مشاعرہ چائے شائے، بیاد یوم پاکستان
دل کی اس کسک کو ڈاکٹر نورالصباح کے اس مشاعرے نے دور کر دیا کہ اس دفعہ پاکستان اور اردو سے محبت کرنے والے سمندر پار پاکستانیوں نے یوم آزادی اتنا جوش و جزبے سے نہیں منایا جس طرح ہر سال وہ پہلے مناتے تھے۔ یہ مشاعرہ 20اگست کو "شہر سخن” کے عنوان سے برانچز آف چائے شائے ریسٹورنٹ عجمان میں منعقد کیا گیا۔ 14اگست کے روز پاکستان اور عالمی میڈیا پر یہ افواہ (Disinformation) پھیلائی کی گئی تھی کہ اس سال 14اگست کو حسب معمول برج خلیفہ پر پاکستانی جھنڈا نہیں لہرایا گیا تھا۔ حالانکہ اس روز برج خلیفہ پر پاکستانی جھنڈا بھی لہرایا گیا تھا اور رنگوں اور دھنوں کی برسات میں پاکستانی ترانہ بھی بجایا گیا تھا۔ جبکہ دبئی مال اور برج خلیفہ کے سامنے واٹر ڈانس کے دوران برج خلیفہ کی پوری عمارت پر مختلف رنگوں کی "ڈیجیٹل فلڈ لائٹس” کے زریعے پاکستانی پرچم رات 12بجے تک بار بار لہرایا جاتا رہا تھا۔ پروگرام کے مطابق یہ مشاعرہ شام ساڑھے چار بجے شروع ہونا تھا، ہم عجمان روانگی کے لئے دبئی سے ہی پانچ بجے نکلے۔ اردو کے قدردان ہمارے دوست سرمد خان اور سینئیر صحافی و ٹی وی پروڈیوسر معین صمدانی کا خیال تھا کہ ہم مشاعرے میں وقت پر نہیں پہنچ سکتے لھذا ہمیں واپس لوٹ جانا چایئے۔ راقم الحروف نے ڈاکٹر نورالصباح کو مشاعرہ دیر سے شروع کروانے کی گزارش کی تو انہوں نے بتایا کہ پروگرام پہلے ہی تاخیر سے شروع ہو رہا ہے آپ پہنچنے کی کوشش کریں۔ ہم جونہی مشاعرہ حال میں پہنچے تو پاکستانی حاضرین کی "وطنیت” اور "جوش و خروش” کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی، سٹیج کے پیچھے بیک گراونڈ کی پوری دیوار پر پاکستانی پرچم کی لہراتی جھنڈیوں اور قائداعظم والی تصاویر پر نظر پڑی تو احساس ہوا کہ اس سال یوم پاکستان 14اگست کو ہی نہیں پورے اگست کے مہینے میں منایا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر نورالصباح سے پہلی ملاقات پاکستان ایجوکیشن اکیڈمی کے پروگرام میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ "پیرا سپورٹس” کے ایک پروگرام میں سٹیج پر تقریر کرنے آئی تھیں۔ اس پروگرام میں خورد و نوش اور ریفریشمنٹ کی میزبانی ڈاکٹر صاحبہ نے کی تھی، بعد میں شیخ زید روڈ پر ہونے والے علی ظفر کے پروگرام میں بھی ڈاکٹر صاحبہ ہی میزبان تھیں۔ اس مشاعرے میں پتہ چلا کے 30اگست تک یوم آزادی کے کچھ اور پروگرامز بھی ہیں جس کی میزبانی ایک بار پھر "چائے شائے” کے پلیٹ فارم سے ڈاکٹر نورالصباح صاحبہ ہی کریں گی۔
پروگرام کے آغاز میں شعراء کا تعارف مشاعرے کی میزبان اور منفرد انداز کی شاعرہ مسکان سید ریاض نے کروایا، مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے ڈاکٹر نورالصباح اور میاں منیر احمد ہنس نے مہمان شعراء کو شیلڈز اور تعریفی اسناد پیش کیں۔ اسی دوران آفتاب اقبال اور ان کی مسزز بھی مشاعرے میں شرکت کے لئے پہنچ گئے۔ جن شعراء نے مشاعرہ پڑھا ان میں مشاعرے کے صدر ظہیر مشتاق، مہمان خصوصی علی زیرک، نیلوفر افضل، حسین شاہ زاد، شاداب الفت، کاشف سید، میگی اسنانی، عدنان منور اور معید مرزا سرفہرست ہیں۔ جن شعراء کو حاضرین نے جی بھر کر داد و تحسین دی ان کے نمونہ کلام میں چند درج ذیل اشعار شامل ہیں:
ہم نے ہر خوف کی اک شکل بنا رکھی ہے،
ہم خداوں کو نہیں ڈر پوجتے ہیں (ظہیر مشتاق)۔
اس کی منزل مرے سبب سے ہے،
ایک رستہ ہوں کٹ رہا ہوں میں (عدنان منور)۔
میں دھڑکتی ہوں جس کے سینے میں،
میرا اس سے رابطہ ہی نہیں (انڈیا گجرات کی شاعرہ اسنانی صاحبہ)
رائیگانی کا یہ عالم ہے کہ میرے حصے میں خسارے بھی نہیں آئیں گے،
ایسے چھوڑیں گے تیرا شہر، کہ ہم گردش ایام کے مارے بھی نہیں آئیں گے (معید مرزا)۔
مشاعرہ ابھی جاری تھا اور آفتاب اقبال اپنا کلام سنانے کے لئے کھڑے ہوئے تو سرمد خان اور میں نے ڈاکٹر نورالصباح سے صائمہ نقوی کی غیر حاضری کی شکایت لگا دی جو ہر اردو ادب کے پروگرام کو آرگنائز کرنے میں ہمیشہ پیش پیش ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ وہ پروگرام میں موجود ہیں۔ ہم دونوں نقوی صاحبہ کو ڈھونڈتے ہوئے ان کے ٹیبل تک پہنچ گئے۔ ابھی مشاعرہ جاری تھا، بلکہ جوبن پر تھا کہ ہم کسی ضروری کام سے مشاعرہ حال سے باہر آ گئے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔