نسیم بحری اور میس کا ویہڑہ

نسیم بحری اور میس کا ویہڑہ !حیدر آباد   کی   ڈائری   

 دسمبر 1988 میں مقبول صاحب کے ساتھ مغرب کے بعد ایبٹ آباد سے موٹر سائیکل پر نواں شہر جارہا تھا ۔ میں موٹر سائیکل چلا  رہا تھا البدر مسجد والے مقبول صاحب میرے پیچھے بیٹھے تھے ۔ فرمانے لگے  ڈاکٹر صاحب آپ کو ایبٹ آباد پسند آیا ۔

گزارش کی   اگر آپ یہ سوال گرمیوں کے آنے کے بعد پوچھتے تو میں آپ کے شہر کے لئے قصیدہ کہہ دیتا۔

 صورت حال یہ ہے کہ یہ مجھے ایبٹ آباد آئے ہوئے چند ماہ گزرے ہیں اور وہ بھی سردیوں کے ۔ سوئی گیس ابھی تک یہاں نہیں پہنچی ۔دسمبر کا مہینہ ہے ۔رات کا وقت ہے ۔ اور میں موٹر سائیکل کا پائلٹ بن کر ٹھنڈی ہوا کھا رہا ہوں ۔

 انہوں نے حوصلہ دیا کہ ایبٹ آباد میں صرف آٹھ مہینے سردی ہوتی ہے ۔ باقی سارا سال موسم گرما ہوتا ہے ۔آپ خوش ہو جائیں گے۔

 جون1989 میں آرڈر آیا کہ آپ تین ماہ کی عارضی ڈیوٹی پر حیدرآباد تشریف لے جائیں ۔علاج بالمثل کے مطابق ہماری سردیاں ایبٹ آباد اور گرمیاں سندھ حیدرآباد  گزریں. انہی دنوں اسلام آباد میں  شیطان رشدی  کے خلاف جلوس نکل رہے تھے ۔

 حیدر آباد جانے کے لئے ہوائی جہاز کا فری ٹکٹ ملا ۔جہاز رستے میں لاہور رکا ،کچھ سواریاں اتریں ۔باقی ٹانگیں سیدھی کرنے کے لئے رن وے پر کھڑی ہو گئیں۔ یہ میرا ہوائی جہاز کا پہلا سفر تھا۔ مغرب کی نماز پڑھنے کے لئے چوکیدار سے پوچھ کر اڈے سے باہر نکل گیا۔

  واپسی پر چوکیدار نے روک لیا کہ یہ تو صرف باہر جانے والا گیٹ ھے ۔ اندر جانے والا دوسرا دروازہ ھے ۔وہاں پہنچا تو سوال جواب شروع ہو گئے ۔سخت پریشانی ہوئی ۔ اسٹاف کسی ٹرانزٹ لاؤنج کا ذکر کر رہا تھا ۔میں نے یہ مشکل الفاظ زندگی میں پہلی دفعہ سنے تھے اور ان کے مفہوم سے ناواقف تھا ۔

  اتنے میں جہاز کا  کلینڈر   (crew) آیا اور مجھےپہچان کر پروٹوکول کے ساتھ جہاز کے اندر لے گیا۔ تھوڑی دیر بعد روٹی شوٹی آ گئ ۔پتہ چلا کہ کھانا بالکل مفت ھے اس لئے تسلی سے کھایا ۔اس سارے بندوبست میں صرف ایک کمی تھی کہ سپلی کی سہولت نہیں تھی  بروم ہاسٹل بہت یاد آیا۔

سی ایم ایچ حیدر آباد ، گیریزن میس سے قریب تھا ۔پیدل آنا جانا ہوتا۔ظہر کی نماز ہسپتال میں آتی۔باقی نمازیں آفیسر کالونی کی مسجد میں پڑھتا ۔

نسیم بحری(seabreeze) سے پہلی مرتبہ تعارف ہوا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ،گردو غبار سے پاک جھکڑ نما مشرق کی جانب سے آتی ہوئی ہوا۔ بحیرہ عرب ،حیدر آباد سے مشرق میں ہے ۔ اس ہوا سے مسجد کی صفیں اُڑ جاتیں۔ اس سے بچنے کے لئے صفوں پر ریت سے بھری ہوئی تھیلیاں(sandbag)  رکھی ہوئی تھیں ۔

 رات کو کمرے میں پنکھے کے نیچے سونے کی بجائے میس کے ویہڑے ( لان) میں سونے کا زیادہ مزہ آتا ۔پہلی رات لان سے اٹھ کر واش روم گیا تو واپسی پر تکیہ اور چادر غایب تھیں ۔سوچا کسی چور کی کارروائی ھے ۔ پریشانی میں ادھر اُدھر دیکھا تو چارپائی سے دس میٹر دور تکیہ اور پندرہ میٹر دور چادر نظر آئی ۔اس کے بعد یہ ایس او پی (SOP) بنائی کہ رات کو واش روم جاتے ہوئے چادر تکیہ کمرے میں لے جاتا۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

زمین پر 'بلیک ہول' کی آمد اور ہمارے زندہ بچنے کا امکان؟

ہفتہ مئی 20 , 2023
ہم نے جن ترجیحات کا تعین اگلے کم و بیش 200 سالوں میں کرنا ہے، انہی نے ایک ‘نوع’ کے طور پر ہماری زندگی کی تقدیر کو بنانے یا تباہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہے۔
زمین پر ‘بلیک ہول’ کی آمد اور ہمارے زندہ بچنے کا امکان؟

مزید دلچسپ تحریریں