نوجوانوں سے اقبالؒ کی اُمیدیں
محمد یوسف وحید ، خان پور
شاعرِمشرق علامہ محمد اقبال ؒ کو نوجوان طبقے سے بہت سی اُمیدیں ہیں ۔ اللہ تعالی نے نو جوانوں میں بہت سی صلاحیتوں اور خو بیوں کو پیدا کیا ہے۔ اس لئے نو جوان طبقے کو چاہیے کہ وہ اپنے اند ر پوشیدہ جواہر بروئے کار لائیں ۔ اقبالؒ فرماتے ہیں :
کسی ایسے شرر سے پھو نک اپنے خر منِ دل کو
کہ خو رشیدِ قیامت بھی ہو تیرے خو شہ چینوں میں
اقبال ؒ نے مغربی تقلیداور روش کو مسلم نو جوانوں کے لئے سمِ قاتل قرار دیا ہے۔ آپ نے درس دیا کہ مسلمان کو اپنے مسلم ہو نے پر فخر ہو نا چاہیے ۔ اِقبالؒ فرماتے ہیں :
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسولؐ ہاشمی
ایک موقع پر قائد اعظم نے طلبہ سے خطاب کر تے ہوئے کہا:’’ نو جوانو ! ا ب میں آپ کو مسلمان قوم کا حقیقی معمار سمجھتا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی ذمہ داری کو کس قدر پور ا کر پاتے ہیں ۔ اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور استحکام پیدا کیجئے ۔ دنیا میں ایک مثال قائم کر دیجئے ۔‘‘
علامہ اقبال ؒ نے بھی 1937ء میں طلبہ پر زور دیا کہ وہ اپنے اندر حر کت و عمل پیدا کریں ۔ پر عزم ارادے سے سنگلاخ چٹانوں کو بھی پاش پاش کر سکتے ہیں ۔ اِقبالؒ چاہتے تھے کہ مسلمان نو جوان شاہین کی طر ح کو شش کر ے اور آسمان کی وُسعتوں کو چیر کر منزلِ حیات کو روشن کر ے ۔اسی لئے کہا :
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
آپ نے ہمیشہ نو جوانوں کو حر کت و عمل کا درس دیا ۔ اقبال ؒ آج کے مسلمان نو جوانوں میں اطاعت و فر مانبر داری کا وہ جذبہ پید اکر نا چاہتے تھے ،جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم ؑ کے فر زند حضرت اسماعیل ؑ نے کیا جو اطاعتِ حکم خداوندی کی در خشندہ اور ناقابلِ فرا موش مثا ل ہے ۔ اقبال ؒ آج کے نو جوانوں سے بھی ایسی ہی توقع رکھتے ہیں ۔
اِقبالؒ کے نزدیک جب ایک مسلمان نو جوان اپنے اندر ’’ شاہین ‘‘ جیسی صفات و خصو صیات پیدا کر لے گا ، محنت و دیانتدار ی اور کام کی لگن کو اپنا شعار بنا لے گا تو پھر دنیا کی کو ئی طاقت اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتی خواہ وہ نٹشے کا فوق البشر ہی کیوںنہ ہو ۔ اسی بناپر ڈاکٹر عبد المجید نے کہا کہ ’’ہماری قوم کو بدلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ نو جوان طبقے کو فکر ِاقبالؒ سے روشنا س کرا یا جائے ۔ حکیم الا مت کے متحرک اور عمل انگیز تصورات کی روشنی میں نو جوانوں کی تر بیت کی جائے ۔‘‘
آج عالمِ اسلام تاریخ کے مشکل دَور سے گز ر رہا ہے ۔اسلام کو چاروں طرف سے یہودی ایجنٹوں نے گھیر رکھا ہے ۔ ایسے وقت میں نو جوان نسل ہی میدا ن عمل میں کام کر کے تبدیلی لا سکتی ہے ۔ایسے موقع پر اِقبال ؒ کا یہ اشعار نہایت موزوں ہیں ۔
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظُلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
اس قدر ہوگی ترنّم آفریں بادِ بہار
نگہتِ خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزمِ گُل کی ہم نفَس بادِ صبا ہو جائے گی
شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز
اس چمن کی ہر کلی دَرد آشنا ہو جائے گی
دیکھ لو گے سطوَتِ رفتارِ دریا کا مآل
موجِ مضطر ہی اسے زنجیرِ پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی
نالۂ صیّاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور
خُونِ گُلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ ٔخورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
٭٭٭
محمد یوسف وحید
مدیر: شعوروادراک ( خان پور)
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔