نیکولا ٹیسلا کی طلسماتی شخصیت اور کردار
امریکی سربیئن سائنس دان نیکولا ٹیسلا (Nikola Tesla)کے بارے کہا جاتا ہے کہ ان کی یادداشت جادوئی قسم کی تھی۔ وہ کسی کتاب کو ایک بار پڑھتے تھے تو پوری کتاب انہیں ازبر ہو جاتی تھی۔ وہ اپنا ہر کام دماغی طاقت سے کیا کرتے تھے۔ وہ بنا کوئی ڈرائنگ بنائے صرف اپنے دماغ میں موجود خاکہ کی مدد سے مشینیں بنا لیتے تھے۔ ٹیسلا دنیا کی 8 مختلف زبانیں جانتے تھے جن میں سربین، انگلش، چیک، جرمن، فرنچ، ہنگیرین، اٹالین اور لاطینی زبانیں شامل ہیں۔
انہوں نے ایک بار دعوی کیا کہ وہ اپنے تمام نظریات اور تخلیقات کو اپنے ذہن میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
ان کے بارے یہ بھی مشہور ہے کہ انہیں روحانی قوتوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ صاف کاغذ اور پین اپنے سینے پر رکھ کر اپنی ایجادات کے بارے سوچتے سوچتے نیم مدہوشی کی حالت میں چلے جاتے تھے اور جب بیدار ہوتے تھے تو ان ایجادات کا حل انہیں کاغذ پر لکھا ہوا ملتا تھا۔
نیکولا ٹیسلا (Nikola Tesla)سے یہ بات بھی منسوب کی جاتی ہے کہ وہ 24 گھنٹوں میں صرف 2 گھنٹے سویا کرتے تھے۔ ایک بار ان کی ایک ٹیچر نے ان کی والدہ کو خط لکھا کہ اگر انہوں نے مناسب نیند لینا شروع نہ کی تو ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ لیکن نیکولا ٹیسلا (Nikola Tesla)نے اس تنبیہ کی کوئی پرواہ نہیں کی اور بعض دفعہ وہ مسلسل 84 گھنٹوں تک اپنے کام میں جتے رہے۔
نیکولا ٹیسلا (Nikola Tesla)دوراندیش موجد تھے۔ سنہ 1884ء میں امریکہ پہنچے تو انہوں نے مشہور موجد تھامس ایڈیسن کی کمپنی میں نوکری کی۔ اس ملازمت کے دوران ٹیسلا نے ایڈیسن سے بہت کچھ سیکھا اور ان کے لیئے ایجادات بھی کیں مگر ایڈیسن نے وعدے کے مطابق ٹیسلا کو ادائیگی نہیں کی جس وجہ سے انہوں نے ناراض ہو کر استعفی دے دیا۔
ٹیسلا نے سنہ 1895ء میں نیاگرا آبشار پر دنیا کا سب سے پہلا ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ لگایا۔ ٹیسلا کی ایجادات میں ’ٹیسلا کوائل‘ (جسے ٹیسلا کنڈلی بھی کہا جاتا ہے)، ایکس رے، ریڈار، ریموٹ کنٹرول، وائرلیس کمیونیکشن، نیون لائٹس، زمین کی فریکوئنسی، لیزرگن ٹیکنالوجی، جدید الیکٹرک موٹر، اے سی سسٹم اور اسی طرح کے دیگر بے شمار آلات شامل ہیں۔ نیکولا ٹیسلا کو خلا میں زندگی کے وجود میں بھی گہری دلچسپی تھی۔ دنیا میں پہلی بار، انہوں نے مارچ سنہ 1899ء میں اپنی لیبارٹری سے صوتی لہریں روانہ کیں اور انہوں نے خلا سے کائناتی آواز کی لہریں ریکارڈ کیں۔
ٹیسلا نے اپنے لئے جو دو لیبارٹریاں بنائی تھیں ان میں جلنے والے بلب کسی بھی تار کے بغیر چلتے تھے۔ آج جب ہم وائی فائی یا وائر لیس ٹیکنالوجی کا نام سنتے ہیں تو اس کا منبع ٹیسلا کا یہ نظریہ ہی ہے کہ بجلی یا توانائی بغیر کسی واسطے کے ترسیل کر کے اسے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
انسانی تاریخ میں نیکولا ٹیسلا (Nikola Tesla)جیسے قابل فخر گوہر بہت کم پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے علم اور سائنس کی ترویج پیسہ، عزت، شہرت اور مقام سے بالاتر ہو کر کی۔ ٹیسلا جو غیر معمولی کردار کے حامل سائنس دان تھے انہیں روزگار اور پیسوں کا انتظام رکھنے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ حتی کہ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری سال اپنے قرضوں سے بچنے کے لئے مسلسل ہوٹلوں کو تبدیل کرتے ہوئے گزارے۔ نیکولا ٹیسلا کے بارے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب انہیں دو اعزازی لقب دیئے گئے انہوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ سنہ 1912ء میں، نیکولا ٹیسلا اور تھامس ایڈیسن کو "نوبل پرائز” بانٹنے کے لئے منتخب کیا گیا۔ لیکن نیکولا ٹیسلا نے یہ ایوارڈ بھی لینے سے انکار کر دیا۔
اس کے باوجود نکولا ٹیسلا (Nikola Tesla) ایک ایسے بے لوث، سچے اور قابل فخر انسان تھے کہ جسے آج ہم 20ویں صدی کے عظیم ترین موجد کے طور پر جانتے ہیں۔
نیکولا ٹیکسلا (Nikola Tesla) کے اعلی انسان دوست اور ذاتی کردار کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے 124 سال پہلے سنہ 1900ء میں اپنے مشہور زمانہ "ٹیسلا ٹاور” منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔ ان کا یہ منصوبہ دنیا کے لئے ایک سستا اور مسلسل بجلی اور انفارمیشن کی ترسیل کے لئے تھا جو 17 سال بعد فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے سنہ 1917ء میں بند کرنا پڑا تھا۔ اس منصوبے کے لیئے فنڈز فراہم کرنے کی ذمہ داری مشہور سرمایہ کار جے پی مورگن نے لی تھی تاہم جب انہیں اندازہ ہوا کہ اس منصوبے کی کامیابی کی صورت میں عام انسانوں کو مفت بجلی ملے گی تو انہوں نے اس منصوبے کو مزید فنڈز دینے سے انکار کر دیا۔ ٹیسلا نے زندگی بھر مکان نہیں خریدا، مشکل مالی حالات کی وجہ سے انہیں یہ منصوبہ بلآخر بند کرنا پڑا۔
اقوام متحدہ نے 10 جولائی کو "ٹیسلا ڈے” کے نام سے موسوم کیا۔ سربیا کے شہر بلغراد میں ان کے نام سے ایک میوزیم قائم کیا گیا ہے۔ ان پر کئی مقالے اور کتب لکھی گئی ہیں مگر نیکولا ٹیسلا کے انسانیت پر احسانات کا شمار کرنا ممکن نہیں۔ ٹیسلا کا دعوی تھا کہ وہ 150 سال تک زندہ رہیں گے "اے بسہ آرزو کہ خاک شدہ”۔ ٹیسلا نے شادی نہیں کی اور اپنی پوری زندگی سائنسی ایجادات کے لیئے وقف کیئے رکھی۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ 100 سال کی عمر کے بعد اپنی زندگی کے راز، نظریات اور تخلیقات پر مبنی یادداشتیں لکھ کر انسانیت پر ایک اور احسان کریں گے مگر وہ ایسا کبھی نہ کر سکے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران 7 جنوری سنہ 1943ء کو 86 برس کی عمر میں وہ نیو یارک کے ایک ہوٹل کے کمرے میں دل کے بند ہو جانے کی وجہ سے انتقال کر گئے۔
نیکولا ٹیسلا (Nikola Tesla) اور ان کے منصوبوں کے حوالے سے سنہ 2008ء میں فوربز میگزین کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں گوگل کے کو فاؤنڈر لیری پیج نے اس درویش منش سائنس دان کے بارے میں کہا: ”ٹیسلا کی کہانی ایک اداس کر دینے والی داستان ہے۔ وہ اپنی کسی ایجاد کو کمرشلایز نہ کر سکے۔ ان کے پاس اتنے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے کہ وہ اپنی ریسرچ کو جاری رکھ سکیں۔”
نیکو ٹیسلا (Nikola Tesla)کی طرح ایک انسان عظیم ہو سکتا ہے مگر وہ بیک وقت سب خوبیوں کا مالک نہیں ہو سکتا۔ قدرت ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازتی ہے۔ کوئی انسان اپنی پہچان کر لے تو ہر ذرہ اپنی جگہ آفتاب ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔