ہی کا ایک قول ہے کہ، "فطرت نے ابھی تک انسان پر جو کچھ ظاہر کیا ہے وہ ایک فیصد کا ہزارواں حصہ بھی نہیں،” اور کوانٹم مکینکس کے جدید ترین نظریات تو سرے سے ایک حرکت کرتے ہوئے جسم کی سپیڈ اور مقام کو بیک وقت ماپنے ہی سے انکاری ہیں۔ اس رو سے جب سائنس مزید آگے بڑھے گی یا انجینئیرڈ طب کے میدان میں انقلاب آئے گا اور انسان کو وراثتی طور پر نئی حسیات مل گئیں تو پھر ہم مشاہدے کے زور پر موجودہ کائنات کی حقیقت کو کس نظر سے دیکھیں گے؟ یہ محض ایک سوال ہے جسے اس وقت تک سمجھنا ممکن نہیں جب تک ہم علم و دانش، سائنس اور تحقیق کے میدان میں کورے ہیں۔ "فلسفہ” کے بعد "سائنس” ہی عہد حاضر کا واحد جدید ترین علم ہے جو مشاہدے میں آنے والی کائنات کی اصل حقیقت سے پردہ اٹھا سکتا ہے۔
قرآن میں مختلف حوالوں سے کائنات اور دنیا و مافیہا کے بارے 750 مرتبہ سوچنے، غوروخوض کرنے اور تحقیق و جستجو کرنے کا حکم آیا ہے۔
سوچنا اور تفکر کرنا حقیقت تک رسائی کا واحد ذریعہ ہے جسے سائنس عمل اور تجربے سے گزارتی ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔