لانگ ٹرم پالیسیوں کی ضرورت
ہمارے ہاں پالیسی سازی کا کوئی باقاعدہ شعبہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اعلی پائے کے سرکاری یا پرائیویٹ تھنک ٹینکس بھی نہیں ہیں جس کے ماہرین زندگی کے مختلف شعبہ جات میں ہماری رہنمائی کے لیئے سفارشات پیش کر سکیں۔ کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیئے لانگ ٹرم پالیسیاں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ تیز تر ترقی کرنے کے لیئے ضروری ہے کہ ہر محکمہ پر تحقیق کر کے اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی وجوہات کی رپورٹس مرتب کی جائیں تاکہ انکی روشنی میں مستقبل کے ٹارگٹس حاصل کرنے کا کوئی بہتر لائحہ عمل مرتب کیا جا سکے۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کسی منصوبہ کو شروع کرنے کے لیئے کوئی ہوم ورک کرتے ہیں اور نہ ہی اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کسی قسم کے پائیدار ویژن کو سامنے رکھتے ہیں۔
پاکستان میں حکومت نے پہلا پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ سنہ 1953ء میں منصوبہ بندی بورڈ کی تشکیل کے ذریعے زرعی اصلاحات کی سفارش سے شروع کیا۔ پاکستان کے دوسرے پانچ سالہ منصوبہ کا آغاز سنہ 1960ء میں ہوا جس نے اپنے تمام تر اقتصادی اہداف کامیابی سے مکمل کئے اور 1965 میں دوسرے منصوبے کے اختتام پر پاکستان کی سالانہ ترقی کی شرح 5.5 فیصد تھی جو اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھی۔ تب پاکستان ایشیا میں ترقی کا "ٹائیگر” کہلایا تھا۔ اس تناظر میں منصوبہ بندی کمیشن نے ملک میں ترقی کی رفتار تیز تر کرنے کیلئے ایک بیس سالہ تناظری منصوبہ 1965-85 بھی تیار کیا۔ یہ وہی دور تھا جس دوران جنوبی کوریا نے پاکستان سے 5سالہ منصوبہ لے کر دنیا کے ترقی پزیر ممالک میں تیز ترین ترقی کر کے ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شمولیت اختیار کی۔ آپ کوریا کے انچھن ائیرپورٹ پر اتریں تو آج بھی وہاں پاکستان کے سابقہ وزیر خزانہ اور بین الاقوامی ترقیاتی نظریہ کے حامل ڈاکٹر محبوب الحق کی لگی قد آدم تصویر نظر آئے گی۔ اس کے بعد سنہ 1988ء میں جمہوریت آئی۔ سابق نومنتخب وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے ڈاکٹر محبوب الحق کی جگہ اپنی نئی کابینہ میں ایک غیر معروف شخص احسان الحق پراچہ کو وزیر مملکت برائے خزانہ مقرر کیا۔ ان 36 سالوں میں اب یہ پہلا موقع تھا جب نگران حکومت نے 8فروری کے شیڈول عام انتخابات سے قبل اہم فیصلوں کی تیاری کی اور نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس 29 جنوری کو طلب کیا جس میں
"زیرو پراگریس” کے 76 صوبائی منصوبوں کے لئے رواں مالی سال کے بجٹ میں 34 ارب 40 کروڑ روپے مختص کئے گئے۔ ذرائع کے مطابق مستقبل میں پی ایس ڈی پی سے صوبائی منصوبوں اور پارلیمنٹرینز کی اسکیموں کے لئے مزید فنڈز پر پابندی لگانےکی تجویز بھی شامل تھی۔
لیکن نئی حکومت اس اقتصادی سکیم کے مطابق چلتی نظر نہیں آ رہی ہے کیونکہ پنجاب کی نو منتخب حکومت نے ملک سے غربت ختم کرنے کی بے نظیر فنڈ، لیپ ٹاپ اور راشن تقسیم کرنے جیسی جن سکیموں کو شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے ان کا تعلق سفید پوش عوام کی عزت کا جنازہ نکالنے سے تو ہو سکتا ہے مگر اس کی نسبت خوشحالی یا غربت کے خاتمہ کی کسی دیرپا اور پائیدار پالیسی سے ہرگز نہیں ہے۔
ایک حالیہ افسوسناک رپورٹ کے مطابق اس وقت بھی 24کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں 3کروڑ 80لاکھ بھکاری پائے جاتے ہیں جس میں 12فیصد مرد، 55فیصد خواتین، 27فیصد بچے اور بقایا 6فیصد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں۔ ان بھکاریوں کا نیٹ ورک 50فیصد کراچی، 16فیصد لاہور، 7فیصد اسلام آباد اور بقایا دیگر شہروں میں پھیلا ہوا ہے۔ کراچی میں روزانہ اوسطاً فی بھکاری 2ہزار روپے، لاہور میں 1400 اور اسلام آباد میں 950روپے ہے۔پورے ملک میں فی بھکاری اوسط 850روپے ہے۔ یوں روزانہ بھیک کی مد میں یہ بھکاری 32ارب روپے لوگوں کی جیبوں سے نکال لیتے ہیں۔ یہ رقم سالانہ 117کھرب روپے ہے۔ ڈالر کی اوسط میں یہ رقم 42ارب ڈالر بنتی ہے۔ اگر اس رقم سے انڈسٹری لگائی جائے یا روزگار کے مستقل مواقع پیدا کیئے جائیں اور "سمال انڈسٹری” وغیرہ کو فروغ دیا جائے اور وہاں یہ 3کروڑ 80لاکھ افراد کام کریں تو یہی افراد فی کس اوسطا 2ہزار روپے کی پروڈکٹ بنا سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ روزانہ 76ارب روپے یعنی 27کروڑ ڈالر کی گھریلو صنعت کی پروڈکٹس بنا سکتے ہیں اور سالانہ کام کے دنوں کے اعتبار سے 78ارب ڈالر کی پروڈکٹس تیار کر سکتے ہیں۔ اگر ہم 50فیصد ہی کارکردگی کا تناسب رکھیں تو تب بھی سالانہ 39ارب ڈالر کی ایکسپورٹ متوقع ہے۔
بغیر کسی منافع بخش کام کے بھکاریوں پر ترس کھا کر ان کی مدد کرنے سے ہماری جیب سے سالانہ 42ارب ڈالر نکل جاتے ہیں۔ اس خیرات کا نتیجہ ہمیں سالانہ 21فیصد مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے اور ملکی ترقی کیلئے 3کروڑ 80لاکھ افراد کی عظیم الشان افرادی قوت کسی کام نہیں آتی۔ جبکہ ان سے کام لینے اور معمولی کام ہی لینے کی صورت میں آمدنی 38ارب ڈالر متوقع ہے جو چند برسوں میں ہی ہمارے ملک کو اپنے پا’وں پر کھڑا کر سکتی ہے۔
جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ نون لیگ ہو، پیپلزپارٹی ہو یا تحریک انصاف ہو ان میں ہر جماعت کے پاس اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کے لیئے سیاسی منصوبے تو ہیں مگر ان کے پاس ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کا اس قسم کا کوئی اقتصادی منصوبہ نہیں ہے۔ دنیا بھر کی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر حکومتیں بڑے دماغوں سے استفادہ کرتی ہیں۔ لیکن ہماری سیاسی حکومتیں ان ماہرین کو نوکری دینے اور ان کی بنائی ہوئی لانگ ٹرم پالیسیوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے سیاسی مشیروں کی فوج ظفر موج بھرتی کر لیتی ہیں جن کا کام محض ڈنگ ٹپاو’ پالیسیوں سے کام چلانا ہوتا ہے۔ ہم تجویز ہی کر سکتے ہیں کہ اب ملک ایسی جز وقتی اور کسی نہ کام کی پالیسیوں کا متحمل نہیں رہا ہے۔
Title Image by Gerd Altmann from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔