ماں جی
(بلا تامل، شاہد اعوان)
ماؤ نی یاد اِچ اَکھ پئی رونڑیں
گھروِچ رونق مائو نال ہونڑیں
پھٹ سینے تے جَد کوئی لاوے
میکی تہاڑی یاد ستاوے
ماں کی یاد میں پوٹھوہاری شاعر برادر نزاکت مرزا نے اپنی ماں بولی میں کس خوبصورتی سے دل کی کیفیت بیان کی ہے۔ ماں چاہے انسان کی ہو یا حیوان کی، اس کی ممتا اپنی اولاد کے لئے یکساں اور منفرد ہوتی ہے۔ ہمارے آقا ومولاﷺ کی حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ میںنماز پڑھ رہاہوتا میری ماں مجھے آواز دیتیں میں نماز توڑکر ان کا حکم بجا لاتا۔ اگر ہم اپنے اکابرین کی بات کریں تو ہر ایک نے ماں کی خدمت و اطاعت میں دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی، قلندرِ لاہوری علامہ محمد اقبالؒ کے اشعار ہوں یا قدرت اللہ شہاب کی تحریریں ہر کسی نے اپنی ماں کا ذکر جس عقیدت و دردمندی سے کیا اسے پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہم لمحہ بھر کے لئے اپنے بچپن کی یادوں کو دل کی سکرین پر فوکس کریں تو بلامبالغہ یہ حقیقت واشگاف ہو گی کہ اس چند روزہ زندگی میں بچپن ان حسین اور خوشگوار لمحات کانام ہے جہاں کوئی غم اورتکلیف ہمیں چھو نہیں سکتا کہ تمام دکھ تکلیفیں ہمارے ماں باپ اپنے اوپر اوڑھ لیتے ہیں۔ بقول تنویر سپراؔ:
موجد کا حسن اپنی ہی ایجاد کھا گئی
ماں کاشباب کثرتِ اولاد کھا گئی
27اپریل کو میری ماں جی کی بارہویں برسی ہے ان بارہ سالوں میں کوئی پل ایسا نہیں گزرا جب اماں جی کی یاد سے یہ دل غافل ہوا ہو۔
تمہیں بھلانا ہی اول تو دسترس میں نہیں
جو اختیار بھی ہوتا تو کیا بھلا دیتے !
اماں جی کے احسانات کی لمبی فہرست ہے کون کون سا گنواؤں اورکس کو بھول جاؤں؟؟ بچپن کا زمانہ تھا تیسری یا چوتھی جماعت میں تھا، ہمارے گھر کے قریب ہی اینٹیں بنانے کی بھٹی تھی اماں نے انڈے اور دیسی گھی کا پراٹھا بنا کر سکول کے لئے روانہ کیا ۔ سکول کس نے جانا تھا سارا دن اسی ویران سی بھٹی میں کھیلتے کھیلتے گزار دیا جب کافی وقت گزر گیا اور لگا کہ اب سکول میں چھٹی ہو گئی ہو گی تو گھر کی راہ لی۔ جونہی گھر پہنچا تو ماں کی زمانہ شناس نظروں نے فوراٌ بھانپ لیا کہ اس کا نورِ نظر سکول نہیں گیا بلکہ آوارہ گردی کرتا رہا ہے۔ بھٹی کے درودیوارکی کالک ہاتھوں اورچہرے پر عیاں تھی۔ ہمارے گاؤں (کھوئیاں) سے کافی دور کوٹگلہ شریف کی زیارت تھی، اگلے روز علی الصبح اماں مجھے وہاں لے گئیں اور پیر صاحب سے دَم کرایا پیر صاحب نے گُڑ دم کر کے دیا، بس پھر کیا تھا وہ دن سکول سے چھپنے کا آخری دن ثابت ہوا اور پھر پیر صاحب کے گُڑ کی تاثیر نے پڑھائی سے کبھی نہیں بھاگنے نہ دیا۔
تمہارا نام لیتا تھا بہاریں رُک کے سنتی تھیں
تمہارا نام لیتا ہوں کلیجہ منہ کو آتا ہے!!
بچپن کے زمانے میں ہمارے گاؤںمیں طوفانی بارشیں ہواکرتی تھیں کئی کئی روز ’’جھڑی‘‘ لگی رہتی، مکان کچے تھے آخر کب تک ان بارشوں کا بوجھ اٹھاتے ۔ شدید سردیاں اوپر سے بارشوں کا نہ رکنے والا سلسلہ تھمنے کا نام نہ لیتا تھا۔ ہماری ڈھوک سے متصل گھر جنت مکانی ہماری پھوپھی اپنے بچوں اور کھانے پکانے کا سامان لے کر آپہنچتیں کہ ہمارا ایک کوٹھا ابھی سلامت تھا باقی سارے کمرے ٹپکنے لگے تھے دودن کے بعد ہمارا گھر بھی محفوظ نہ رہا۔ گھر والے ٹپکنے والی جگہوں پر ’’ترامیاں‘‘ رکھ رکھ کر کبھی ایک کونے میں تو کبھی دوسرے کونے میں سر چھپا رہے تھے۔ اماں جی زور زور سے آیتہ الکرسی کا ورد کرتی جاتیں اوربارش رکنے کی دعائیں مانگتیں ۔ جب ننھیال جانے کا پروگرام بنتا تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا ننھیالی گائوں کوٹ شیرا تک پیدل سفر دس کلومیٹر سے کم نہ تھا بیچ راستے میں ’لیٹی‘ کا برساتی نالہ پڑتا جہاں بارش کے دنوںمیں سیلابی پانی سے گزرنا محال ہوتا چنانچہ کئی کئی گھنٹے انتظارکے بعد واپس گاؤں لوٹنا پڑتا کہ اسے پار کرنا کسی خطرے سے خالی نہ ہوتا ۔ بچپن کی ہزاروںایسی چھوٹی چھوٹی یادیں اور ماں جی کی محبت بھری باتیں کسی فلم کے یادگار سین کی طرح دل کو تڑپاتی اوررلاتی ہیں۔ گویا:
دل و نظر کی عقیدتوں میں رچے ہوئے ہیںکمال تیرے
قدم قدم پر تلاش تیری، نفس نفس ہیں خیال تیرے
یہ یادیں اورباتیں قرطاس کی محتاج نہیں، ماں کی شان کہنے کو الفاط نہیں۔ اس کی توصیف لکھنے کی قلم کو تاب نہیں۔۔۔ سب کی مائیں سلامت رہیں اورجو چلی گئیں اللہ ان کی قبروں کو نور سے بھر دے اورانہیں جنت میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے۔
ماں! تیرے بعد بتا، کون لبوں سے اپنے
وقتِ رخصت میرے ماتھے پہ دعا لکھے گا
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔