معاشرتی تعمیر کے لیئے دماغی صحت کی ضرورت

معاشرتی تعمیر کے لیئے دماغی صحت کی ضرورت

Dubai Naama

ہمارا دماغ کسی بھی لمحے کام کرنے سے چھٹی نہیں کرتا ہے۔ حتی کہ جب ہم سو رہے ہوتے ہیں یا غنودگی اور بے ہوشی کے عالم میں ہوتے ہیں تو تب بھی ہمارا دماغ پورے جسم کے نظام کو سنبھالے ہوئے ہوتا ہے۔ اگر ہمارے دماغ کا کچھ حصہ حالت آرام میں ہے یا بلفرض کام نہیں کر رہا ہے تو اس کا براہ راست مطلب یہ ہے کہ ہمیں کوئی جسمانی بیماری لاحق ہونے والی ہے یا ہو چکی ہے۔

ہماری ساری کامیاب جسمانی اور روحانی زندگی کا دارومدار ہمارے دماغ کی بہتر کارکردگی سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارے پورے جسم کا نظام نروو سسٹم اور چھوٹے چھوٹے ریشوں اور نالیوں کے ذریعے ہمارے دماغ سے جڑا ہوا ہے جہاں سے دماغ پورے جسم کو ہدایات اور جسم دماغ کو اطلاعات فراہم کرتا ہے۔ جب جسم میں کسی جگہ خرابی پیدا ہوتی ہے تو سب سے پہلے اس کا احساس دماغ کو ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب کسی جگہ پر زخم آ جائے تو دماغ کو فورا درد محسوس ہوتا ہے۔ دراصل درد زخم والی جگہ پر نہیں ہوتا بلکہ اس زخم کا درد دماغ میں محسوس ہوتا ہے۔ زخم جسم میں ہوتا ہے مگر درد دماغ محسوس کرتا ہے کیونکہ پورے جسم کا اصل مرکز اور جڑ دماغ ہوتا ہے۔ اسی لیئے ڈاکٹر آپریشن کے دوران انجیکشن وغیرہ لگا کر کانٹ چھانٹ کرنے والی جگہ کے نروو سسٹم کو سلا دیتے ہیں جس سے اس حصے کا رابطہ دماغ سے کٹ جاتا ہے۔ اس کے بعد مریض کے جسم کا کوئی حصہ بھی کاٹ دیا جائے تو اسے کوئی شدید درد محسوس نہیں ہوتا ہے۔

انگریزی کا ایک محاورہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ، "ایک صحت مند دماغ ایک صحت مند جسم میں ہوتا ہے۔” چونکہ جسم اور دماغ دونوں کی کارکردگی واقعی ایک دوسرے کو متاثر کرتی ہے۔ لھذا ہماری جسمانی اور ذہنی صحت دونوں ہی برابر اہمیت کی حامل ہیں۔ اس کے باوجود دنیا میں بہت سے ایسے نابغہ روزگار انسان پیدا ہوتے ہیں کہ وہ دماغی اور ذہنی طور پر اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ وہ اپنی جسمانی بیماریوں تک کا علاج اپنے تخیل کے زور پر کر لیتے ہیں یا وہ جسمانی معذوری کے باوجود اپنی دماغی اور زہنی طاقت کے بل بوتے پر ایک نہایت ہی کامیاب زندگی گزارتے ہیں۔ ایسی ہی چند نامور شخصیات میں برطانوی سائنس دان سٹیفن ہاکنگ بھی گزرے ہیں جو معذور ہونے کے باوجود آئنسٹائن کے بعد دنیا کے دوسرے سب سے بڑے عظیم سائنس دان تھے۔

ایک طبی کہاوت ہے کہ وہم کا کوئی علاج نہیں ہے حتی کہ اس کا حل حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ یعنی اگر ہمارے ذہن میں یہ وہم یا خیال راسخ ہو جائے کہ ہمیں فلاں بیماری ہے تو ایک مرحلے پر پہنچ کر ہم واقعی اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس طرز کی بیماری کا انگریزی ادویات سے علاج کرنا بھی ممکن نہیں رہتا ہے کیونکہ وہ بیماری ہمارے دماغ میں بیٹھ جاتی ہے۔ اچھے ڈاکٹر حضرات مریض کی ہسٹری بناتے ہیں جس سے وہ ان کے ماضی سے اس بیماری کی جڑ کا پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض اوقات اس طریقہ علاج سے یا مریض کو یہ یقین دہانی کرانے سے کہ آپ کو کوئی بیماری نہیں ہے، مریض حقیقی دوا کھانے کے بغیر ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق پلیسیبو افیکٹ کے ذریعے بھی علاج کیا جا سکتا ہے۔ دراصل پلیسیبو افیکٹ مثبت سوچ کا نتیجہ ہے۔ جب آپ کو یہ کامل و پختہ یقین ہو جاتا ہے کہ اس دوا سے آپ ٹھیک ہو جائیں گے تو بسا اوقات آپ واقعی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ ادویات کی تیاری میں بھی پلیسبو افیکٹ ایک کارگر اور جادوئی طریقہ علاج ہے۔ اکثر مرد و خواتین کی بیماریاں کچھ حقیقی اور کچھ ذہنی اختراع کا نتیجہ ہوتی ہیں، ایسے مریض ان ڈمی ادویات اور پلیسیبو افیکٹ سے مکمل طور پر تندرست ہو جاتے ہیں۔

یونانی طریقہ علاج بہت مشہور ہے جس کو ہندوستان میں کافی تقویت ملی۔ دور جدید میں مرض کی تشخیص کے لیئے تو مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پہلے حکیم نبض دیکھ کر مرض کی تشخیص کر لیتے تھے جو انگریزی طریقہ علاج شروع کرنے سے پہلے ڈاکٹر حضرات آج بھی سب سے پہلے مریض کی اپنے ہاتھ سے نبض چیک کرتے ہیں۔

ایک یونانی کہاوت ہے کہ مرض جسم میں ظاہر ہونے سے پہلے مریض کی روح میں ظاہر ہوتا ہے یعنی پہلے مریض کی روح بیماری کا شکار ہوتی ہے اور اس کے بعد اگر مریض کی ذہنی طاقت کمزور ہو اور اس کا مدافعتی نظام بھی صحیح طریقے سے کام نہ کر رہا ہو اور وہ بیماری کی روک تھام نہ کر سکے تو پھر وہی بیماری جسم میں بھی ظاہر ہو جاتی ہے۔

اس لحاظ سے ایک خوبصورت صحت مند زندگی کے لیئے جتنی جسمانی صحت اہم ہے اس سے بھی زیادہ دماغی صحت کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔ جدید عہد میں لوگوں کی اکثریت مذہب بیزار نظر آتی ہے مگر یہ مزہنی اعتقادات ہیں جو ہماری دماغی طاقت کو چٹان کی طرح مضبوط کرتے ہیں۔ اگر مذہب کی اس اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہم خود کو اخلاقی گراوٹ سے پاک رکھیں تو ہم اپنے دماغ کو کافی حد تک صحت مند رکھ سکتے ہیں۔

ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ مسلمان قوم ایک جسم کی مانند ہیں کہ جس کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو گی تو اس کا پورا جسم بے چین ہو جائے گا۔

اکثر معاشرتی خرابیاں ہماری دماغی بیماریوں کی وجہ سے جنم لیتی ہیں جن میں لالچ، جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، حسد اور منافقت وغیرہ سرفہرست ہیں۔ مسلم امہ کے ممالک میں اگر ایک معاشرہ اس طرح کی اخلاق و کردار کی خرابیوں کا شکار ہو گا تو اس کا اثر دوسرے ممالک پر بھی پڑے گا۔ ایک فرد ہو، معاشرہ ہو یا ملک ہو ہم تمام مسلمان اسلامی تہذیب کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ باہم جڑے ہوئے ہیں۔ یہ روحانی بیماریاں ہمارے مسلم معاشروں کی سیاست، تعلیم، تجارت اور دیگر ہر شعبے میں بدرجہ اتم نظر آتی ہیں۔ اگر ہم بھی ان برائیوں سے پرہیز کریں تو اہل مغرب کی طرز ہم بھی اخلاقی اقدار پر مبنی بہتر معاشرے دوبارہ استوار کر سکتے ہیں۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

9 نومبر بطور عالمی یومِ اردو

ہفتہ نومبر 9 , 2024
اردو زبان کی تاریخی اور ادبی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے 9 نومبر کو "عالمی یومِ اردو” کے طور پر منایا جاتا ہے۔
9 نومبر بطور عالمی یومِ اردو

مزید دلچسپ تحریریں