سمندر پار پاکستانیوں کے لیئے لائحہ عمل کی ضرورت و اہمیت

سمندر پار پاکستانیوں کے لیئے لائحہ عمل کی ضرورت و اہمیت

Dubai Naama

سمندر پار پاکستانیوں کے لیئے لائحہ عمل کی ضرورت و اہمیت

لوگ یورپ، امریکہ، جاپان کنیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ جانے کو ترستے ہیں۔ پاکستان میں متوسط اور غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ان ترقی یافتہ ممالک کے ویزے حاصل کرنے کے لیئے ہر سال لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ان امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں بے روزگار اور ترقی کرنے کے خواہش مند افراد کو پہنچانا اربوں روپے کا کاروبار ہے۔ بہت ساری اورسیز ریکروٹمنٹ ایجنسیاں اور اینجنٹس اس حد درجہ منافع بخش کاروبار سے وابستہ ہیں۔ خاص طور پر پاکستان میں یورپ وغیرہ میں سیٹل ہونا کسی خواب سے کم نہیں یے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیئے جہاں لوگ ہر سال لاکھوں کروڑوں روپے اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کے حوالے کرتے ہیں وہاں ہر سال لوگ ڈنکیاں وغیرہ لگاتے ہوئے جان کی بازی بھی ہار جاتے ہیں۔ یونان اور آسٹریلیا وغیرہ میں داخلے کے لیئے تو کئی دفعہ کشتیاں ڈوبنے اور ان میں درجنوں پاکستانیوں کی ہلاکتوں کے واقعات بھی پیش آ چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بیرون ملک سیٹل ہونے کا ایک سیلاب ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔

افرادی قوت کی بیرون ملک منتقلی کے اس عمل میں بہت زیادہ فراڈ اور دو نمبریاں بھی ہوتی ہیں جس سے آگاہی بہم پہنچانا بہت اہم موضوع ہے کیونکہ اس طرح کے واقعات رونما ہونے سے دنیا بھر میں پاکستان کا امیج بدستور خراب ہو رہا ہے۔
گزشتہ برس سعودی عرب میں جعلی ڈگریوں پر گئی ہوئی 55 پاکستانی نرسیں سعودی عرب سے ڈپورٹ ہوئی تھیں۔ چند روز پہلے ایک اور واقعہ کے مطابق ڈومنیکا میں 59 افراد کی شہریت منسوخ کی گئی جس میں 19 پاکستانی بھی شامل ہیں جن کی دستاویزات جعلی نکلی تھیں۔ شہریت منسوخی کی یہ خبر ڈومینیکا کے سرکاری گزٹ میں شائع ہوئی اور اخباری اطلاعات کے مطابق اس کا اعلان ڈومینیکن وزیر برائے شہریت مریم بلانچارڈ نے کیا۔ ایجنٹوں نے ڈومینیکا میں شہریت دلوانے کے لیئے جعلی کاغذات استعمال کیئے تھے۔ حکومتی تحقیقات کے نتیجے میں فراڈ پکڑا گیا اور 59 افراد کی شہریت منسوخ ہو گئی۔

ڈومینیکا میں سٹیزن شپ بائی انوسٹمینٹ پروگرام یا سی بی آئی پروگرام کے تحت کسی بھی شخص کو 2لاکھ امریکی ڈالرز کی مالیت کی جائیداد خریدنے یا حکومت کو ایک خاص رقم عطیہ دینے کے عوض شہریت مل جاتی ہے۔ اس طریقہ کار کے نتیجے میں شہری کو جو پاسپورٹ مِلتا ہے، وہ “اکنامک پاسپورٹ” کہلاتا ہے جس پر اکثر ممالک میں انٹری ویزے فری مل جاتے ہیں۔ کچھ ایجنٹوں نے شہریت کے خواہش مند افراد سے ساٹھ سے ستر ہزار ڈالرز بٹورے اور انھیں دو لاکھ ڈالر مالیت کی جائیداد کے جعلی کاغذات کے عوض شہریت دلوائی۔ تحقیقات کے نتیجے میں فراڈ سامنے آیا تو ڈومینیکا حکومت نے یہ اڑسٹھ پاسپورٹ کینسل کر دیئے جس میں 21 فیصد پاکستانی شامل تھے۔ ایک اطلاع کے مطابق جن پاکستانیوں کے پاسپورٹ کینسل ہوۓ، ان میں مہرین غضنفر، حرا سجاد، شمائلہ حیدر، ظفر احمد چودھری، عزیر نجم، سجاد احمد عباسی، سلمان نعیم، فرید احمد چغتائی، زاہد افضل، اُسامہ اشرف، عتیق الرحمان بخاری، شاہد محمود اکبر، شفقت علی شہزاد، نواز حسن، حیدر عابدی، حسین حیدر عابدی، فیصل نصیر، محمد عامر صدیقی، فاطمہ جمال اور ہدیٰ احمد جمال وغیرہ سرفہرست ہیں۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے ان متاثرین کا کہنا تھا کہ حکومت اس معاملے میں ملوث ایجنٹوں پر مقدمہ دائر کر کے کاروائی کرے۔ پاکستان میں باہر کے ان امیر ممالک میں افرادی قوت بھجوانا جن میں یورپ، کنیڈا، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے علاوہ جنوبی کوریا بھی شامل ہے ایک بہت بڑا گھناونا کاروبار ہے جہاں اکثر و بیشتر جعلی کاغذات وغیرہ استعمال کیئے جاتے ہیں مگر ایسی ایجنسیوں اور ان سے وابستہ ایجنٹوں کے خلاف حکومت پاکستان یا اورسیز ایمپلائمنٹ کی وزارت نے آج تک کبھی کوئی بڑی کاروائی نہیں کی ہے۔ اس پر مستزاد عرب ممالک میں روزگار کے لیئے لیگل ویزوں پر جانے والوں کے لیئے کسی قسم کی مناسب ٹریننگ کا احتمام بھی نہیں کیا جاتا ہے حالانکہ ان ملکوں میں جانے والے افراد سے “پروٹیکٹر” کے نام سے آٹھ سے دس ہزار روپے لے کر ایک کاغذ تو تھما دیا جاتا ہے مگر انہیں باہر کے ممالک میں رہنے کے آداب اور قوانین کا احترام کرنے کا کوئی کورس وغیرہ نہیں کروایا جاتا ہے۔

اگر ہم یورپ کی طرف ہجرت کر کے قانون کی پابندی کرنے لگتے ہیں، سگریٹ پی کر اس کے ٹوٹے زمین پر نہیں پھینکتے، عوامی مقامات پر تمباکو نوشی نہیں کرتے، مخصوص مقامات سے سڑک پار کرتے ہیں، ہماری سیکیورٹی کا شعور اتنا بلند ہو جاتا ہے کہ ہم کھڑکی کے سامنے سے بلی بھی چوری ہو جانے پر پولیس کو اطلاع کرتے ہیں تو یہ ایک انتہائی معزز قوم کے افراد کی عادات ہیں۔
مغربی ممالک میں ہم گاڑی چلاتے وقت سیٹ بیلٹ باندھنے پر مجبور ہوتے ہیں، بچے کے لئے پچھلی سیٹ پر کرسی رکھتے ہیں، قطار میں آرام سے کھڑے رہتے ہیں چاہے یہ ایک کلومیٹر لمبی ہی کیوں نہ ہو۔ جب ہم یورپی شہریت لیتے ہیں اور اپنے نمائندے کا انتخاب کرتے وقت اس کی تاریخ، ماضی اور پیشہ ورانہ مہارت کے بارے میں بھی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ اگر ہم یہ سب کچھ اپنے ملک میں کرتے ہیں تو شاید ہمیں ان ممالک کی طرف ہجرت کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

اگر دنیا میں پاکستانی پاسپورٹ کی اہمیت کو بحال کرنا ہے تو ملک کو بدنام کرنے کا باعث بننے والی ایسی جعل سازی کرنے والوں کے خلاف قدم اٹھانا ہو گا۔ غیر قانونی طور پر سرحدیں پار کروانا یا ایسی جعلی دستاویزی تیار کرنا “ہیومن ٹریفکنگ” میں آتا ہے جو سخت عالمی قوانین کی سریع خلاف ورزی ہے۔ ایسے واقعات سے پاکستانی پاسپورٹ کی ویلیو مزید دو فیصد گر گئی ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ کوئی مناسب لائحہ عمل طے کرنے کے لیئے اس کا فوری نوٹس لے۔

Title Image by Igor Ovsyannykov from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

بنگلہ دیش کا خونی انقلاب اور موتی چور کے لڈو

منگل اگست 6 , 2024
شیج حسینہ واجد جب تک بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہیں انہوں نے انڈیا کے ایجنٹ کے طور پر کام کیا۔
بنگلہ دیش کا خونی انقلاب اور موتی چور کے لڈو

مزید دلچسپ تحریریں