کائناتِ رنگ و بو میں بہت نمازی گزرے ہیں ۔ اور بہت سے نمازی مستقبل میں آئیں گے لیکن جو نماز کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام نے انگاروں جیسی گرم ریتلی زمین پر پتھروں، تیروں، نیزوں،خنجروں اورتلواروں کے سائے میں اپنے زخمی بدن کے ساتھ ادا کی ۔ وہ نماز اب تک دنیا میں کوئی بھی ادا نہیں کر سکا اور نہ ہی کوئی ادا کرسکے گا۔
آپ کے بعد آپ کی معظمہ بہن حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے جس طرح نماز پڑھی اور خصوصا نمازِ شب ادا کی وہ کائنات کی کوئی عورت بھی اب تک نہ ادا کرسکی اور نہ ہی کوئی عورت ادا کر سکے گی ۔ کیونکہ جب پتہ ہو کہ اسیروں کے قافلے کے دوڑتے ہوئے سواری والے اونٹ اور گھوڑوں سے نیچے ہمارے بچے گر کر سموں کے نیچے کچلے جارہے ہیں ۔ ایسی پر درد اور غم ناک صورتِ حال میں اپنی سواری پر ہی نمازِ شب ادا کرنا بی بی زینبؑ کا ہی خاصا ہے یہ کسی اور کے نصیبوں اور بے مثال ہمت میں کہاں ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔
کہ اتنی مشکلات کے باوجود اظہار بندگی نمازِ شب کی صورت میں آپ نے کیوں ادا کی ۔ کیا آپ کو جنت کی لالچ تھی؟
نہیں! ہرگز نہیں۔ بالکل نہیں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ جنت کے سردار تو آپ کے عظیم بھائی حسنینؑ کریمین ہیں ۔ اور جنت میں عورتوں کی سردار تو آپ کی والدہ معظمہ و محترمہ فاطمہؑ بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جنت کے وارث تو آپ کے وہ نانا ہیں جو شافع ء محشر اور ساقیء کوثر ہیں۔ جنت میں داخل کرنے والے تو آپ کے عظیم مرتبہ والد ماجد مولا علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ جن کی سند لے کر لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ آپ نے اتنی تکلیفوں اور کٹھن حالات میں بھی نمازِ شب نہیں چھوڑی۔
” کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے ” علامہ اقبالؒ کے اس مصرعے کے مصداق کبھی ہم نے سوچا ہے ؟
بالکل نہیں ۔ یہی تو لمحہ ء فکریہ ہے کہ آج کے اس پر آشوب دور میں دنیا کی لذتوں میں کھو جانے والے انسان کے لیے درسِ
فکر ہے ۔ وقت کا رونا رونے والے اس انسان کے لیے ایک عظیم راہِ ہدایت ہے۔ آزادی کا رونا رونے والی ڈش انٹینا ،کیبل اور انٹرنیٹ پر فلمیں دیکھنے والی شائق آنکھ کے لیے حضرت بی بی زینبؑ کا دیا ہوا یہ ایک عظیم درس ہے۔ کیونکہ آپ نے سفر کی صعوبتوں کو آڑے نہ آنے دیا اور عزیز ترین ہستیوں کی سرکٹی لاشوں اور اپنے سرِ اقدس سے کھوئے جانے والی عظیم چادرِ زہراؑ کے غم کے باوجود نمازِ شب ادا کرنا ترک نہ کی اور آج کی عورت کے لیے ایک ایسی مثال قائم کی کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے ۔ کہ میں نے فلاں پریشانی کے سبب نمازِ شب ترک کی ہے۔ میں نے فلاں دکھ اورغم کی وجہ سے نماز ادا نہیں کی۔ یہ ہے وہ عظیم حقیقت کہ جس کا درس بی بی زینبؑ نے ہمیں دیا ہے میرے ان اشعار میں نمازِ شب کی اہمیت کی اپنے عقل و شعور پر دستک دیجیے :۔
” اسیری میں نمازِ شب ادا کر کے بتایا ہے
کہ ہر دکھ میں خدا کی بندگی کرنا ہی رفعت ہے
نمازِ شب ادا کر لو یہ دنیا چار دن کی ہے
دو گزرے دو گزر جائیں گے کم اس کی یہ مدت ہے”
حضرت بی بی زینبؑ کے علاوہ ایک اور عظیم ہستی جسے تاریخ زین العابدینؑ کے نام سے یاد کرتی ہے کا ذکر نہ کیا جائے تو نمازِ شب کا موضوع ادھورا رہ جائے گا۔
کائنات کا یہ محسن امام جب دکھوں، مصیبتوں اور غموں کے باوجود بیڑیوں میں جکڑا ہوا نمازِ شب ادا کرتا رہا تو آج کا انسان کیوں اس سعادت و عظمت سے محروم ہے ایک راوی سے یہ روایت ہے کہ امام سجادؑ نے پوری زندگی میں کبھی نمازِ شب ترک نہ کی ۔ اور آپ ہزار رکعت یومیہ نوافل ادا فرماتے رہے ۔
اس کے باوجود عاجزی و انکساری کا یہ عالم تھا کہ جب نماز پڑھتے تو سجدے میں سر رکھ کر بہت روتے تھے اور آپ کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی سجدے کی اس کیفیت میں دعا مانگتے ہوئے یہ فرماتے تھے
عبیدک بفنائک، مسکینک بفنائک، فقیرک بفنائک، سائلک بفنائک۔
ترجمہ
"تیرا حقیر بندہ، تیرا مسکین بندہ، تیرا فقیر اور تجھ سے سوال کرنے والا تیری ڈیوڑھی پرکھڑا ہے۔”
راوی کہتا ہے کہ یہ سننے کے بعد میں نےجب بھی دعا مانگی اور اس میں امام سجادؑ کی اس
عظیم دعا کو سجدے میں سر رکھ کر شامل کیا تو میری وہ دعا اللہ رب العزت نے ضرور مستجاب فرمائی۔ آپ بھی نماز شب کی ایک رکعت "وتر” میں اس دعا کو شامل کیجیے اور اللہ رب العزت کی عظیم بارگاہ میں حضرت امام سجادؑ کے ان درخشاں الفاظ کے ساتھ اپنی عاجزی و انکساری کا اظہار کیجیے۔ اور غرور و تکبر کو ذہن کے دریچوں سے ہٹا کر پھینک دیجیے۔ پھر دیکھیے کہ ذرے ذرے کو جلا بخشنے والا، پرندوں کو ہوا میں قائم رکھنے والا اور قطروں کو گوہر کرنے والا رب آپ کو کیا کیا فضیلتیں اور رفعتیں عطا فرماتا ہے۔
حضرت علی بن حسینؑ المعروف حضرت زین العابدین کے متعلق میرے دو اشعار ملاحظہ کیجیے:۔
وہ جن کو بیڑیوں میں فکر تھی اپنی عبادت کی
وہ جن کو تشنگی میں بھی ضرورت تھی ریاضت کی
لہو کے اشک بہتے تھے مرے مولا کے سجدے میں
مگر پھر بھی تمنا تھی انہیں ہر پل شہادت کی
سیّد حبدار قائم
کتاب ‘نماز شب’ کی سلسلہ وار اشاعت
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔