نئے سال پر خوبصورت اردو اشعار
یکم جنوری ہے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے
امیر قزلباش
ہم منائیں گے نیا سال تری یاد کے ساتھ
زخم اس بار ہرا ہوگا دسمبر والا
مقصود آفاق
وہ جنم دن پہ بلاتے ہیں ہمیشہ مجھ کو
ہر نیا سال بانداز وصال آتا ہے
چرخ چنیوٹی
ہر سال نیا سال ہے ہر سال گیا سال
ہم اڑتے ہوئے لمحوں کی چوکھٹ پہ پڑے ہیں
اختر ہوشیارپوری
ہر ایک سانس نیا سال بن کے آتا ہے
قدم قدم ابھی باقی ہے امتحاں میرا
نجیب احمد
ختم جس پر ہو گزرتے ہوئے لمحوں کا سفر
اک نیا سال اسی لمحے سے ابھر آتا ہے
نور الحسن نور
یہ نیا سال ہے نکھری ہوئی فکروں کا امیں
یہی سرمایہ یہی گنج گراں ہے اے دوست
زبیدہ تحسین
گئے سال کے سارے غم بھول جائیں
نیا سال آیا نئے گل کھلائیں
جوہر رحمانی
نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے
خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے
فریاد آزر
پلٹ سی گئی ہے زمانے کی کایا
نیا سال آیا نیا سال آیا
اختر شیرانی
ایک پتا شجر عمر سے لو اور گرا
لوگ کہتے ہیں مبارک ہو نیا سال تمہیں
نامعلوم
پچھلا برس تو خون رلا کر گزر گیا
کیا گل کھلائے گا یہ نیا سال دوستو
فاروق انجینئر
اے جاتے برس تجھ کو سونپا خدا کو
مبارک مبارک نیا سال سب کو
محمد اسد اللہ
ہو سال نو بہشت کا درپن خدا کرے
ہر گھر مسرتوں کا ہو مسکن خدا کرے
نذیر نادر
کیا کرو گے نعیمؔ سال نو
پیش رو کی طرح ہی آیا تو
نعیم ضرار احمد
سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مومن خاں مومن
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی
پروین شاکر
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
مرزا غالب
کئی سال سے کچھ خبر ہی نہیں
کہاں دن گزارا کہاں رات کی
بشیر بدر
تجھے کیا خبر مہ و سال نے ہمیں کیسے زخم دیے یہاں
تری یادگار تھی اک خلش تری یادگار بھی اب نہیں
جون ایلیا
گزشتہ سال کے زخمو ہرے بھرے رہنا
جلوس اب کے برس بھی یہیں سے نکلے گا
راحت اندوری
لے میرے تجربوں سے سبق اے مرے رقیب
دو چار سال عمر میں تجھ سے بڑا ہوں میں
قتیل شفائی
نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر
کئی سال بعد ملے ہیں ہم ترے نام آج کی شام ہے
بشیر بدر
کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
پروین شاکر
وہ عمر کم کر رہا تھا میری
میں سال اپنے بڑھا رہا تھا
گلزار
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
مرزا غالب
ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں
مرزا غالب
اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا
ہر اک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے
بشیر بدر
اسی شہر میں کئی سال سے مرے کچھ قریبی عزیز ہیں
انہیں میری کوئی خبر نہیں مجھے ان کا کوئی پتا نہیں
بشیر بدر
وہ قیامتیں جو گزر گئیں
تھیں امانتیں کئی سال کی
منیر نیازی
Title Image by Rondell Melling from Pixabay
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |