نمازِ شب کی اہمیت کو سمجھنا ہو تو کربلا کے بادشاہ ! جن کے متعلق خواجہ معین الدین اجمیری ؒ نے کیا خوب لکھا ہے
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
خواجہ معین الدین اجمیری ؒ
وہ بادشاہ جس کے طاہر بدن پر اتنے زخم لگے کہ ہوا زخموں سے باآسانی گزر جاتی تھی۔ زخموں سے چور بدن پر کربلا کی گرم ریت پڑتی تو کربلا کا بادشاہ اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتا تھا۔ وہ کربلا کا بادشاہ جو شہزادہ علی اصغر ؑ کا درد لیے اور علی اکبرؑ کا غمِ فرقت لیے اور نہ جانے کتنے درد سینے میں لیے آخری سجدے کے لیے خیموں میں تیاری کر رہا تھا ۔تمام بیبیوں کو الوداع کر کے مقتل کی طرف چلنے لگے تو آخر میں ایک بوڑھی عورت ملتی ہے امام ؑانتہائی احترام و عقیدت سے فرماتے ہیں۔
یا فضتہ علیک السلام
یعنی اے فضہ تم پر میرا سلام ہو ۔
جنابِ فضہ کو الوداع کر کے امام ؑکچھ قدم آگے بڑھتے ہیں ۔ تو حدِ خیمہ تک محرومتہ المسرت بی بی ( جناب زینبؑ ) ساتھ آتی ہیں بی بی جانتی ہیں کہ ان کا عظیم بھائی عظیم قربانی کے لیے جارہا ہے بی بی کے دل میں غم کے طوفان امڈتے ہیں اور طوفان کیوں نہ ہوں کہ جن کے گھر کے سب افراد شہید ہو جائیں اور آخری فرد اجل کے منہ میں جا رہا ہو ۔ تو اس گھر کی عورتوں کی کیا حالت ہو تی ہے۔ لیکن میں قربان کر دوں اپنی زندگی کی ساری ساعتیں بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے حوصلوں پر ، آپ کی جرات پر، آپ کے جزبے اور آپ کے ایمان پر کیونکہ دین بچ رہا ہے۔ دین کی پیاس خون حسینؑ سے بجھے گی دین کی تشنہ لبی امام دور فرمائیں گے۔
حدِ خیمہ پر پہنچ کر دونوں بہن بھائی رک جاتے ہیں غموں سے نڈھال تشنہ لب حسینؑ بہن کی غربت اور چادر کی طرف دیکھتے ہیں تو امام جانتے ہیں کہ ان کے شہادت کے بعد یہ چادرِ فاطمہ بنتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی لٹ جائے گی ۔ امام نگاہیں نیچی کر لیتے ہیں تو بہن مخاطب کر کے کہتی ہے۔ کہ بھیا مجھے پتا ہے کہ آپ کی زندگی بہت کم ہے اور یہ آخری رخصت ہے بھیا مجھے اماں جان نے حکم دیا تھا کہ جب حسینؑ ! وہ حسینؑ جسے میں نے بڑی محنت سے پالا ہے جب آخری بار الوداع کہے تو زینب ! میری طرف سے اس کا گلا چوم لینا ۔ مجھے ماں کی وصیت کو پورا کرنا ہے بھیا گلا کھولو۔ حسینؑ نے اپنے بند قبا کھول دیے۔ بی بی نے اپنے بھائی کے گلے پر بوسہ دیا اور امام سے لپٹ گئیں۔ اس کے بعد امام حسینؑ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی اماں حضور نےحکم دیا تھا کہ جب آخری الوداع کروں اور جانے لگوں تو میری بیٹی زینبؑ کے بازو پر میری طرف سے بوسہ دینا۔ تم بازو کھولو میں تمہارے بازو چوم لوں ۔ حسینؑ بہن کے بازو چوم لیتے ہیں اور جانے کی اجازت طلب کرتے ہیں اور اپنی بہن کو وہ وصیت کرتے ہیں ۔ جسے شائد ہم مسلمان شیعہ اور سنی فراموش کر چکے ہیں ۔ وہ وصیت کیا تھی ! ایک درس ہے ، ایک علم ہے ، ایک ضابطہ حیات ہے اور وہ یہ کہ جتنی بھی تکالیف آئیں اس درس کو نہیں بھولنا امامؑ ارشاد فرماتے ہیں ،
یا اختاہ لا تنسینی فی نافلتہ الیل
اے بہن! تم مجھ کو نمازِ شب میں نہ بھولنا
امام حسینؑ
امام زین العابدینؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ عاشورہ کے بعد ہم پر مصائب کے پہاڑ توڑے گئے ہماری سواریوں کو دوڑایا گیا جسکی وجہ سے ہمارے کئی بچے اونٹوں اور گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روندے گئے اتنے زیادہ مصائب و آلام ڈھائے جانے کے باوجود میری پھوپھی زینبؑ نے نمازِ شب کو کبھی ترک نہیں فرمایا۔
حضرت امام حسینؑ اپنی بہن حضرت زینب سلام اللہ علیہا سے مصائب کے عالم میں کیا کہتے ہیں میرے لکھے ہوئے قطعہ میں ملاحظہ فرمائیں :۔
شریعت کو ضرورت ہو تو جاں دینا محبت میں
خدا کے دین کی خاطر ہمیشہ رہنا سبقت میں
سواری پر اسیری میں اگرچہ سہل بھی نہ ہو
مجھے نہ بھولنا اپنی نمازِ شب کی کثرت میں
آج ملت اسلامیہ بی بی زینبؑ کی مقروض ہے وہ عظیم بی بی جس کا کچھ نہ بچا لیکن ہمارے پردے اور ہماری عزت و ناموس کو بچا گئی ہے اب وفا کا یہی تقاضا ہے کہ ہم بھی ہر مشکل ہر آسانی بلکہ زیست کی ہر ساعت میں اللہ پاک کی بارگاہ میں بی بی زینب کا شکریہ ادا کرکے نمازِ شب ادا کریں اور اپنی پیشانی اس رب کعبہ کے سامنے خم کریں جو واحد ہے لم یلد ہے ولم یو لد ہے، جس کا کوئی ہمسر نہیں ۔ وہ عظیم رب جو پتھر میں بھی کیڑے کو رزق دیتا ہے کیو نکہ وہ خیرالرازقین ہے وہ کریم رب ! جو پہاڑوں سے ٹھنڈے اور میٹھے چشمے جاری کرتا ہے وہ پاک رب! جو ایک ہی مٹی سے چنبیلی بھی اگاتا ہے اور گلاب بھی ، موتیا بھی خلق کرتا ہے اور گل بنفشہ بھی ۔ اسکی ذات پاک ہے ۔ عظیم ہے۔ اعلی ہے۔ رحیم ہے کریم ہے ۔ نمازِ شب ادا کر کے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔
سیّد حبدار قائم
کتاب ‘ نماز شب ‘ کی سلسلہ وار اشاعت
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔