نمازِ شب میں جذب و مستی انسان کو ایک خاص لذت سے آشنا کرتی ہے۔ جس طرح دھنک کے رنگ انسان کی آنکھوں کو بھلے لگتے ہیں اس طرح نمازِ شب پڑھنے والے کی پر کیف تسبیحات فرشتوں کو سُرور بخشتی ہیں ۔
کیونکہ جب انسان نماز شب کے لیے اٹھتا ہے تو اللہ رب العزت اپنے فرشتوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ دیکھو میرا بندہ میری بندگی کرنے کے لیے اپنے سکون کو ترک کر رہا ہے اس لیے میرے اس بندے کے لیے رحمت کی دعا کرو۔ ہمارے آئمہ طاہرین نے اسوہ حسنہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چلنے کی اس لیے بھی تاکید فرمائی ہے تا کہ آپ حضرات کے شیعہ اور محبین شیطان کے شر اور حملے سے محفوظ رہیں کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
” کوئی شخص بھی رات بھر نہیں سوتا مگر یہ کہ شیطان اس کے کان میں پیشاب کر دیتا ہے ایسا رات بھر سونے والا شخص قیامت کے دن کا مارا ہوا اور بیچارگی کا مارا ہوا نظر آئے گا اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے جسے فرشتہ رات میں دوبار بیدار نہ کرتا ہو ایک فرشتہ یے جو ہر شخص کو ہر شب میں دو بار نیند سے جگاتا ہے وہ فرشتہ کہتا ہے خدا کے بندے اٹھ جاو۔ اپنے پروردگار کو یاد کرو اور اگر تیسری بار بھی وہ بیدار نہ ہو تب شیطان اس کے کان میں پیشاب کر دیتا ہے۔”
اس لیے شیطان کے شر سے بچنے کے لیے اور علم و آگہی کے بیکراں سمندر سے گوہرِ نایاب سمیٹنے کے لیے نماز شب کا دامن پکڑنا چاہیے اور یہ گوہر صرف اور صرف نماز شب ہی میں موجود ہیں ۔ نماز شب کے متعلق اللہ رب العزت پارہ نمبر 26 سورہ الذٰریٰت کی آیت نمبر 16 ،15 میں متقی لوگوں کے متعلق ارشاد فرماتا ہے کہ جو لوگ دنیا سے نیکیاں اور عاجزی سمیٹ کر لائے ہیں آج ان کا پھل حاصل کر رہے ہیں اور ان کی نیکیوں کی تفصیل یہ ہے کہ وہ رات کا اکثر حصہ میری عبادت میں گزار دیتے ہیں اور سحر کے وقت جب رات اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو مجھ سے اپنی خطاوں کی معافی کے خواستگار ہوتے ہیں اور یہ گڑگڑا کے کہتے ہیں کہ یا اللہ مجھ سے حق عبودیت ادا نہ ہو سکا اور جو جو کوتاہی اس میں رہ گئی ہے اپنی رحمت کی برکتوں سے معاف فرما ! عبادت کا عروج ان کو تکبر سے دور کرتا ہے اور جس قدر بندگی میں ترقی کرتے ہیں خشیت و خوف بڑھتا جاتا ہے
الذٰریٰت کی آیت کریمہ ملاحظہ فرمائیے
ان المتقین فی جنت و عیون ○
بےشک ( ڈرانے والے ) متقین باغوں میں ہیں اور چشموں میں ۔۔
ا خذین ما ا لھم ربھم ○
لے لیتے ہیں جو دیا ان کو ان کے رب نے
انھم کانو ا قبل ذلک محسنین○
وہ تھے اس سے پہلے نیکی کرنے والے
کانو قلیل من الیل ما یہجعون
وہ رات کو تھوڑا سوتے ہیں ۔
و بالاسحار هم يستغفرون
اور دمِ سحر وہ معافی کے خواستگار ہوتے ہیں ۔
الذٰریٰت کی اس مقدس و مکرم آیہ کریمہ میں اللہ جل شانہ نے کچھ لوگوں کی کامیابی کا تذکرہ کیا ہے یہ ایسے لوگ ہیں جو تقوی اختیار کرتے ہیں اور جتنا انہیں رب العزت نے عطا کیا ہے اسی پر قناعت کر کے صبر و شکر کرتے ہیں ۔ عاجزی و انکساری کرنا ان کا شیوہ ہوتا ہے اور ان کا وصف یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ رات کو بہت کم سوتے ہیں اور زیادہ وقت ان کی جبینیں سجدہ ریز ہی رہتی ہیں اور جونہی سحر نمودار ہونے کے قریب تر ہوتی ہے یہ لوگ اپنی خطاؤں اور اپنی لغزشوں پر پرنم آنکھوں اور پشیمان دل سے معافی کے خواستگار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یہ لوگ جنت کی خوشبوؤں میں پھریں گے اور جنت کے میٹھے چشموں سے تشنگی مٹا کر لطف اندوز ہوں گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے آرام کو ترک کر کے نمازِ شب خشوع وخضوع سے ادا کی ۔
میرے دل میں ایک سوال اٹھ رہا ہے؟
آج کیا وجہ ہے کہ ہم نے طاغونی طاقتوں کے ہتھکنڈوں( انٹرنیٹ وغیرہ) میں آ کر دین کی درخشاں وتاباں تعلیمات کو فراموش کر دیا ہے؟
آپ نے زندگی کے کتنے لمحے الله رب العزت کی محبت میں نچھاور کئے !
آپ نے اور میں نے زیست کی کتنی ساعتیں وی سی آر، ڈش انٹینا ، کیبل، فیس بک، ٹوئٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ کی بے حیائی کے ساتھ گزاری ہیں اور کتنی ساعتیں عبادتِ خدا کے لیے نماز شب میں وقف کیں ؟
آپ نے فرائض کو تو ادا کیا ہوگا سنتیں بھی پڑھی ہوں گی لیکن جب نمازِ شب کا سوال آتا ہے تو بہت سے ایسے افراد ہوں گے کہ جنہوں نے نماز شب زندگی بھر ادا ہی نہ کی ہو گی۔
اس کی کیا وجہ ہے؟ کبھی آپ نے سوچا ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ آپ نے سوچا ہو گا کیونکہ اس کو سوچنے کے لیے وقت درکار ہے اور آج نفسا نفسی کا عالم ہے اس کے لیے وقت تب نکلتا ہے جب محبت و عشق کی اڑان وادیء نماز شب میں اڑا کر لے جائے جس میں شوق و وارفتگی ہو۔ اور یہ اس صورت میں ممکن ہے جب آپ اسوہ ء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق ہوں اور اس پر عمل پیرا ہوں اور آپ کی زبان، آپ کے ہاتھ اور آپ کے پاوں اسی طرف بڑھتے ہوں جس طرف آنحضورؐ نے جانے کا حکم دیا ہو۔ کیونکہ قرآن مجید ہمیں دعوتِ فکر و عمل دیتا ہے اور آنحضورؐ کی انوار افروز سیرت کے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:۔
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ ۔
یعنی” تمہارے لیے آنحضورؐ کی ہستی میں بہترین نمونہ ہے "
آنحضورؐ کے افکار و خیالات کو اللہ رب العزت نے وہ رفعتیں اور تابانیاں عطا کیں کہ آپ کی سیرت کو نمونہ قرار دیا۔ آپ رات کا بیشتر حصہ خدا وند کریم کی یادوں کو دل میں سجاتے اور سجدہ ریز ہوتے۔
کیا آج ہم بھی ذکر و فکر کی لذتوں، تسبیج و تہلیل کی حلاوتوں اور اسوہء رسولؐ پر عمل پیرا ہو کر ذکر الہی میں مشغول رہتے ہیں۔
ہمارے قدم تو بارگاہِ الٰہی کی طرف بڑھنے کی بجائے سینما گھروں اور انٹر نیٹ کلبوں کا رخ کرتے ہیں ہماری زبانیں قرآن حکیم کی درخشاں و منور آیات کی تلاوت کا شرف حاصل کرنے کی بجائے جہنم کی پکار "موسیقی ” کی طرف راغب ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاتھ صدقہ و خیرات کرنے کی بجائے غریبوں اور یتیموں سے روٹی کا نوالہ چھین لینے کی سعی کرتے ہیں۔
کیا یہی ہمارا دین سکھاتا ہے؟
بالکل نہیں ۔
کیا یہی درسِ آل محمدؐ ہے؟
بالکل نہیں۔
کیا یہی مسلمان اور مومن کا وطیرہ ہے؟
بالکل نہیں ایسا نہیں ہے۔
نمازِ شب ابلیس کے لیے پھندہ ہے جس میں مومن شیطان کو جکڑ کر اپنی روحانی طاقت میں اضافہ کرتا ہے اور یہی طاقت اسے مقام عرفان تک لے جاتی ہے جہاں اسے اللہ رب العزت کے جلوے نظر آتے ہیں ۔یہ میرا لکھا ہوا شعر ملاحظہ کیجیے:۔
ابلیس روکتا ہے تہجد کی بات سے
بڑھ جائے نہ بشر یہ کہیں ایک رات سے
وہ سرخرو بشر ہو گا کارِ جہان میں
اپنی لگن جو رکھے گا "حاشر ” کی ذات سے
سیّد حبدار قائم
کتاب” نماز شب "کی سلسلہ وار اشاعت
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔