کھیل اور کھیل کے میدان:۔
ملک مظفر نیزہ باز اور گھوڑ سوار تھے لیکن اس کے باوجود گاؤں میں کوئی کھیل کا میدان بنوا کر نہیں دیا۔ گاؤں کے بچے جہاں کھلی زمین دیکھتے تھے وہاں جا کر کھیلتے تھے جس کی اب تک یہی حالت ہے موجودہ رئیس ملک سمین خان اور میجر طارق بھی اسی روٹین پر چل رہے ہیں اور ابھی تک کسی نے کھیل کا میدان بنوا کر نہیں دیا۔ بہرحال گاؤں کے بچے اب کرکٹ ،فٹبال ، ہاکی کھیلتے ہیں اس سے پہلے مندرجہ ذیل کھیلیں کھیلی جاتی تھیں”۔
گلی ڈنڈہ ، کرکٹ ، ڈنڈ پاکی ، بنٹے سے مختلف کھیل ،سری گڈیرن، کانا گڈی بھمیری والی بال، لک ترٹی، چینجو، تختی لڑائی ،دوات لڑائی ، چار کانی،کوکلے ، لڈو، بارہ گوٹ، مٹی کے کھلونے، وغیرہ جن کی تفصیل میرے پنجاب مضمون "اڈیاں گھیبی کھیڈاں” میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے جس کو "آئی اٹک ” ویب سائیٹ پر پڑھا جا سکتا ہے۔
اسکول:۔ ا
بزرگوں کے دور میں گاؤں میں کوئی پرائمری اسکول تک نہیں تھا اور گاؤں کے لوگ تین چار کلومیٹر دور ڈھلیاں کمپنی کے پرائمری ا سکول میں پڑھنے کے لیے جاتے تھے 1964 میں گاؤں کا بوائیز اسکول بن گیا جس میں ماسٹر اللہ دتہ،ماسٹر شیر محمد اوربعد میں ماسٹر اللہ دتہ کی جگہ ماسٹر صدیق پڑھاتے تھے ان تینوں ماسٹرز کا تعلق پنڈی گھیب شہر سے تھا۔ 1980 میں خواتین معلمات آ گئیں اور لڑکوں کے اسکول کی چاردیواری بن گئی کیونکہ پہلے صرف دو کمرے اور ایک برآمدہ تھا ہنوز لیڈی ٹیچرز تعینات ہیں۔
گرلز پرائمری اسکول:۔
شروع شروع میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکول نہیں تھا اس لیے حافظ احمد جان صاحب نے اپنا گھر 1965 میں بچیوں کی تعلیم کے لیے وقف کیا۔اس گھر میں معلمات آ کر بارہ تیرہ لڑکیوں کو پڑھاتی تھیں پھر 1981 میں گاؤں کے جنوب کی طرف یونین کونسل کے عقب میں ایک اسکول بنایا گیا جس میں پانچویں کلاس تک تعلیم دی جاتی تھی۔جس کی عمارت بوسیدہ ہونے کی وجہ اسے ختم کر دیا گیا اور گاؤں کی بچیاں بوائز اسکول میں پڑھنے کے لیے جانے لگیں جس کی کافی مخالفت کی گئی لیکن سیاسی ناہمواری آڑے آئی اور لوگ خاموش ہو گئے۔ جس کی وجہ سے کئی افراد نے پردے کی وجہ سے بچیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا ترک کر دیا اور گاؤں کے سیاستدانوں نے اس میں کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا۔ یہ مسئلہ اب بھی حل طلب ہے۔
پرائیویٹ اسکول:۔
گاؤں میں چار پرائیویٹ اسکول بنائے گئے ہیں ایک کا نام فیوچر ویوژن ہے جس کا سرپرست سید محسن رضا شاہ اور دوسرے اسکول کا نام اقراء ماڈل اسکول ہے جس کے سرپرست کا نام حافظ محمد رمضان ہے ۔ تیسرے اسکول کا نام اجالا پبلک اسکول ہے جس کا سرپرست طارق شاہ پٹھان اور چوتھے سکول کا نام ہیپی ہوم اسکول ہے جس کا سرپرست نواب خان آف ڈھوک نمبر دار ہے
چاروں اسکولوں میں لڑکے لڑکیاں اکھٹے پڑھتے ہیں ۔
ڈسپنسری:۔
گاؤں کی ڈسپنسری 1971 تک دومیل میں تھی جو ملک مظفر خان کی کوشش اور سیاسی بصیرت سے بعد میں غریب وال گاؤں میں منتقل کرائی گئی کیونکہ پہلے دومیل گاؤں میں عملےکی تنخواہ ،عملے کا ریکارڈ اور خرچ وغیرہ آتے تھے اور دومیل میں غریبوال "ڈسپنسری ایٹ دی میل” کے ٹائیٹل پر قائم تھی جو 1981 میں غریبوال گاؤں میں ٹرانسفر ہوئی۔
یونین کونسل:۔
یونین کونسل بھی ملک مظفر خان کی سیاسی بصیرت کی وجہ سے ہمارے گاؤں میں آ گئی کیونکہ یہ پہلے اخلاص میں تھی جس کا اب تک نام اخلاص کے نام پر ہے اس کا افتتاح ایس پی ڈپٹی کمشنر سید خالد محمود نے 18 جون 1963 میں اپنے مبارک ہاتھوں سے کیا۔
لاہنی رکھ:۔
گاؤں کے مغرب میں راولپنڈی روڈ عبور کرتے ہی گاؤں کا جنگل شروع ہو جاتا تھا جسے مقامی زبان میں "رکھ” کہتے تھے ۔اس رکھ میں جھاڑیاں ،بیری، اور پُھلاہی کے زیادہ تعداد میں درخت تھے اور کہیں کہیں کیکر اور شیشم بھی پائی جاتی تھی۔ اس میں گھاس کاٹنے پر پابندی تھی کیونکہ اس میں تیتر، بٹیر، فاختہ اورجنگلی جانور پائے جاتے تھے گاؤں کے لوگ اس میں بیر کھانے کے لیے جاتے تھے ملک مظفر خان اور بعد میں ان کے بیٹوں کے امیر کبیر دوست یہاں تیتر، مرغابی، فاختہ اور جنگلی خرگوش کا شکار کرنے آتے تھے کئی انگریز بھی ان کی وساطت سے یہاں جنگلی سوروں کا شکار کرنے آتے تھے اب ملکان نے زمینیں بیچ دی ہیں اور گاؤں کا پرانا حسن "رکھ” نہیں رہا اسی رکھ میں ملک مظفر خان نے ایک ڈیم بھی بنوایا ہوا تھا جس میں مچھلیاں اور مرغابیاں ہوتی تھیں۔
صدر ایوب خان 1963 کے اوائل میں ملک مظفر خان کے پاس یہاں شکار کھیلنے آئے تھے تو ملک مظفر نے اپنا مورگاہ والا گھر ان کو گفٹ کیا تھا جو غالبا اب یونائیٹڈ نیشن کا دفتر بنا دیا گیا ہے
کسیاں تے مہری:
گاؤں کے بالکل ساتھ ہی شمال کی جانب کسیاں جو کہ زیارت حضرت معصوم بادشاہ ؒ سے شروع ہو کر چشمہ حضرت حاجی امام ؒ جس کو مقامی زبان میں "بابا چوا "کہتے تھے تک جاتی ہیں ان کسیوں میں پھلائی کے گھنے درخت تھے جن میں ایک دو درخت رُکھ اور ٹاہلی کے بھی تھے چشمے کے ساتھ کھجور کے دو درخت اور دو کنویں بھی تھے۔ پرانے دور میں لیٹرین سسٹم نہیں تھا اس لیے رفع حاجت کے لیے بھی یہ "کسی” ہی استعمال ہوتی تھی جس میں مشرقی حصہ عورتیں اور مغربی حصہ مرد استعمال کرتے تھے ۔اس "کسی” کو بعد میں ملک میجر ڈاکٹر طارق نے ڈیم بنوا دیا کیونکہ بارش کا سارا پانی اس ” کسی” میں جاتا تھا جو کہ آگے نکل کر پنڈیگھیب ہروالہ میں چلا جاتا۔ "کسی” عبور کرتے ہی سامنے شمال والی زمیں جو قدری اونچی ہے کو” مُہری "کہتے تھے ۔ملک طارق نے "کسی” والے ڈیم میں فش فارم بنوایا ہے . اور "مُہری” پر باغ اور سبزیاں کاشت کرنے کے لیے پمپ لگا کر اسی پانی کو استعمال کر رہے ہیں۔ "مُہری” پر بھی پہلے شکار کھیلنے کے لیے لوگ آتے تھے لیکن ملک طارق نے اب جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اس ایریا میں سخت پابندی لگائی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے کافی پرندے شکار ہونے سے بچ گئے ہیں۔
مگھ:۔
مُہری کراس کرتے ہی شمال میں گہری کھائیاں ہیں جن کو مقامی لوگ "مگھ” کہتے تھے کسیاں مہری اور مگھ کی جانب جانور چرانے کے لیے لوگ لے جاتے تھے ۔کھپی ، وِنڑاں اور سرکنڈے ان تینوں جگہوں پر کافی تعداد میں موجود تھے سرکنڈے کو جلانے کے ساتھ ساتھ لوگ چھپر بناتے تھے اور گھروں کی چھت کے لیے ” کڑے” موجودہ ٹائیلز اور لنٹر ڈالنے کی جگہ استعمال کرتے تھے ۔ سرکنڈے سے چھج اور کھاری بھی بنتی تھی۔ چھج کھلواڑے پر گندم وغیرہ کے دانے گھاس پھوس سے صاف کرنے اور گھر کا کوڑا کرکٹ گندگی کے ڈھیر تک لے جانے کے لیے استعمال ہوتا تھا اور کھاری جب عورتیں مویشی چرانے کے لیے لے جاتی تھی تو سر پر رکھ کر چلتی تھیں مویشی جوگالی کے لیے چھوڑ کر سوکھا ہوا گوبر چنتیں اور کھپی ٹانڈے اور ڈڈے وغیرہ کاٹ کر کھاری میں ڈال کر گھر لے آتیں جو جلانے کے لیے استعمال ہوتے۔ "مگھ” کا کچھ حصہ ہموار کر کے لوگوں نے پلاٹنگ شروع کر دی ہے جو ایریا خاص طور پر راولپنڈی روڈ کے ساتھ ہے یہی مگھ کافی آگے شمال مغرب کی طرف بڑھتا ہے اور نانگاوالی گاؤں تک جاتا ہے۔ مگھ چونکہ پکا پتھر ” پڑ” پر مشتمل ہے اس لیے گھر بنانے کے لیے لوگ اس سے پتھر بھی توڑ کر لے جاتے تھے۔
جانور:۔
لاہنی رکھ، کسی،مہری اور مگھ میں جنگلی جانور جن میں سور،سہہ ،جھائی ، گیدڑ،لومڑی،بھیڑیا اور خرگوش وغیرہ شامل ہیں ملتے تھے آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ جنگلی جانور بہت کم رہ گئے ہیں گیدڑ اور سور تو اب بھی ہوتے ہیں لیکن زیادہ تعداد میں کالا چٹا پہاڑ کی طرف نقل مکانی کر گئے ہیں ۔
اور گھریلو جانورں میں گائے،بھینس،بھیڑ،بکریاں،کتے اور بلیاں شامل ہیں
پرندے:۔
گاؤں میں پرندوں کی کافی قسمیں پائی جاتی ہیں جن میں گیلڑے، فاختہ، نیل کنٹھ، کوے ،چیل ،چَمچِرڑ (عام چڑیا نما خاکی پرندہ جس کے سر پر تاج ہوتا ہے) ، بلبل دونوں قسم کی،پدی، تلیُر، ہد ہد، لالڑی مینا پیلی اور سرخ چونچ والی دونوں،طوطا،راول طوطی، تیتر،بٹیر،لگڑ،عقاب،شاھین، مرغابی، کالی پدی،ڈبی پدی، رس چوسنے والی کالی پدی، سولڑ یا سوہڑی،لٹورہ، ڈھوڈر کاں (کوے کی ایک بڑی قسم) چمگادڑ، کالی کلواتارن، ابابیل اور گھریلو چڑیا وغیرہ
گھروں میں لوگ بطخیں،تتریاں اور مرغیاں بھی پالتے ہیں
حشرات الارض:۔
حشرات الارض اور رینگنے والوں میں سانپ،سوسمار یعنی گوہ، چھپکلی، گھرنئی،سانڈے، دومونہی پھرڑ سانپ، سلہہ، دند گنڑناں، گلہری اور بڑے چوہوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی چوہیاں شامل ہیں۔
بھمیر”۔
ہمارے گاؤں کی” لاہنی رکھ” میں بیری کی جھاڑیاں زیادہ تھیں اس لیے یہاں دو قسم کے بھمیر بھی پائے جاتے تھے جن میں ایک "ساوا بھمیر” تھا جس کی رنگت سبز تھی اور اس کے اوپر پیلے رنگ کے نقطے بنے ہوتے تھے۔جب کہ دوسرا ” رتہ بھمیر” سرخ پروں والا جب کہ اس کا سینہ سبز سنہری تھا جو کہ جسامت میں ساوے بھمیر سے بڑا تھا ۔بیری کے درختوں کے پتے اس کی خوراک تھی گاؤں کے بچے اسے پکڑ کر کھیلتے تھے۔ دونوں بھمیر بہت خوب صورت چھوٹے چھوٹے انڈے دیتے تھے۔
امام بارگاہ:۔
گاؤں میں سُنی مسجد کے بالکل ساتھ ہی ایک امام بارگاہ بنایا گیا جس کے لیے زمین میرے دادا ابو سیّد فضل حسین شاہ بخاری نے وقف کی اور سیّد شاہ گل محمد کے ساتھ مل کر دو کمرے بنائے گئے جن میں نور محل جس میں تابوت اور عَلَم رکھتے تھے وہ ملک مظفر کی بیوی ملکہ شاہجہان نے بنوا کر دیا تو گاؤں کے لوگوں نے کافی مخالفت کی ۔
ملک مظفر خان کی بیوی نے امام بارگاہ کے نور محل کے ساتھ چاردیواری بھی بنا کر دی تھی۔ اب سادات اس پر باقاعدہ کام کر رہے ہیں اس کے بانی سیّد شاہ گل محمد ہی رہے ان کی وفات کے بعد اب ان کے بیٹے سیّد علی شاہ اس کے بانی ہیں۔
تصاویر کے لئے ہم تنویر احمد ولد دوست محمد کے شکر گزار ہیں
جاری ہے
سیّد حبدار قائم
اٹک
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔