امین کنجاہی کی نعتیہ شاعری
راولپنڈی پاکستان کے ایک قابل ذکر اور ممتاز شاعر امین کنجاہی نے اردو نعتیہ شاعری میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ان کا کام حضور اکرم حضرت محمد ﷺ کے لیے گہری عقیدت کی عکاسی کے ساتھ ساتھ مدینہ منورہ کی خوبصورتی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ آپ کی اردو نعت کا کا کھوار ترجمہ راقم الحروف (رحمت عزیز خان چترالی) نے کیا ہے۔ اس تجزیاتی جائزے میں ہم ان کی نعتیہ شاعری کے موضوعات، ساخت، ادبی آلات، ان کی شاعری اور گلگت بلتستان، مٹلتان کالام اور چترال میں بولی جانے والی زبان کھوار میں تراجم کا تفصیلی تجزیہ کریں گے۔
آپ کی اردو نعتیہ شاعری کا سب سے بڑا موضوع حضور اکرم حضرت محمد ﷺ سے گہری محبت اور عقیدت ہے۔ ان کی شاعری قارئین کو مدینہ منورہ کی بابرکت گلی کوچوں میں پہنچا دیتی ہے جہاں اس شہر کی خوبصورتی اور حبیب پاک حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی موجودگی کا جشن منایا جاتا ہے۔ امین کنجاہی کی نعتیہ شاعری عصر حاضر کے ڈاکٹروں سے مایوسی اور اس توقع پر بھی روشنی ڈالتی ہیں کہ صرف سرکار مدینہ ﷺ ہی اس کے بیمار دل کی حالت کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔ اس کی شاعری کا مرکزی خیال یہ ہے کہ جو لوگ واقعی حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے محبت کرتے ہیں وہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں کامیابی حاصل کریں گے۔
شاعری کی ساخت اور تھیم کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ امین کنجاہی نے اپنی نعتیہ شاعری میں ایک منظم اور ردھم والا انداز استعمال کیا ہے۔ اس کی نعتیہ شاعری اکثر ایک مخصوص نمونہ کی پیروی کرتی ہیں، جو انہیں پڑھنے کے لیے موزوں بناتی ہیں۔ یہ ڈھانچہ تعظیم اور عقیدت کا احساس پیدا کرکے تھیم کے اثر کو بڑھاتا ہے۔ مدینہ منورہ اور حبیب پاک حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے دربار کا بار بار تذکرہ ان کے شاعرانہ تاثرات کے لیے ایک واضح اور مستقل پس منظر فراہم کرتا ہے۔
امین کنجاہی کی نعتیہ شاعری ادبی آلات سے بھی مالا مال ہے، جو اس کی جذباتی اور جمالیاتی کشش میں حصہ ڈالتی ہے۔ وہ مدینے کی خوبصورتی اور حبیب پاک حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے دربار کی خوبیوں کو بیان کرنے کے لیے استعارے اور علامتیں استعمال کرتا ہے۔ عصری ڈاکٹروں کے ساتھ مایوسی کا جوڑ اور سرکار مدینہ ﷺ سے ملنے والی صحت یابی کی امید اس کے پکے ایمان کو ظاہر کرتی ہے۔ مزید برآں، دہرایا جانے والا جملہ "وہ دیکھیں گے” توقع اور امید پیدا کرتا ہے اور حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی محبت پر ثابت قدم رہنے پر زور دیتا ہے۔
امین کنجاہی کی نعتیہ شاعری اس یقین پر زور دیتی ہے کہ حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے اٹوٹ محبت طاقت اور کامیابی کا ذریعہ ہے۔ مدینہ منورہ اور حبیب پاک حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا ذکر شاعر کے روحانی تعلق کی مستقل یاد دہانی کا کام کرتا ہے۔ ڈاکٹروں کے ساتھ مایوسی انسانی حالت کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے جبکہ سرکار مدینہ ﷺ سے ملنے والی شفا امید اور صحت یابی کی علامت ہے۔
"وہ دیکھیں گے” کے بار بار کہے جانے والے جملے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی محبت کا اثر ان سب پر نظر آتا ہے جو اس کے گواہ ہیں۔ یہ تکرار اس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ نبی اکرم حضرت محمد ﷺ سے حقیقی محبت ایک ایسی زندگی کی طرف لے جاتی ہے جو آپ کی تعلیمات کی گواہی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ امین کنجاہی کی اردو نعتیہ شاعری حضور اکرم حضرت محمد ﷺ سے عقیدت کا گہرا اظہار ہے۔ اور کھوار زبان مین امین کنجاہی کی نعتیہ اشعار کا ترجمہ شمالی پاکستان کے کھوار بولنے والوں کے لیے راقم الحروف (رحمت عزیز خان چترالی) کی طرف سے ایک یادگار تحفہ ہے۔ امین کنجاہی کی یہ شاہکار نعت ادبی آلات سے مالا مال ہے اس کی ساخت اور تال کی شاعری محبت، خوبصورتی اور امید کے موضوعات کو زندہ کرتی ہیں۔ امین کنجاہی اپنی نعتیہ شاعری کے ذریعے قارئین کو روحانی سفر اور حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے لازوال محبت کا تجربہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے امین کنجاہی کی نعتیہ شاعری اور کھوار تراجم پیش خدمت ہیں۔
"نعت رسول مقبول ﷺ”
مدینے میں حبیب پاک کا دربار دیکھیں گے
گلی کوچوں میں گھومیں گے گل و گلزار دیکھیں گے
کھوار:مدینا حبیب پاکو دربارو پشیسی، گنزول کوچاہیں کاسیسی گل و گلزاران پاشینی۔
زمانے کے طبیبوں نے مجھے مایوس کر ڈالا
میری بیماریء دل کو بس اب سرکار دیکھیں گے
کھوار:زمانو طھبیبان مه مایوس ارینی، مه ہردیو لہازیو بس ہنیسے سرکار لاڑیر۔
محبت میں رسول پاکﷺ کے جو لوگ سچے ہوں
کسی میدان میں بھی وہ کھبی نہ ہار دیکھیں گے۔
کھوار:رسولو محبتہ کیہ روئے کی فروسک اوشونی، کیہ دی میدانہ ہتیت ہار نو پاشینی۔
زبان خاموش آنکھوں سے رواں اشک ندامت ہوں
بہت سے لوگ آپ ایسے سر دربار دیکھیں گے۔
کھوار:زبان خاموش غیچھاری شرمندگیو آشرو روان بانی، بو روئے پسہ ہݰ دربارا پاشیمی۔
یہ پہلی نعت ہے اپنی امین ان کی محبت میں
ہمارے پیار کا وہ اب یوں ہی اظہار دیکھیں گے۔
کھوار:ھیہ اولانو نعت شیر امین ھتو محبتہ، اسپہ پیارو ھسے ہموش اظہارو پاشیر۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔