( میرا آج کا آرٹیکل آنیوالے سال کا سیاسی زائچہ یا کنڈلی ثابت ہوگا ۔ جس نے نہ پڑھا ، وہ سال 2021 کو نہیں سمجھ پائیگا ۔ )
تحریر :سیدزادہ سخاوت بخاری
عیسوی سال 2020 اپنے اختتام کو پہنچا اور 2021 کا سورج طلوع ہونے کو ہے ۔ آئیے دیکھتے ہیں یہ چکر کیا ہے ۔ کیا واقعی کوئی تبدیلی رونماء ہونیوالی ہے یا ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے ۔
کائنات کے خالق نے سورج ، چاند ، ستارے ، زمین ، آسمان ، سمندر ، دریاء ، پہاڑ ، نباتات ، جمادات ، چرند ، پرند ، کیڑے ، مکوڑے ، پانی ، ہوا ، بادل ، مٹی ، پتھر اور دیگر مرئی و غیر مرئی اشیاء تخلیق کرنے کے بعد حضرت انسان اور جنات کے حوالے کردی ۔ جنات چونکہ غیرمرئی یا نظر نہ آنیوالی مخلوق ہے لھذا اس کا تذکرہ یہیں چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ۔
یوں تو مورخین کا اس بات پر اختلاف ہے کہ آدم (Adam ) کسی ایک شخص کا نام تھا یا جس آدم کی ہم اولاد ہیں وہ آدم ثانی یا ثالث ہے ۔ اس اختلافی بحث سے قطع نظر ، بائبل اور قرآن کے بیان کے مطابق ہم تمام انسان حضرت آدم کی اولاد ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ، تعداد و استعداد میں ترقی کرتے کرتے آج اس کرہء ارض پر ، ہر خطے اور کونے میں آباد ، زندگی بسر کررہے ہیں ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ، دلچسپی سے خالی نہ ہوگا ، کہ ابتدائی انسان ، جنگلوں ، پہاڑوں اور صحراوں میں مارا مارا گشت کرتا رھا اور باالآخر تجربات نے اسے غاروں میں مکین ہونے ، بسنے اور پناہ لینے کی ترغیب دی ، اسی لئے اس زمانے کو غاروں کا دور کہتے ہیں ۔ وہ نہیں جانتا تھا ، سورج کیا ہے ، چاند کسے کہتے ہیں ۔ اس کی پوری کی پوری زندگی احساس یا محسوسات کی محتاج تھی ۔ مثلا سورج آگ برساتا تو اسے محسوس ہوتا کہ کوئی بلاء ہے جو اس کے جسم کو جلا رہی ہے ۔ بارش برستی تو وہ سمجھتا کسی نے اس پر حملہ کردیا یے ۔ ان پریشانیوں اور صعوبتوں سے بچنے کی خاطر وہ دوڑ لگا دیتا ۔ دوڑتے دوڑتے اسے کہیں غار نظر آئی تو اس میں گھس گیا ۔ اب یہاں سورج کی حدت اور بارش کے پانی سے نجات ملی تو اس نے جانا کہ اس جگہ رکنے سے بلائیں پیچھا چھوڑ دیتی ہیں لھذا یہیں سے غاروں کے دور کی ابتداء ہوئی اور اپنے تجربے کی بنیاد پر حضرت انسان ، ننگ دھڑنگ ، غاروں میں رھنے لگا ۔
خوراک کے بارے میں بھی اسے کوئی شعور نہ تھا ۔ کیا کھانا ہے کیا نہیں کھانا ، البتہ جبلت ( Instinct ) کے زیر اثر پیٹ میں کچھ نہ کچھ ڈال لیتا تھا ۔ اس بات کو اسطرح سمجھا جا سکتا ہے کہ جب نومولود بچے کو بھوک لگتی ہے تو وہ رونا شروع کردیتا ہے اور ماں سمجھ جاتی ہے کہ بچہ بھوکا ہے لھذا بھوک اور پیاس جبلت ہی کی اقسام ہیں اس کے لئے کسی تعلیم ، تدریب یا تجربے کی ضرورت نہیں ۔ خالق نے انسانی مشین کے اندر ایسا آٹومیٹک نظام رکھا ہے جو بھوک اور پیاس جیسی بنیادی ضرورت کو مٹانے اور بھجانے کے سگنل بھیجنا شروع کردیتا ہے اور اسی کے جواب میں انسان کھانا کھاتا ہے پانی پیتا ہے ۔ اس طویل و عریض کہانی کو چند الفاظ یا جملوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔ انسانی زندگی کی ابتداء اور ارتقاء سے دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات ، انسانی زندگی کے ابتدائی دور کی مکمل کہانی پروفیسر سبط حسن کی کتاب "ماضی کے مزار ” میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔
غاروں کے دور سے شکاری دور تک انسان مسلسل ھجرت میں رھا ۔ کبھی یہاں تو کبھی وھاں ، باالآخر زرعی دور کی ابتداء ہوئی تو بنی آدم نے زمین پر ایک جگہ رک کر زندگی بسر کرنا شروع کی ، کیونکہ زراعت کسی ایک مقام پر ٹھہر نے کا تقاضا کرتی ہے ، چنانچہ یہیں سے تہذیب و تمدن اور مذھبیات نے جنم لینا شروع کیا ۔
انسانی تہذیب و تمدن کا اولین ظھور موجودہ عراق کے علاقے بین النہرین یعنی دجلہ و فرات کے درمیان خشکی کے اس ٹکڑے پر ہوا جسے Mesopotamia یا وادی بابل ( Babylon )کہا جاتا ہے ۔ اس قصے کی تاریخ 4 ھزار سال قبل مسیح تک جاتی ہے یعنی الہامی کتب کے نزول سے بھی پہلے ۔
اھل بابل کے بارے میں تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انہوں نے پکے گھر تعمیر کرنا سیکھ لئے ، باغات اور کھیت کھلیان آباد کئے یا یوں کہئیے کہ تمدنی زندگی کا آغاذ ہوا اور پھر بادشاہ حموربی ( Hammurabi ) کے دور تک تک آتے آتے وہ اتنے مہذب ہو چکے تھے ، اسقدر جینے کا سلیقہ سیکھ چکے تھے کہ حموربی نے ، سن 1800 قبل مسیح میں ، انسانی تاریخ کا پہلا آئین اسی سلطنت بابل میں نافذ کیا تاکہ لوگ ایک منظم ( Disciplined ) زندگی گزار سکیں ۔
تاریخ نویسوں کے مابین اختلاف رائے کے باوجود اکثر محققین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ” تحریر کا فن "یعنی الف ب اور ” علم فلکیات ” ، ستاروں اور سیاروں کے بارے تحقیق ، ان کی دریافت ، پہچان اور تشریع ، اھل بابل ہی کا کارنامہ ہے ۔ بابل شھر ، اگرچہ ” چاہ بابل ” یا بابل کے اس کنویں کہ وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہے کہ جس میں ھاروت و ماروت نامی دو فرشتے الٹے لٹک رہے ہیں لیکن اس سے بھی اہم وجہء شھرت ، وہ بلند و بالا منارہ ہے جس پر چڑھ کر وھاں کے علماء فلکیات ، سورج ، چاند ، ستاروں اور سیاروں کی چالوں اور حرکات کا مشاھدہ کرتے تھے اور جسے تاریخ میں ” منارہ بابل ” ( Minarate of Babylon ) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
قارئین کرام :
ابتداء میں بیان کیا تھا کہ خالق کائنات نے سورج ، چاند ، ستارے اور سیارے وغیرہ وغیرہ کی تخلیق کے مکمل ہونے پر اسے بنی آدم کے تصرف میں دیدیا تاکہ وہ اپنی خداداد عقل اور جستجوء سے اس کے پوشیدہ راز جان کر زیست کے قائدے اور قوانین تیار کر سکے ۔ چنانچہ منارہ بابل سے شروع ہونے والی تحقیق جب آگے بڑھی تو شمس و قمر کے سفر اور چالوں کو ناپ اور تول کر ، لمحے ، دن ، رات ، مہینے اور سال یعنی وقت ماپنے کے پیمانے وجود میں لائے گئے جسے آج ہم تقویم یا کیلنڈر کے نام سے جانتے ، پہچانتے ، مانتے اور استعمال کرتے ہیں ۔
جب سے سورج اور چاند کی حرکات و مناذل دریافت ہوئی ہیں دنیاء بھر کی اقوام نے اپنی اپنی سوچ و فکر ، ضرورتوں ، رسم و رواج ، موسمیات اور عقائد کی بنیاد پر مختلف کیلنڈر ترتیب دئے جن میں سے چند ایک آج بھی رائج ہیں ۔ ھندوں کے ھاں ایک قدیمی کیلنڈر بکرمی ، سکھوں کا نانک شاھی ، مسلمانوں کا ھجری اور عالم مسیحیت میں عیسوی یا گریگورین کیلنڈر نافذ ہے ۔ اس کے علاوہ ، یہودی ، جرمن اور چینی کیلنڈر بھی ہیں لیکن مجموعی طور پر ، دنیاء جس کیلنڈر کی پیروی کرکے ہر سال یکم جنوری سے نیاء سال شروع کرتی ہے اور جسے اچھا یا برا سال مانا جاتا ہے وہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ کی پیدائش سے شروع ہوا اور عیسوی یا گریگورین کہلاتا ہے ۔
آگے بڑھنے سے قبل اس طرف بھی اشارہ کردوں کہ اگر حضرت مسیح علیہ کی پیدائیش 25 دسمبر کو ہوئی تھی تو کیلنڈر یکم جنوری سے کیسے شروع ہوا ؟ دراصل اس موضوع پر مسیحی دنیاء خود بھی تذبذب اور اختلاف کا شکار ہے ۔ اعتراض اٹھانے والوں میں ایک پادری بھی شامل ہے جس کا کہنا ہے کہ ہماری کتاب حضرت مسیح کی پیدائیش کے باب میں کہتی ہے کہ ،
” جب عیسی مسیح پیدا ہوئے تو اس رات ریوڑ چرانے والے اپنی بھیڑ بکریوں کی نگہبانی کے لئے کھلے میدان میں موجود تھے "( بحوالہ کتاب مقدس – لوقا کی انجیل باب 2 آئت نمبر 8 )
اعتراض کنندہ کا خیال ہے کہ اگر چرواھے کھلے میدان میں موجود تھے تو اس کا مطلب ہے موسم سرد نہیں تھا جبکہ فلسطین میں دسمبر اور جنوری کے مہینے سرد ترین اور برفانی خیال کئے جاتے ہیں ۔
اسی طرح قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت عیسی علیہ کی پیدائیش ہوئی تو کھجور پر پھل موجود تھا جبکہ کھجور کا پھل دسمبر نہیں بلکہ جون جولاٙئی میں آتا ہے ۔ ( بحوالہ قرآن باب 19 سورة مریم )
مختصرا یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ کی صحیح تاریخ پیدائیش بتانا مشکل ہے البتہ وہ سلطنت روما کے کیلنڈر کے مطابق رومی سال میں پیدا ہوئے ۔ حقائق کچھ بھی ہوں اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اس وقت نظام دنیا ، عیسوی یا گریگورین کیلنڈر کے مطابق ہی چل رہا ہے اور یہی یونیورسل تقویم ہے ۔
اب آجائیں اس طرف کہ نیا سال 2021 نحس ہوگا یا سعد یعنی انسان کے حق میں بہتر رہے گا یا یہ بھی جانے والے کی طرح وبائیں اور آفتیں لئے نمودار ہورہا ہے ۔ میرے خیال سے وہی راتیں ہونگی اور وہی دن ، صرف ایک ھندسہ بدل جائیگا اور ھندسہ بدل جانے سے بھلا سعد اور نحس کا کیا واسطہ اور تعلق ، لیکن ماھرین علم الاعداد اور علم نجوم کے جاننے والے اس بات پر ہمیشہ سے اصرار کرتے آئے ہیں ، کہ ، ہر نیا سال ، انسانی سوسائیٹی کے لئے الگ کیفیات لیکر آتا ہے ۔ یہ ایک طویل بحث ہے جسے یہاں اس آرٹیکل میں جگہ نہیں دی جاسکتی ۔ اس موضوع پر ان شاء اللہ ایک مضمون الگ سے تحریر کرونگا تاکہ یہ پتا لگایا جاسکے ، کہ ستاروں اور سیاروں کی گردش کے انسانی زندگی پر کیا کیا ، کب کب اور کیسے کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
فی الحال اس بات پر اکتفاء کرتے ہیں کہ انسانوں کی سوچ ، اس کے نتیجے میں پیدا ہونیوالے اعمال اور پھر ان اعمال کے منطقی نتیجے کے طور پر ، ظاھر ہونے والے حالات و واقعات ہی ، کسی بھی سال کے نحس یا سعد ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ نظام کائنات کیا انسان چلا رہا ہے ۔ قدرتی آفات بھی تو آسکتی ہیں ۔ جی ھاں یہ بات درست ہے لیکن اگر اس کا ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو قدرتی آفات بھی انسانوں کے برے اعمال ہی کا نتیجہ ہوتی ہیں ورنہ خدا ظالم نہیں کہ اپنے بندوں پر بلاوجہ بلائیں ، وبائیں ، عذاب اور مصیبتیں ناذل کرے ۔
اگر آپ اس بات کو مان چکے ہیں کہ کوئی سال اچھا یا برا نہیں ہوتا بلکہ انسانی اعمال اسے اچھا یا برا بنادیتے ہیں تو پھر پاکستان ، علاقے اور دنیاء کی مجموعی سیاسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ، برائے سال 2021 , درج زیل پیشینگویاں کی جاسکتی ہیں ۔
1. پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کی موجودہ چپقلش سے فائدہ اٹھاکر کوئی تیسری طاقت ، ہمارے ملک میں انتشار و خلفشار پیدا کرنے کے لئے بہت بڑی کاروائی کرسکتی ہے ۔ کسی اہم شخصیت کو جانی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے ۔
2. بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی اپنے اندرونی مسائل سے توجہ ھٹانے کی خاطر پاکستان سے جنگ چھیڑ سکتا ہے اور یہ جنگ چین تک پھیل جانے کے واضع امکانات موجود ہونگے ۔ اگر ایسا ہوا تو ممکن ہے اس جنگ کے نتیجے میں کشمیر ، خالصتان اور بھارت کی کئی دیگر ریاستیں ھندوستان سے آذادی کا نعرہ بلند کردیں۔ ایسے واقعات کا رونماء ہونا کوئی اچنبے کی بات نہ ہوگی کیونکہ ماضی قریب میں مشرقی پاکستان ، مغربی پاکستان سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بنا ، انڈونیشیاء کا مسیحی آبادی والا جزیرہ مشرقی تی مور ایک آذاد ملک کی حیثیت سے وجود میں آیا ۔ کمیونسٹ یوگو سلاویہ ٹوٹا اور اس کے بطن سے 6 نئے ملک , بوسنیا ھرزگوینیا ، کرویشیاء ، مقدونیہ ، سلواکیہ ، مونٹی نیگرو اور سربیا دنیاء کے نقشے پر نمودار ہوئے ۔ سوویت یونین جیسی عالمی طاقت بکھر کر 16 نئی ریاستوں میں تقسیم ہوئی اور اسلامی ملک سوڈان دو حصوں میں بٹ چکا ہے ۔
3. بھارتی پنجاب کے کسانوں کا موجودہ دھرنا اور ان کے احتجاج کے خلاف حکومتی ایکشن ، اسے خالصتان تحریک میں تبدیل کر سکتا ہے کہ جس کے لئے اندرون و بیرون ملک فضاء تیار ہوچکی ہے ۔
4. عالمی سطح پر چین ، پاکستان ، ترکی ، افغانستان ، ایران ، روس ، قطر ، آذربائیجان اور کئی دیگر ممالک پر مشتمل ایک نئے سیاسی بلاک کی تشکیل میں پیشرفت کے امکانات نئے سال میں واضع دکھائی دے رہے ہیں ۔
5. کورونا کی وباء نئے سال کے آخر تک موجود رھیگی البتہ ویکسین آجانے سے ، اس کی شدت اور خوف کم ہوجائیگا ۔
6. چین ، اپنے آپ کو سپر پاور منوانے کی سمت پیشقدمی جاری رکھے گا لھذا امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات مزید کشیدہ ہوسکتے ہیں جس سے پوری عالمی سیاست متاثر ہوگی ۔
7. عرب دنیاء میں تبدیلیوں کے آثار نمایاں ہیں ۔ کسی اہم شخصیت کی موت واقع ہوجانے کی صورت میں اقتدار کی جنگ پورے علاقے بلکہ عالمی سیاست پر اثر انداز ہوگی ۔
8. اس بات کا بھی امکان ہے کہ عالمی طاقتوں کی بعض خواھشات پر عمل کرنے یا نہ کرنے ، دونوں صورتوں میں ، کسی اھم ملک میں اندرونی طور پر انقلاب برپاء ہوجائے جس کے اچھے اور برے اثرات دور دور تک پھیل سکتے ہیں ۔
9. موجودہ سیاسی زائچے کے مطابق عمران خان کی حکومت کو بہ ظاھر کوئی خطرہ نہیں اور 99% یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی 5 سالہ مدت پوری کرینگے ۔ ایک فیصد کا مارجن اس لئے دے رہا ہوں کہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے ۔
10. سال 2021 بحیثیت مجموعی پاکستان کے لئے بہتر ثابت ہوگا اور پڑوسی ملک سے جنگ یا عالمی مافیاء کی سازشوں کے علاوہ اسے کوئی خطرہ نہیں ۔
11.. پاکستان کے کئی سابقہ حکمران اور سول سروس ملازمین جیل یاترا پر جاسکتے ہیں ۔ البتہ اس بات کا واضع امکان موجود ہے کہ ایک شاطر سیاسی شخصیت نقد تاوان ادا کرکے اپنے خاندان سمیت ان صعوبتوں سے بچ جائے ۔
آخر میں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ مضمون کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے تبصروں سے مستفید فرمائیں اور اگر آرٹیکل پسند آئے تو دیگر گروپوں اور ساتھیوں سے شئیر کردیں ۔
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔