تجربات سفر قسط 2
رضاسید
25 جون 2022
بالا کوٹ دریائے کنہار کے کنارے آکر رکے دن کے گیارہ بج رہے تھے ہمارا پروگرام تھا کہ کچھ دیر سستا لیں گے کیونکہ اسلام آباد سے بالا کوٹ تک مسلسل ساڑھے چار گھنٹے کے سفر نے تھکا دیا تھا مگر کنہار کی مدھر آواز نے تو جیسے ہمیں جکڑ لیا تھا کافی دیر دریا کنارے ایک کرسی پر نیم دراز ہم پڑے رہے ہم تیرہ لوگ تھے آپس میں بھی بات چیت نہیں کی بس سکون لیتے رہے ،،،،
کچھ دیر بعد ایک آواز جس نے سکوت توڑا آں بھائی صیب بہت لمبا سفر اے آپ لوگ تو ادھر ہی سو گیا یارا چلو لیٹ ہو جائے گا یہ ہمارے گلگتی ڈرائیور اسرار نامی گورا چٹا ہنس مکھ انسان کی پکار تھی جس نے کافی دیر انتظار کے بعد ہمیں آواز دینا مناسب سمجھا ،،،،
ہم سب ڈھیلے ڈھالے قدموں سے گاڑی کی طرف چل پڑے مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسلام آبادیوں کو یک دم اتنے طویل سفر کا تجربہ نہیں ہوتا اس لیے تھکان نے آن گھیرا ،،،
بالا کوٹ شہر سے نکلتے ہی کنہار کا پل آیا جس کو عبور کیا تو کنہار سانپ طرح بل کھاتا پہاڑوں سے اترتا دکھائی دیا مگر جیسے ہی پل کراس کیا تو منظر نامہ بدلنا شروع ہوگیا تھا پل پار ایک مکمل الگ دنیاتھی ایسا لگا جیسے ہم کسی نیشنل پارک میں داخل ہوگئے ہیں پہاڑوں کی مشکل چڑھائی شروع ہوچکی تھی اور جا بجا پہاڑوں سے اترتی چھوٹی بڑی آبشاریں اور جھرنے روڈ پر گرتے اور پھر آگے کھائی میں جاتے ہی دریائے کنہار کا حصہ بن جاتے مگر لطف اس بات کا لیا کہ ہر جگہ خوبصورت چھوٹے بڑے ریستوران نظر آرہے تھے ان بہتی آبشاروں کے بیچ و بیچ رنگ برنگی کرسیاں بچھا دی گئیں تھیں رنگین چارپائیاں تھیں چائے باربی کیو کڑاہی گوشت سب کو کچھ دستیاب تھا ،،،،،
یہاں سے ایک روڈ ناران اور ایک روڈ مظفرآباد کشمیر کی طرف جاتی ہے ادھر مظفر آباد آدھا پونا گھنٹہ لگتا ہے اور لگے ہاتھوں کشمیر بھی گھوم کر آسکتا ہے ،،
ہم پارس نامی گائوں میں داخل ہوگئے تھے یہ بالا کوٹ کے بعد پہلی بڑی آبادی تھی اس کی خوبصورتی کے مناظر ناقابل بیان ہیں دریا کے ارگرد ہوٹل اور ہٹس بنائے گئے تھے بل کھاتی سڑک پارس گائوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی اوپر جاتی پہاڑی چوٹی کی جانب گامزن رہی ،،،
پارس کے اس پار گاڑی کو تیز چلانا ناممکن ہورہا تھا اس کی دو وجوہات تھیں ایک تو آبشاریں اور جھرنے سڑک پر پھسلن بن گئی تھی اور دوسری وجہ اچانک کھڈے تھے تاہم ایک چیک پوسٹ بھی ادھر آتی ہے جہاں کے پی کے پولیس کے چاک وچوبند اہلکار موجود تھے انھوں نے گاڑی روکی اور اندر جھانکا ہم سب کو دیکھا اور مسکرا دیا ہم پریشان تھے پولیس والا کسی اور چکر میں نہ ہومگر حیرت اس وقت ہوئی کہ اس نے کہا خوبصورت وادیوں میں خوش آمدید اپنا بہت خیال رکھیں گاڑی آہستہ چلائیں ماحولیات کا خیال کریں گندگی نہیں پھیلانی اور مقامی روایات کا خیال کرنا اللہ حافظ
ہم اس کے خوش آمدیدی جملوں میں گم شوگراں کی جانب رواں دواں ہوگئے مگر اس موقع پر آپ کے لیے یہ معلومات ہیں کہ پختون خواہ کی پولیس انتہائی خوش اخلاق اور مددگار ہے آگے چل کر مزید واقعات بھی بتاؤں گا ،،،
ابھی جاری ہے ،،،
رضا سیّد
شمالی علاقہ جات کی سیاحت
لکھاری،تجزیہ نگار،کالم نویس،اصلاح پسند، سماجی نقاد
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔