مظفر وارثی کی نعت "تو کجا من کجا”
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
مظفر وارثی کا شمار اردو زبان کے چند چیدہ چیدہ نعت گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی نعت "تو کجا من کجا” اردو نعتیہ شاعری کا ایک شاہکار نمونہ ہے جو ایک عاجز بندے کی سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے عقیدت، نیازمندی اور آپ ﷺ کی بے پایاں عظمت کے اعتراف پر مبنی فارسی اور اردو کے الفاظ کی آمیزش سے تخلیق کردہ ایک بہترین نعت ہے۔ یہ نعت نہ صرف اپنے روحانی اور وجدانی اثرات کی وجہ سے ہر خاص و عام میں مقبول ہے بلکہ اس کی شعری صناعی اور فکری گیرائی بھی اسے اردو نعتیہ ادب میں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔
یہ نعت بنیادی طور پر تضاد (Contrast) کے اصول پر استوار ہے، جہاں شاعر نے اپنی عاجزی و بے بسی کو سرکارِ دوعالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی عظمت و رفعت کے سامنے پیش کیا ہے۔ پوری نعت میں "تو کجا من کجا” کا مصرع بار بار دہرایا گیا ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی شانِ بے مثال کے سامنے ایک عام انسان کی حیثیت کچھ بھی نہیں۔
نعت رسول مقبول ﷺ میں عظمتِ رسول ﷺ اور انسانی عاجزی کو موضوع بنایا گیا ہے مثلاً:
"تو امیرِ حرم، میں فقیرِ عجم”
شاعر یہاں دو متضاد حیثیتوں کو سامنے رکھتا ہے۔ "امیرِ حرم” کا مطلب ہے کہ رسولِ اکرم حضرت محمد ﷺ کعبے کے مالک و مختار ہیں، جبکہ "فقیرِ عجم” میں شاعر اپنی حیثیت کو کم ترین ظاہر کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ وہ نہ عربی النسل ہے، نہ کوئی بڑی ہستی، بلکہ فقط ایک عاجز گناہ گار عجمی ہے۔
نعت میں رحمت اور خطا کا تقابل کیا گیا ہے جیسے:
"تو عطا ہی عطا، میں خطا ہی خطا”
شاعر یہاں حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سراپا رحمت ہونے کو اپنی گناہ گاری کے مقابل رکھتا ہے۔ یہ تصور قرآن و حدیث میں بھی بارہا آیا ہے کہ رسولِ اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سراپا رحمت ہیں، جبکہ انسان خطا کا پتلا ہے۔
نعت میں یقین اور گمان کو بھی بیان کیا گیا ہے مثلاً:
"تو ابد آفریں، میں ہوں دو چار پل
تو یقیں میں گماں، میں سخن تُو عمل”
یہ اشعار رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی لافانی حیثیت اور انسانی وجود کی ناپائیداری کو واضح کرتے ہیں۔ یہاں شاعر اپنی کمزوری کا اقرار کرتا ہے کہ وہ صرف باتیں بنانے والا ہے، جبکہ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذاتِ گرامی عمل اور یقین کی بنیاد ہے۔
نعت رسول مقبول ﷺ میں احرامِ انوار اور درودوں کی دستار کا ذکر کیا گیا ہے جیسے:
"تو ہے احرامِ انوار باندھے ہوئے
میں درودوں کی دستار باندھے ہوئے”
اس شعر میں شاعر نے ایک خوبصورت تخیل باندھنے کی کوشش کی ہے۔ احرامِ انوار یعنی نورانی لباس جو رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ شاعر خود کو صرف درود پڑھنے والا قرار دیتا ہے۔
نعت رسول مقبول ﷺ میں سدرۃ المنتہیٰ اور زمین کی خاک کا ذکر کیا گیا ہے مثلاً:
"میرا گھر خاک پر اور تری رہگزر
سدرۃ المنتہیٰ، تو کجا من کجا”
سدرۃ المنتہیٰ وہ مقام ہے جہاں جبریل علیہ السلام کی پرواز ختم ہو جاتی ہے، مگر رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ معراج کی رات وہاں سے بھی آگے تشریف لے گئے۔ شاعر اپنے مادی وجود کو خاک سے تشبیہ دیتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جبکہ حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بلندی و رفعت کو سدرۃ المنتہیٰ سے تعبیر کرتا ہے۔
نعت میں سخاوت اور فقیری کا بھی ذکر کیا گیا ہے جیسے:
"کاسۂ ذات ہوں، تیری خیرات ہوں
تو سخی میں گدا، تو کجا من کجا”
یہاں شاعر اپنی حیثیت کو ایک گداگر سے تشبیہ دیتا ہے جو نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سخاوت کے در پر کھڑا ہے۔ یہ تصور صوفیانہ شاعری میں بھی بہت عام ہے کہ بندہ صرف ایک سائل ہے اور رسولِ اکرم ﷺ شفاعت کرنے والے ہیں۔
شاعر حالات میں استقامت کی بھی بات کی ہے جیسے:
"ڈگمگاٰؤں جو حالات کے سامنے
آئے تیرا تصور مجھے تھامنے”
یہاں شاعر عقیدت و محبت کے جذبات میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے کہ جب بھی دنیاوی مصائب گھیر لیں تو نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی یاد سہارا دیتی ہے۔
نعت رسول مقبول ﷺ میں خاموشی اور فصاحت کو بھی موضوع بنایا گیا ہے مثلاً:
"میرا ملبوس ہے پردہ پوشی تری
مجھ کو تابِ سخن دے خموشی تری”
شاعر یہاں اس حقیقت کو بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ اس کی ساری عزت اور پہچان رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی نسبت سے ہے۔
شاعر نے اشکوں کی زباں کا ذکر یوں کیا ہے:
"دوریاں سامنے سے جو ہٹنے لگیں
جالیوں سے نگاہیں لپٹنے لگیں
آنسوؤں کی زباں ہو میری ترجماں
دل سے نکلے صدا، تو کجا من کجا”
اس شعر میں شاعر مدینہ منورہ کی زیارت کے لمحے کی منظر کشی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جہاں آنکھیں آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے روضہ اطہر کی جالیوں سے لپٹ جاتی ہیں اور آنسو دعاؤں کی صورت میں بہنے لگتے ہیں۔
یہ نعت نہ صرف اپنے موضوع کے اعتبار سے بلند پایہ نعت ہے بلکہ اس میں کئی شعری خصوصیات بھی موجود ہیں جیسے تکرار کی خوبصورتی، "تو کجا من کجا” کا مسلسل اعادہ اس نعت کو ایک وجدانی کیفیت عطا کرتا ہے۔ یہ تکرار محبت کے جذبے کو مزید اجاگر کرتی ہے اور سامع پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔
تو کجا من کجا میں شامل یہ تمام اشعار نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی عظمت و بلندی اور انسانی کمزوری کے درمیان فاصلے کو ظاہر کرتے ہیں۔
نعت میں صوفیانہ اور وجدانی رنگ بھی نمایاں ہے۔
یہ نعت صوفیانہ طرزِ فکر کا حامل ایک شاہکار نعت ہے جہاں شاعر اپنی ناچیز حیثیت کو اجاگر کرتے ہوئے مکمل فنا کا اقرار کرتا ہے۔
نعت رسول مقبول ﷺ میں سلاست کے ساتھ ساتھ روانی بھی ہے۔ الفاظ کا چناؤ سیدھا سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ گہرا بھی ہے، جس سے نعت کا ہر شعر دل میں اترتا ہے اور ایک وجدانی کیفیت پیدا کرتا ہے۔
نعت میں تخیل کی بلند پروازی بھی شامل ہے۔ "سدرۃ المنتہیٰ”، "احرامِ انوار”، "کاسۂ ذات”، "درودوں کی دستار”، "جالیوں سے نگاہیں لپٹنے لگیں” جیسے خیالات شاعرانہ حسن کو مزید نکھارتے ہیں۔
"تو کجا من کجا” مظفر وارثی کی ایک ایسی لازوال نعت رسول مقبول ﷺ ہے جو عقیدت، عاجزی اور عشقِ رسول ﷺ کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔ اس میں ایک بندۂ عاجز کا اپنے محبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے حضور جذبۂ نیاز مندی کا دل سے اظہار کیا گیا ہے۔ نعت کی سادگی، گہرائی، موسیقیت اور فنی خوبصورتی اسے اردو نعتیہ ادب میں ہمیشہ کے لیے ایک بلند مقام عطا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نعت عوام و خواص میں یکساں مقبول ہے اور سننے والوں کے دلوں کو روحانی سرور بخشتی ہے۔
Title Image by egypt_man147 from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |