مقبول ذکی مقبول کی تحریری بصیرت اور منتہائے فکر
تبصرہ نگار : محمد سلیم سعد ( خوشاب )
کربلا سے علم و ادب کے چشمے پھوٹ رہے ہیں جو انسانی زندگی کی کھیتی کو ہرا بھرا کر رہے ہیں ۔ ایک شعر ملاحظہ فرمائیں ۔
پھُول پر شبنم رہے خوشبو بھی اُس کا ساتھ دے
ایک خطبہ سے ملا ہم کو پیامِ کربلا
ادب صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک تہذیبی ، فکری اور جذباتی آئینہ ہوتا ہے ، جو معاشرے کی رُوح کو منعکس کرتا ہے ۔ اُردو ادب کی دنیا میں مقبول ذکی مقبول کا نام ایک ایسے مصنّف کے طور پر اُبھرا ہے جو محض لفظوں کا تانا بانا نہیں بنتے بلکہ قاری کے شعور و لاشعور پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ان کی تحریروں میں ایک ایسا رنگ ، ایک ایسی خوشبو اور ایک ایسا گہراؤ موجود ہے جو پڑھنے والے کو ایک نئی فکری سمت عطا کرتا ہے ۔
زیرِ نظر کتاب ان کے تخلیقی اظہار کا ایک بھرپور نمونہ ہے جو مختلف موضوعات ، ادبی تکنیکوں ، فکری زاویوں اور جذباتی رنگوں سے مزین ہے ۔ اس تبصرے میں ہم نہ صرف ان کے اندازِ تحریر کا جائزہ لیں گے بلکہ اس کتاب کی فکری گہرائی ، ادبی حُسن اور قاری پر پڑنے والے اثرات کو بھی زیرِ بحث لائیں گے ۔
مقبول ذکی مقبول کا اندازِ تحریر سادہ ہونے کے باوجود نہایت پُراثر ہے ۔ وہ پیچیدہ باتوں کو عام فہم انداز میں بیان کرتے ہیں ، لیکن ان کی سادگی کے پیچھے فکری پیچیدگی اور گہرائی چھپی ہوتی ہے ۔ ہر جملے میں ایک وزن ، ایک جذبہ اور ایک پیغام پنہاں ہوتا ہے ۔
ان کی تحریریں محض بیانات یا خیالات کا اظہار نہیں بلکہ ایک مکمل فکری کائنات کی تشکیل کرتی ہیں ۔ وہ ہر موضوع کو اس کے تاریخی ، سماجی ، نفسیاتی اور فلسفیانہ تناظر میں دیکھتے ہیں ۔ یہی بات ان کی تحریر کو معمولی سے عظیم بناتی ہے ۔
مقبول ذکی مقبول کی تحریر میں علامتی اندازِ بیان نمایاں نظر آتا ہے ۔ وہ عام واقعات کو بھی ایسے انداز میں بیان کرتے ہیں کہ وہ قاری کے ذہن میں ایک تمثیل یا علامت کے طور پر گہرائی اختیار کر لیتے ہیں ۔ یہ انداز اُردو ادب کے بڑے ادیبوں کا خاصا رہا ہے ۔
ان کی تحریروں میں اکثر مکالماتی یا خودکلامی انداز پایا جاتا ہے ۔ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مصنّف براہِ راست اس سے مخاطب ہے ۔ یہ تکنیک قاری کو جذباتی طور پر مربوط رکھنے میں مدد دیتی ہے اور تحریر میں شفافیت پیدا کرتی ہے ۔
مقبول ذکی مقبول کی یہ کتاب مختلف النوع موضوعات کا احاطہ کرتی ہے ۔ ان میں :
- انسان کی داخلی کشمکش
- وقت کی بے رحمی
- رُوحانی احساسات
- سماجی ناہمواری
- معاشرتی منافقت
- عورت کے جذبات اور قربانیاں
- خواب ، ناکامیاں اور اُمید کی کِرن
جیسے گہرے اور سنجیدہ موضوعات شامل ہیں ۔ ہر موضوع کو انہوں نے نہایت دانشمندی اور فنکاری سے پیش کیا ہے ۔
مصنّف کی زبان اُردو ادب کی کلاسیکی خوبصورتی اور جدید فکری انداز کا حسین امتزاج ہے ۔ ان کے جملے نہایت خوبصورت ، متوازن اور نثری شعریت کے حامل ہوتے ہیں ۔ وہ لفظوں کے انتخاب میں نفاست اور نزاکت کا خاص خیال رکھتے ہیں ۔ مثال کے طور پر:
٫٫ لفظ اگرچہ بول نہیں سکتے ، لیکن خاموشی میں جو چیخ چھپی ہوتی ہے ، وہ دل کے دروازے پر دستک دیتی ہے ،،
ایسے جملے نہ صرف فنی حُسن کے مظہر ہیں بلکہ قاری کے ذہن پر نقش چھوڑ جاتے ہیں ۔
کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مقبول ذکی مقبول کا مطالعہ خاصا وسیع ہے ۔ ان کے خیالات میں ادبیات ، فلسفہ ، نفسیات ، مذہب اور سماجیات کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے ۔ وہ محض جذباتی اظہار نہیں کرتے بلکہ علمی و فکری انداز میں ہر موضوع پر روشنی ڈالتے ہیں ۔
کتاب کا سب سے بڑا حُسن یہ ہے کہ یہ قاری کو محض پڑھنے پر مجبور نہیں کرتی ، بلکہ اس کی سوچ اور زاویہ نظر میں تبدیلی پیدا کرتی ہے ۔ قاری ہر تحریر کے بعد خود سے سوال کرتا ہے ، اپنے تجربات کو پرکھتا ہے اور زندگی کو نئے زاویے سے دیکھنے لگتا ہے ۔ یہ اثر صرف بڑے لکھاری ہی پیدا کر سکتے ہیں ۔
مقبول ذکی مقبول کی یہ کتاب اُردو ادب کے سنجیدہ قاری کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے ۔ ان کی تحریر کا انداز منفرد ، اثرانگیز اور فکری طور پر پختہ ہے ۔ وہ جذبات ، فلسفہ ، نفسیات اور سماجی مشاہدات کو ایسے پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ ہر جملہ قاری کے دل و دماغ پر نقش چھوڑ جاتا ہے ۔
ان کی تحریریں نہ صرف ادب کا حُسن بڑھاتی ہیں بلکہ قاری کے شعور کو جلا بخشتی ہیں ۔ یہ کتاب ایک ایسا سفر ہے جس میں قاری خود کو ، اپنی سوچ کو ، اپنے جذبات کو اور اپنے معاشرے کو نئے زاویے سے دیکھنے لگتا ہے ۔
مقبول ذکی مقبول بلاشبہ اُردو ادب کے اُن خاموش مگر گہرے لکھنے والوں میں شامل ہیں جن کی تحریریں وقت گزرنے کے ساتھ مزید نکھرتی اور قیمتی ہوتی چلی جائیں گی ۔
یہاں دو اشعار مقبول ذکی مقبول کی شاعری سے منتخب کیے گئے ہیں ، جن سے ان کے اسلوبِ شاعری کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا ہے ۔
کہہ رہا ہے قوم سے یہ آپ کا خطبہ حسین (ع)
فاسق و فاجر کے آگے کون جھُکتا ہے بھلا
***
زیستِ انساں میں مہکتے ہی رہے ہیں ہر گھڑی
یثرب و کعبہ ، نجف اور احترامِ کربلا
***
اسلوبِ شاعری :
مقبول ذکی مقبول کا اسلوب نہایت سادہ ، مگر پُراثر ہے ۔ ان کی شاعری میں فکری گہرائی اور جذباتی لطافت ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی میں نظر آتی ہے ۔ ان کے اشعار عام فہم ہوتے ہیں لیکن ان کے مفاہیم نہایت عمیق ہوتے ہیں ۔ ان کے کلام میں زبان کی سادگی نمایاں ہے ، جو عام قاری کو بھی آسانی سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے ۔
- اخلاقی و روحانی پہلو : ان کے اشعار میں انسان دوستی ، ایثار ، قربانی اور سچائی جیسے اخلاقی موضوعات کا عکس ملتا ہے ۔
- علامتی انداز:وہ اشعار میں علامتوں کا استعمال اس طرح کرتے ہیں کہ معنی کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے ۔
- *جذبے کی شدت : جذبات کا اظہار بغیر کسی مبالغہ آرائی کے ، نہایت پرخلوص انداز میں کیا جاتا ہے ، جس سے قاری کو خود اپنی کیفیتیں یاد آنے لگتی ہیں ۔
اگر آپ چاہیں تو میں مزید اشعار یا کسی مخصوص موضوع پر ان کی شاعری کا تجزیہ بھی کر سکتا ہوں۔ فی الوقت اتنا کافی ہے ۔
محمد سلیم سعد
خوشاب
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |