نتھ ، واگ تے مہار ،ڈنگراں نیاں رسیاں
ایک صحابی نے نبی کریمﷺسے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! میں اپنے اونٹ کو باندھ کر اللہ پر توکل کروں یا اس کو چھوڑ دوں، پھر اللہ پر توکل کروں ؟ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ایسانہ کرو ، بلکہ پہلے اونٹ کو باندھو ، اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرو(ترمذی)
ایہا تلیہارے نی تے نتھ ایسے رسی نی
بھارواں نے گل پئی رسی بے وسی نی
ایہا گلدانویں نی تے ایہا رسی ڈھنگے نی
وچھی سقہ باداں نی تے بھانویں فتح جنگے نی
ص 93۔94 ’ ’پھلاہی‘‘ 2016ء
مشتاق عاجز ۔اٹک
جانوروں کو قابو کرنے اور باندھنے کے لئے مختلف قسم کی رسیاں استعمال ہوتی ہیں,جیسے ڈھنگا،نتھ،واگ،مہار،پوڑی،گل دانواں وغیرہ
ان رسیوں کے نام اور کام ( فنکشن) کیا ہیں ۔ان پر روشنی ڈالیں ۔
اس سوال پر پنجابی ڈکشنری گروپ سے جوابات ملے جو یہ ہیں۔
مویشی کی اگلی ایک ٹانگ کے نچلے حصے پر رسہ یا چھوٹا سنگل باندھ کر کھونٹے یا کلے سے باندھا جاتا ھے۔ اس کو شیخوپورہ میں پیکھڑ / پیڑا کہتے ہیں۔اٹک میں اس کو پوڑی کہتے ہیں۔
ڈھینگا / ڈھنگا / ونگا : جس دے نال دودھ چوون لگیاں ڈنگر دیاں پچھلیاں لتاں بنیاں جاندیاں
واگ: مال ڈھون والے ڈنگر دی اوہو رسی جس دے نال اس نوں ” چِکیا ” جاندا اے۔ یعنی ہدایات دتیاں جاندیاں۔ سجے کھبے موڑن تے روکن لئی۔
نتھ : او رسی جیہڑی داند /بولد یاں /اوٹھ دیاں ناساں وچ موری کر کے پائی جاندی اے۔
تلیہاڑا :(مورک شاید بولدےہن )۔ گاں مجھ دے منہ تے چارن آلی رسی۔ جس نوں ماہر لوک بنیندے ہن۔
میہری: اوہ رسی جس نال نک آلی رسی نئیں ہوندی۔
کڑیالا تے واگ: کھوتے گھوڑے دی سر آلی رسی جہڑی لوہے دے کڑے نال بنھی ہوندی اے۔ تے واگ اوہ لمی رسی جہڑی کڑیالے نال بنھ کے جانور نوں قابو کریندے ہن
مرہنگی: نک اگے بنھنن آلا رسی دا ٹوٹا/ٹکڑا
گلاواں / گل دانواں: ڈنگراں دی گل/ گاٹے/گلے آلی رسی۔گل دانواں جو جانور کو عام حالت میں اس کے گلے گل دانواں جو جانور کو عام حالت میں اس کے گلے میں ڈال دیتے ہیں دیتے ہیں۔
چھڑ :(پیڑا پ ے ڑا وی بولدے ہن ) گلاویں توں وکھ دووی لمی رسی
تنگی: کھوتے اتے آتھر( بوریاں دے بنے ہوئے جھل تھڑے ) نوں قابو کرن آلی رسی
ڈہلی: کسی ڈنگر دی گل آلی رسی نوں اگلی لت نال نبھنن آلی رسی۔
تند: ہک لمی رسی دے دوئیں پاسے کلیاں(کلے ) نال بنھ دیندے ہن۔ تے رسی اتے گلاویں ننھ دیندے ہن ۔ جنھاں نال بکریاں بھیڈیاں بنھدے ہن۔
واگ : منہ میں ڈال کر کس کر پکڑی جانے والی رسی لگام
مہار: جو اونٹ کو قابو کرنے کیلیے اور پکڑ کر آگے آگے چلنے کیلیےہوتی ہے۔
پوہڑی : وہ بنی ہوئی رسی جو رکاب کا کام دے۔
محترم جمیل جالبی صاحب کے یہاں ایک مرتبہ کسی صاحب نے فرمایا کہ ”رسی پر کپڑے سوکھنے کو ڈالے ہوئے تھے“ صدیقی صاحب مرحوم نے فوراً ٹوکا کہ اس کو رسی نہیں ‘الگنی’ بولتے ہیں۔پھر جمیل صاحب سے مخاطب ہو کر بولے رسی کو بلحاظِ استعمال مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔
مثلا گھوڑے یا گھوڑی کو جب چرنے کیلئے چھوڑا جاتا تو اس ڈر سے کہ کہیں بھاگ نہ جائے اس کی اگلی ٹانگوں میں رسی باندھ دیتے ہیں اسے ‘دھنگنا’ کہتے ہیں۔
۔ گھوڑے کو جب تھان پر باندھتے ہیں تو گلے اور پچھلی ٹانگوں میں جو رسیاں باندھی جاتی ہیں وہ ‘اگاڑی’ ‘پچھاڑی’ کہلاتی ہیں۔گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سوار جو رسی پکڑتا ہے وہ ‘لگام’ کہلاتی ہے۔
گھوڑے تانگے اور بگھی وغیرہ میں جُتے ہوں تو یہ رسی ‘راس’ کہلاتی ہے۔اس لیے پرانے زمانے میں گھوڑے کی خرید و فروخت کیلئے جو رسید لکھی جاتی تھی اس پہ یہ الفاظ لکھے جاتے تھے ‘یک راس گھوڑے کی قیمت’، ہاتھی کیلئے ‘یک زنجیر ہاتھی’ استعمال ہوتا تھا۔ گھوڑے کو جب ٹریننگ کیلئے سائیسں پھراتا ہے اور جسے ‘کاوا پھرانا’ بولتے ہیں۔اُس رسی کو جو سائیں اس وقت پکڑتا ہے اسے ‘باگ ڈور’ کہتے ہیں۔
بیل کے ناک کے نتھنوں میں جو رسی ڈالتے ہیں اس کو ‘ناتھ’ بولتے ہیں (اسی لیے ایسے بیل کو ‘نتھا ہوا بیل’ بولتے ہیں۔اس کے بعد ہی بیل کوہلو یا ہل وغیرہ میں جوتنے کے کام میں آتا ہے) ۔اونٹ کی ناک میں ‘نکیل’ ہوتی ہے جسے ’مہار‘ بھی کہتے ہیں۔
کنویں سے بڑے ڈول کو یا رہٹ کو بیل کھینچتے ہیں اس میں جو موٹا رسا استعمال ہوتا ہے اسے ‘برت’ یا ‘برتھ’ بولتے ہیں۔( نذر الحسن صدیقی کے محمد سلیم الرحمٰن کے نام خط سے اقتباس)
چارپائی جس رسی سے بُنی جاتی ہے اسے ‘بان’ چارپائی کی پائنتی میں استعمال ہونے والی رسی کو ‘ادوائن’ کہتے ہیں ۔پھانسی کیلئے استعمال ہونے والی رسی ‘پھندہ’ کہلاتی ہے .
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔