صدام فدا کا نعتیہ مجموعہ جادہ ٕ نور
تبصرہ نگار:۔ سید حبدار قائم
غزلیہ آہنگ جب تقدس کے آسمان کو چھوتا ہے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت کا آغاز ہوتا ہے آسمانِ شعور پر الہام اس ہستی کے نعلین پر بوسے دیتا ہے جو مبداء کائنات ہے ، جو مخزنِ صاحبِ آیات ہے ، جو صاحبِ معجزات ہے، جو باعث تخلیقِ کائنات ہے ، جو ارفع الدرجات ہے، جو اکمل الرکات ہے ، جو واصلِ ذات ہے، جو خلاصہء موجودات ہے ، جو فخرِ موجودات ہے، جو صاحب التاج و صاحبِ معراج ہے ، جو منشائے کائنات ہے، جو سیدِ کائنات ہے، جو مقصودِ کائنات ہے، جو مقصدِ حیات ہے، جو منبعِ فیوضات ہے، جو افضل الصلوٰت ہے تطہیرِ قلب اُس انسان کی فکری عفت بڑھاتی ہے جو گلستانِ مدحت کا گل چیں بنتا ہے انوارِ خدا اس پر برستے ہیں اس کی فکر عطر نما اور جسم غار حرا کی طرح انوار سمیٹتا چلا جاتا ہے جس طرح نعت گوئیی کی دنیا میں بہت سارے نام مشہور ہوئی اُن میں سے ایک معتبر نام صدام فدا کا بھی ہے جنہوں نے تھوڑی سے مدت میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دیے حالانکہ نعت گوئی پلِ صراط پر چلنے کا نام ہے اور پل صراط پر سے وہی گزرے گا جس کے پاس حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سند ہوگی صدام فدا کی مدحت نگاری دیکھ کر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مولا علی علیہ السلام نے ان کا اس پلِ تیز دھار پر ہاتھ تھاما ہوا ہے اور یہ اس پل پر بھاگتے جا رہے ہیں
بہت سارے نعتیہ مشاعرے جو میں نے صدام فدا کے ساتھ پڑھے ہیں ان میں یہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی ہے کہ صدام فدا کی گرج دار آواز سٹیٹس پرستی نہیں کرتی جس شاعر کا جو شعر دل پر لگے اسے اپنی داد سے نواز دیتے ہیں باقی بہت سارے شعرا مجھے سٹیٹس کے بت کے سامنے سجدہ ریز ملے ہیں۔
جہاں تک صدام فدا کی شاعری کا تعلق ہے اس میں جگہ جگہ تازہ کاری سلاست بلاغت اور فصاحت نظر آتی ہے عروضی خدوخال دیکھیں تو کہیں بھی آپ کو کمی نظر نہیں آئے گی جادہ ٕ نور میں کئی جگہ پر صنعتِ تلمیح صنعتِ تضاد اور صنعت تکرار استعمال ہوئی ہے جو کہ ان کی شاعری کو چار چاند لگا رہی ہے کتاب میں کوٸی ایسا شعر نہیں ہے جو قاری کی فکری بساط سے بالا ہو سلاست اور سہل ممتنع جادہ ٕ نور کے گہنے ہیں جب قاری کتاب کو پڑھنا شروع کرتا ہے تو اسے یوں لگتا ہے کہ وہ مدینے کی گلیوں میں گھوم رہا ہے اور مدینہ شہر کی کھجوریں آنکھوں سے لگا لگا کر کھا رہا ہے کبھی وہ غار حرا کےمقدس پتھروں کو چومتا ہے اور کبھی وہ مدینے کی خاک اٹھا کر سینے سے لگاتا ہے جادہ ٕ نور کا جب میری نظروں نے طواف کیا تو مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو محسوس ہوئی میں کتاب پڑھتا گیا پڑھتا گیا اور صدام فدا کے علم و فن کا معترف ہوتا گیا صدام فدا کی اساس عشقِ رسول ﷺ ہے عشقِ اہل بیت ہے اور عشقِ صحابہ ہے جو ان کے اشعار میں برتی گئی تلمیحات میں جگہ جگہ نظر آتا ہے
کتاب کا فلیپ شمشیر حیدر اور محمد زاہد نے لکھا ہے کتاب پر پاکستان کی معتبر اور معروف شخصیت نسیم سحر نے اپنی محبتوں اور شفقت کا بہترین اظہار کیا ہے مجھے وہ بھی صدام فدا کے فکر و فن کے معترف نظر آئے کتاب کا انتساب نعت گو شاعر جناب عارف قادری مرحوم کے نام پر ہے کتاب پر تبصرہ راکب راجا کا ہے جو کہ واہ کینٹ سے تعلق رکھتے ہیں
صدام فدا جو سرکار ﷺ کے متعلق سوچتے ہیں اس کا شعر میں اظہار کر دیتے ہیں ان کا انداز فقیرانہ ہے دل کے سخی ہیں محبت سراپا ہیں عشق و مستی میں ڈوبی ہوئی شاعری ان کا خاصہ ہے ان کی کتاب جادہ ٕ نور میں ان کی حضور اکرم ﷺ سے عشق و وارفتگی دیکھی جا سکتی ہے نٸی نٸی زمینوں میں ان کا کلام سجری رتوں کی مانند ہے جہاں خوشبوٸیں رقص کرتی ہیں جہاں الہام مچلتا ہے جہاں جبریل ہم نوا ہو کر اپنے پر بچھا دیتا ہے کیونکہ یہ ذکر اس کا ہے جو انجمنِ لیل و نہار ہے ، جو شافع یومِ قرار ہے، جو آفتابِ نو بہار ہے ، جو سرورِ عالم ہے، جو مونسِ آدم ہے ، جو قبلہء فخرِ دو عالم ہے، جو مرسلِ خاتم ہے، جو خیرِ مجسم ہے، جو صدرِ مکرم ہے، جو نورِ مقدم ہے، جو نیرِ اعظم ہے، جو مرکزِ عالم ہے، جو وارثِ زمزم ہے، جو کعبہ ء اعظم ہے، جو جانِ مجسم ہے، جو نورِ مجسم ہے اور اُن کا ذکر قرآن نے بھی بلند تر قرار دیا ہے
جادہ ٕ نور میں صدام فدا کے نگار خانہ ٕ شعر میں ڈھلے فن پاروں کا عکس ہاۓ جمیل ان کے ان فرخندہ بخت اشعار میں ملاحظہ کیجیے
حمد
آنکھ نے پہلی عدالت تری دیکھی ہے جہاں
مطمئن سارے خطاوار نظر آتے ہیں
تجھ پہ ایمان مرا اور بھی بڑھ جاتا ہے
جب مجھے احمدِ مختار ﷺ نظر آتے ہیں
نعوت سے انتخاب
لوگ جو نعت کے میدان میں آجاتے ہیں
بالیقیں محفلِ حسانؓ میں آجاتے ہیں
سوچتا ہوں کہ مدینے کی طرف جانا ہے
اشک مژگان سے سامان میں آجاتے ہیں
اس سے پہلے اتنی روشن تو نہ تھی
جتنی روشن زندگی ہے آپ ﷺ سے
ورنہ پہچان تھی معدوم جہاں میں اپنی
اُن ﷺکے دیکھے سے ہوے ہم بھی نمایاں کتنے
ایسی دنیا کی جستجو میں ہوں
ہر جگہ ہو جہاں فضائے نعت
یہ جو خوشبو کا ہے سفر مجھ تک
اوجِ رحمت بلا رہی ہے مجھے
میں نے دیوار پہ اک بار محمدﷺ لکھا
اب نظر اٹھتی ہوئی روز اُدھر جاتی ہے
میرے الفاظ مری سوچ کی پروازوں میں
مدحتِ سیدِ ابرار سے خوشبو آئی
کتنے خوش بخت ہیں جو سینوں میں
عشقِ خیرالانام رکھتے ہیں
عہد باندھا ہے کہ جینے کی طرف چلتے ہیں
آپ ﷺ کے شہر مدینے کی طرف چلتے ہیں
آپ کی یاد میں اس کو بھی بسر کر دوں گا
مجھ پہ گر بارِدگر ایسی جوانی آئی
بس وہی سانس معتبر ٹھہری
جس کا طیبہ میں اختتام ہوا
اے مرکز انوار و عنایات مکمل
ہے بعدِ خدا ایک تری ذات مکمل
جب سے لوٹا ہوں مدینے کی زیارت کر کے
موسمِ گل ہی نظر آیا جدھر دیکھا ہے
راہِ طیبہ پہ جنوں رکنے کہاں دیتا ہے
آبلے شوقِ سفر اور بڑھا دیتے ہیں
میرے آقا ﷺ کا حکم سنتے ہی
سنگ ریزوں نے بھی کلام کیا
بس ایک دن ہی سجائی تھی نعت کی محفل
فدا پہ ابرِ کرم سارا سال برسا ہے
چاند بن کر وہ چمکتا ہے مری راتوں میں
یادِ آقا ﷺ میں جو آنسو سرِ مژگاں ٹھہرا
آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت صدام فدا کی توفیقاتِ مدحت نگاری میں مزید نکھار اور اضافہ فرماۓ۔ آمین
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔