( کیا اسلام صرف کلمہ طیبہ پڑھنے کا نام ہے ۔ کلمہ پڑھا اور دنیاء و آخرت سنور گئی یا اس سے آگے بھی کچھ کرنا پڑتا ہے ۔ غیرمسلم دنیاء خوشحال اور ہم بدحال کیوں ہیں ۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں اصل صورت حال کیا ہے )
تجزیہ و تحریر :
سیّدزادہ سخاوت بخاری
میں عالم ہوں نہ مولوی بلکہ ایک عام مسلمان ۔ اپنے مطالعے ، مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر جو مضمون ذہن میں وارد ہوتا ہے اسے لفظوں کا جامہ پہناکر آپ کی خدمت میں پیش کردیتا ہوں ۔ جہاں کمی بیشی نظر آئے مطلع کریں تاکہ اپنی اصلاح کرسکوں ۔ جزاک اللہ ۔
یہ مسئلہ ایک مدت سے میرے ذہن میں گردش کرتا چلا آرہا تھا کہ یورپ ، امریکہ ، برطانیہ اور کئی دیگر غیر مسلم اقوام ، کیوں اور کس طرح اتنی پرامن ،معیاری اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں جبکہ ہم ایشیائی اقوام ، بالخصوص مسلمان ، پسماندگی ، افلاس اور طرح طرح کے مسائل کا شکار ہیں ۔ دیگر ایشیائی قوموں سے مجھے غرض نہیں کہ وہ کیوں پسماندہ اور پچھڑے ہوئے ہیں ۔ ان کے اپنے اپنے عقائد اور زندگی گزارنے کے طریق ہوسکتے ہیں لیکن ہم مسلمانوں کا دعوی ہے کہ ہمارے پاس تاریخ انسانی کا بہترین منشور اور دستور حیات موجود ہے ۔
ہم اس نبی ﷺ، پیشواء اور ہادی کے پیروکار ہیں کہ جس نے چند برسوں میں انقلاب برپاء کردیا ۔ یہ اسی رہبر اعظم کی تعلیمات پہ عمل کرنے کا نتیجہ تھا کہ عرب کے صحراء نشین بدو ، اپنے وقت کی دو سپر پاورز ( Super Powers ) , قیصر و کسری یعنی سلطنت روما اور ایران سے ٹکرا گئے ۔ یہی نہیں بلکہ عربستان اور افریقہ پر اسلامی پرچم لہرانے کے بعد یورپ تک جا پہنچے ۔ تاریخ اندلس کا مطالعہ کریں ، کس طرح مسلمان ہسپانیہ میں داخل ہوئے اور پھر 800 برس تک اسپین اور اس کے ملحقات ( Surrounding States ) پر حکومت کی ۔ یہ سب کیا تھا ۔ کبھی سوچا ۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے لیکر آج میں آپ کی خدمت میں یہ چند سطور پیش کررہا ہوں ۔
جیسا کہ مضمون کے تعارفی کلمات میں عرض کیا ، کیا صرف کلمہ پڑھنے ، یعنی توحید و رسالت کا اقرار کرلینے سے ہی زندگی سنور جاتی ہے اور ہمارے اعمال کیسے بھی ہوں جنت ہمیں بابا آدم علیہ السّلام سے وراثت کے طور پر ملیگی ؟
یہی وہ غلط فہمی اور اسلام کی غلط تشریع ہے جو ” واعظ ” نے ہمارے ذہنوں میں بٹھا دی ۔ ایسا ہرگز نہیں بلکہ اسلام ایک دائرہ یے اور اس دائرے کے اندر داخل ہونے کے لئے کلمہ طیبہ
لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
یعنی توحید و رسالت کا اقرار کرنا پڑتا ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جسطرح آپ کسی بھی غیر ملک میں داخل ہونے کے لئے ویزا حاصل کرتے ہیں یا کسی کنسرٹ ہال میں داخل ہونے کے لئے ٹکٹ خریدتے ہیں لھذا جس طرح ویزا اور ٹکٹ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب اس ملک یا کنسرٹ ھال میں داخل ہوکر آپ جو مرضی کریں ۔ اودھم مچائیں ، لوگوں کی جیبیں تراشیں ، کسی کو قتل کردیں ، کسی کے مال پر ڈاکہ ڈال دیں وغیرہ ۔ نہیں ایسا نہیں بلکہ ویزہ اور ٹکٹ تو صرف داخلے کے لئے تھا ۔ اب آپ کو اس ملک یا ہال کے اندر کے ڈسپلن ( Discipline ) یعنی قائدے اور قانون کے مطابق چلنا ہوگا۔ بعینہ اسی طرح سے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے کلمہ طیبہ ایک اجازت نامہ اور اہلیت ( Qualification ) ہے . لیکن جب آپ اس دائرے میں داخل ہوگئے ، تو اب ، اس کے اندر کے قوانین (Internal Rules & Regulations ) کی پابندی کرنا بھی لازم ہوگی ورنہ آپ مشکل میں پڑ جائینگے ۔ یہی کچھ آج ہمارے ساتھ ہورہا ہے ۔ ہم کلمے کی حد تک تو مسلمان کہلاتے ہیں لیکن احکام شریعت پر عمل نہیں کرتے ۔ اسی منافقت کی وجہ سے ہم پسماندگی اور ذلت کا شکار ہیں ۔
علامہ اقبال کہتے ہیں :
زباں نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
مضمون کو طوالت سے بچانے کے لئے مزید تشریح میں نہیں جانا چاہتا ورنہ بات سمجھانے کے لئے بیسیوں دلائل موجود ہیں ۔ آئیے آگے بڑھتے ہیں ۔
اتفاق سے ابھی کل ہی میں ایک ہندو یوگی کا انگریزی میں دیا جانیوالا ایک بھاشن سن رہا تھا ۔ اس شخص نے عجب بات کہی ۔
کہنے لگا ،
یہ پنڈت ، مولوی اور ملاں ہمیں اگلے جہان کا لالچ دیکر اس دنیاء سے متنفر ( Offensive ) کررہے ہیں ۔
اس کے مطابق ،
” ہم جنت ہی میں رہ رہے ہیں ،
یہ الگ بات کہ اپنے اعمال سے ہم نے اسے جہنم بنادیا ”
آپ اتفاق کریں یا اختلاف ، بات میں وزن ہے ۔ بیشک ہم مسلمان ، یوم حساب اور جنت و دوزخ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ ہم اس جہان کو جہنم بنا دیں کہ جس میں اس وقت مقیم ہیں ؟
اور اگر ہم جہنم بنانے پر قادر ہیں تو ماننا پڑے گا کہ ہم اسے جنت میں بھی تبدیل کرسکتے ہیں ۔
یہی کام اہل مغرب نے کر دکھایا ۔
لیکن کیسے ؟
اسی سوال کی بنیاد پر بحث کو آگے بڑھاتے ہیں ۔
میری گزشتہ گفتگو کو ذہن میں رکھئے جہاں میں نے یہ کہا کہ توحید و رسالت کا اقرار ، دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا اجازت نامہ ہے اور پھر اس دائرے کے اندرونی ( Internal ) قوانین ہیں جن پر عمل کئے بغیر آپ فلاح نہیں پاسکتے ۔ اب ہوا یہ کہ ہم کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل تو ہوگئے لیکن دائرے کے اندرونی احکام اور قوانین پر عمل نہیں کرتے جبکہ اہل مغرب یا جنہیں ہم کفار کہتے ہیں انہوں نے ہماری طرح توحید و رسالت کا اقرار نہیں کیا لیکن ہمارے اعمال کے برعکس دائرہ اسلام کے اندرونی ، تمام یا تمام اعلی و ارفع قوانین اور ضابطوں کو اپنا لیا ۔ مثلا ،
یورپ ، برطانیہ ، امریکہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا ، ڈنمارک ، سویڈن ، ناروے ، نیوزی لینڈ وغیرہ وغیرہ ، تمام ممالک میں
کسی شھری کو تعلیم ، علاج ، روزگار اور رہائیش کی فکر نہیں کرنا پڑتی ۔
اس کام کی ذمہ داری حکومت پر ہے ۔ یہاں یہ بات یاد دلاتا چلوں کہ جب جنرل ضیاء کے دور میں چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزاء پر علماء سے رائے مانگی گئی تو جواب ملا ،
اسلامی ریاست میں حکومت وقت کی ذمہ داری ہے ، کہ پہلے ہر شھری کو اس کی بنیادی ضروریات مہیاء کی جائیں اور اس کے بعد اگر کوئی چوری کرتا ہے تو قطع ید کی سزاء نافذ ہوسکتی ہے ۔
بوڑھوں اور بے گھرافراد کو حکومت شیلٹر یا پناہ گاہ ہی نہیں ، بلکہ زندگی کی تمام ضروریات بشمول کھانا ، ادویات اور کھیل تفریح کے سامان تک مہیاء کرتی ہے ۔ جبکہ یہ بات تو حضور ص نے کہی کہ اگر تمہارا پڑوسی بھوکا سوگیا تو تمہارا کھانا حرام ہوگا ۔ اسی طرح مسلمانوں کے خلیفہ دوم ،حضرت عمر ؓنے کہا ، کہ اگر دریائے نیل کے ساحل پر ایک کتا بھی بھوکا مرگیا تو اللہ قیامت کے دن مجھ سے سوال کرے گا کہ تم حاکم تھے یہ جانور بھوک سے کیوں مرا ۔
ان کے معاشرے میں 60 سال کی عمر کے بعد ہر شخص پینشن کا حقدار ہے جبکہ ہمارے ہاں بوڑھے بھیک مانگتے پھر رہے ہیں لیکن ہم جنت میں جانے کے دعویدار ہیں ۔
کفار کے ہاں انصاف کا نظام سب کے لئے یکساں ہے ۔ وہاں کوئی وڈیرہ ، خان ، ملک ،چودھری ، راجہ یا جاگیردار کسی جج یا پولیس آفیسر کو خرید نہیں سکتا جبکہ ہمارے ھاں عدالتوں کے باھر لٹکے ترازو میں مال و دولت یا اقتدار کا وزن ڈال کر انصاف خریدا جا سکتا ہے ۔
کیا اسلام نے یہی عدالتی نظام دیا تھا جو ہمارے ھاں نافذ ہے یا جس پر کفار عمل کررہے ہیں ؟
ان معاشروں میں جھوٹ بول کر زندگی نہیں گزاری جاسکتی ، ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا جبکہ یہ بات تو قرآن نے ہمیں بتاتے ہوئے واضع الفاظ میں کہا ،
لعنة اللہ علی الکذبین ۔
لیکن اس پر عمل کفار نے کیا ۔
ناپ تول میں ڈنڈی مارنے سے خود قرآن نے منع کیا ہے لیکن سب سے بڑی چور بازاری ہمارے ہاں ہے ۔ وزن پورا ملتا ہے نہ اشیاء خالص ، لیکن ہیں ہم پکے مومن اور مسلمان ۔
کیا یہ بات درست نہیں کہ رمضان کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہم مومنین کے ہاں اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں دوگنی اور تگنی کردی جاتی ہیں جبکہ کفار کے ھاں کرسمس اور دیگر مذہبی تہواروں پر نرخ کم کردئے جاتے ہیں ؟
واعظین ہمیں مغربی اقوام کی آذاد خیالی ، برہنگی ، شراب نوشی اور
بےحیائی تو دکھاتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ وہ اسلامی شریعت کے کن کن قوانین پر عمل کرتے ہیں ۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا ، توحید و رسالت کا اقرار ، دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی طرف پہلا قدم ہے جس کا شرف ہم حاصل کرچکے لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ اس کے جملہ احکام اور قوانین انسانی معاشرے کی اصلاح ، فلاح اور ترقی کے لئے ناذل ہوئے اور ان سب پر عمل کرنا فرض ہے ۔
جہاں اس کے اندر ،
نظام اعتقادات ہے
نظام عبادات ہے
نظام معاشرت ہے
نظام معیشت ہے
نظام تجارت ہے
نظام دفاع و قانون حرب و ضرب ہے۔ وہیں حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق پر خصوصی توجہ دی گئی ہے ۔ میرے خیال سے یہی اسلام کا نچوڑ ہے ۔ یہی اس کی روح ہے ۔ ایک بہترین ، پرامن اور ترقی یافتہ معاشرہ صرف اسی صورت وجود میں آسکتا ہے جب معاشرے کے ہر فرد کو اس کا بنیادی حق میسر ہو ۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان کافرانہ معاشروں میں معاشرتی فلاح و بہبود ( Social Welfare ) اور بنیادی حقوق کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ؟
امید ہے میری اس دلیل کو ان کے ، ہمارے تئیں روئیے سے ملا کر نہیں دیکھا جائیگا کہ وہ ہمارے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہیں ۔ بات ان کے معاشرے اور وھاں کے شھریوں کے حوالے سے ہورہی ہے اسے اسی تناظر میں رکھ کر پرکھا جائے ۔
اسی طرح اگر مجموعی معاشرتی اعمال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بھی درست نہیں کہ فقط مغربی اقوام ہی بےحیاء اور گمراہ ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جو کام وہاں سر عام ہوتے ہیں ، ہمارے ہاں بند کمروں میں کئے جاتے ہیں ۔
کرسچین لوگ بھی مذہبی ہیں ۔ پاپائے روم کی زیارت کے لئے ویٹیکن سٹی روم جاتے ہیں ۔ حضرت عیسی علیہ السّلام کی جائے پیدائیش کے طواف کے لئے فلسطین اور اسرائیل کا سفر کرتے ہیں ۔ ان کا یہ عمل ایسا ہی ہے کہ جس طرح ہم حج و زیارات کا سفر کرتے ہیں ، لیکن انہیں اپنے نام کے ساتھ حاجی یا الحاج لکھنے کی سہولت حاصل نہیں تاکہ وہ مذہب کی آڑ میں اپنے ہی لوگوں کو دھوکہ دے سکیں جبکہ ہمارے ہاں کا ہر اسمگلر ، بلیکیا ، منافع خور اور دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والا، اپنی دکان پر حاجی عبدالستار اینڈ کمپنی کا بورڈ لگاکر ملاوٹ اور ناجائز ذخیرہ شدہ مال بہ آسانی مہنگے داموں بیچ سکتا ہے ۔
قصہ مختصر ، وہ ہماری طرح کلمہ پڑھ کر مسلمان اور مومن تو نہیں کہلائے ،
لیکن انہوں نے کبھی یہ بھی نہیں کہا ،
” امریکہ اور یورپ کا مطلب کیا ”
وہ یہ دعوی بھی نہیں کرتے کہ
” امریکہ اور یورپ کرسمس کے دن وجود میں آئے تھے "
اس لئے ترقی کرگئے ۔
انہوں نے کبھی اپنے ممالک کو
” عیسائیت کا قلعہ بھی نہیں کہا ”
بلکہ ان کے ہاں تو چرچ اور اسٹیٹ کو ایک دوسرے سے الگ کردیا گیا ۔ وہاں کا پادری کسی چوک یا چوراہے پر دھرنا نہیں دیتا ۔ سڑکیں بند نہیں کرتا ۔ لوگوں کو تشدد پر نہیں اکساتا ۔ اگرچہ ان کے ہاں متعدد مذہبی فرقے ہیں لیکن کیا کبھی آپ نے ان کے کسی فرقے کو یہ کہتے سنا
” کافر کافر کیتھولک کافر ”
کافر کافر پروٹیسٹینٹ کافر ”
قارئین کرام :
میں کسی بھی غیر مسلم کا وکیل نہیں لیکن حقائق یہی ہیں کہ دین اسلام نے انسانی فلاح و بہبود اور معاشرتی ترقی کے جو جو طور طریقے اور اصول ہمیں بتلا ئے ، سمجھائے اور سکھائے ، وہ سب کے سب غیر مسلم اقوام اٹھاکر لے گئیں اور ان پر عمل کرکے اسی جہان میں ، اپنے معاشروں کو جنت میں تبدیل کرلیا
جبکہ
ہم ابھی تک ،
داڑھی کے سائز ( Size )
شلوار کی لمبائی
اور
مونچھوں کی چوڑائی پر
بحث کے ساتھ ساتھ
قبروں پر چادریں چڑھانے ،
دیگیں پکانے ،
ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے اور
کھیرا کاٹنے کا اسلامی طریقہ سیکھنے
میں مشغول ہیں
لھذا میرا ماننا ہے , کہ
مسلمان یہاں اور اسلام وہاں ہے ۔ اگر آپ کو میری بات سے اتفاق نہیں تو بتائیے
امریکہ ، برطانیہ ، آسٹریلیا ، کینیڈا اور یورپی ممالک کے سفارت خانوں میں ویزے کے حصول کے لئے پاکستانی اور دیگر مسلمانوں کی لمبی لمبی قطاریں کیوں نظر آتی ہیں ۔
ہم وھاں جاکر کیوں مستقل طور پر آباد ہو جاتے ہیں ۔
مکہ اور مدینہ تو سعودی عرب میں ہیں لیکن ہم ان کفار کے ہاں جانا اور وہاں کی قومیت ( Nationality ) کے حصول کے لئے کیوں بے چین رہتے ہیں ۔
اس لئے کہ انہوں نے فلاحی ریاستوں کی تعمیر میں اسلامی اصولوں کو اپنا کر اپنے معاشرے جنت نظیر بنا ڈالے اور اب ، ہم مومنین ، جوق در جوق ان کی اس جنت کی طرف دوڑے چلے جارہے ہیں ۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا ،
” شریعت کے جو ہم نے پیمان توڑے
وہ لےجا کے سب اہل مغرب نے جوڑے ”
سیّدزادہ سخاوت بخاری
مسقط، سلطنت عمان
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔