تحریر، ایوب ساقی سوشل ورکر نکہ کلاں
جب بھی اپنے گاؤں نکہ کلاں کا نام لیا جاتا ہے تو ایک سیدھی سادی زندگی کا تصور اب بھی میرے ذہین میں آتا ھے جہاں دھوکہ جھوٹ مکر و فریب سے پاک سماج آباد تھا جہاں سچائی اور ایمان داری کا بول بالا تھا جہاں لوگ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے کام آتے تھے اوربوقت ضرورت ایک دوسرے کی دستگیری کرتے تھے اور جہاں فضائی آلودگی سے محفوظ ایک صاف وستھری آب وہوامیسر تھی اور جہاں بیل سے چلنے والے کنوئیں کی تازہ سبزی مل جاتی تھی دیسی مرغ اوردیسی مرغی کےانڈے اور گائے بھینس کا تازہ و خالص دودھ ملتا تھا شام کو بوڑھے لوگ محفلیں سجاتے تھے جہاں گاؤں بھر کے تمام مسائل پر بات ھوتی تھی اور رات تک یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا لوگ شوقیہ چیزوں کو آپس میں مل بانٹ کر کھاتے تھے ساون بھادوں کے موسم میں لوگوں بارشوں میں نہاتے تھے ۔الغرض زندگی کی رونقیں ہی دیدنی تھی، کسی کی خوشی اور دکھ درد اکیلا نہ تھا، مادیت پرستی، خود غرضی، لالچ جیسی چیزوں کا کہیں بھی وجود تک نہ تھا، بانٹ کے کھانے کا مزہ ہی اپنا تھا، کم وسائل کے باوجود لوگ زہنی پریشانیوں سے بچے ہوئے تھے اور کوئی بھوکا بھی نہیں سوتا تھا، رشتوں کی قدرو قیمت تھی ۔
اسکے برعکس شہری زندگی گھٹن ، تنگی ، مادہ پرستی ، جنس بازاری ، فضائی الودگی ، فریبی و دغاباز ،پیشہ ور اور چالاک لوگوں کی آبادی سمجھی جاتی تھی ھمارے زمانے میں میرے گاؤں کے لوگ صرف تعلیم یا علاج کی غرض سے شہروں کا رخ کیا کرتے تھے لیکن رہائش کیلیے گاؤں ہی کو ترجیح دیا کرتےتھےلیکن اب سب کچھ ویسا نہیں ہے بلکہ بہت کچھ بدل گیا ہے اب گاؤں میں وہ ساری خصوصیات بالکل اسی انداز میں باقی نہیں رہیں جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے اب گاؤں کے لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے وہ احساسات و جذبات اس شدت سے باقی نہیں رہے جیسا کہ پرکھوں کے زمانے میں ہوا کرتے تھے اب وہ تازہ و خالص دورھ یہاں نہیں ملے گا بلکہ گاؤں کا سارا دودھ شہر بھیج دیا جاتاہے پھرشہر سے ڈبوں میں پیک کرکے دیہات میں سپلائی کیا جاتا ہے اب نہ وہ دیسی مرغیاں ملتی ہیں اور نہ ہی دیسی مرغی کے انڈے اب تو لگتا ہے کہ شاید پرندے بھی کہیں ہجرت کرگئے ہیں ، اب گاؤں میں سبزیاں بھی بازار سے خرید کر لائی جاتی ہیں ،اب نہ وہ کھیل کود ہوتے ہیں اور نہ رات کو محفلیں سجتی ھے ہاں غلہ اب بھی کھیتوں میں پیدا ہوتا ہے لیکن اب کسان بھی بہت سارا غلہ خرید کر کھاتا ہے تازہ آب و ہوا اب بھی دستیاب ہے لیکن اب گاؤں کی زندگی میں وہ کشش باقی نہیں رہ گئی ہے جو کبھی ہوا کرتی تھی ،دیسی حسن جس کا اپنا ایک خاص رنگ اور کیفیت ہےاب وہ بھی سورج کی تپش سے جلتا جا رہا ہے ، اب شہری زندگی گاؤں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوگئی ہے اسلیے گاؤں سے شہروں کی طرف ہجرت کا رجحان بے تحاشا بڑھا ہے ایک اندازے کے مطابق اگلے بیس پچیس سالوں میں گاؤں کی ستر فیصد آبادی شہروں میں منتقل ہوجائے گی ، شہروں میں ،اسکول ، ہاسپٹل ، سڑک بجلی کی سہولیات ،روزگار،کھیل کود اور خدمات کے ضمن کی ساری چیزیں مہیا ہیں ، لوگ ایک دوسرے کا بلا معاوضہ تعاون تو نہیں کرتے ہیں لیکن حسد و جلن بھی نہیں کرتے ہیں بلکہ شہروں میں اکثر لوگوں کو اپنے پڑوسی کی بھی خبر نہیں رہتی ہے کہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے لیکن اگر گاؤں کے سدھار اور سہولیات کی طرف توجہ نہ کی گئی تو شہری آبادی گاؤں کے بوجھ سےتلملا اٹھے گی اور ماحولیاتی الودگی بلدیاتی نظام ، شہری ترقیاتی پروگرام سب متاثر رہےگا ، آج بھی میرے اپنے گاؤں سے بہت سی یادیں وابستہ ھے نجانے میرے گاؤں کی وہ رونقیں کہاں کھو گئی ھے کاش میرے گاؤں کی وہ سب رونقیں واپس آجاتی آخر میں شعر
جنکے دم سے تھی میرے گاؤں کی رونقیں وہ
شہروں میں جا بسے ورنہ میرا گاؤں یونہی ویران تو نہ تھا
ایوب ساقی
سوشل ورکر نکہ کلاں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔