منتہائے فکر اور رثائی ادب
تحریر : سید طاہر شیرازی ، جھنگ
دُنیا کے ہر خطے میں اپنے اپنے انداز اور اسلوب سے شعر و ادب اور فنونِ لطیفہ پر مختلف پیرائے میں تخلیق اور تحقیق کا عمل جاری اور ساری رہا ہے اور کائنات کے وجود تک یہ مکمل آب و تاب کے ساتھ چلتا رہے گا ۔ جہاں تک دُنیائے ادب کا تعلق ہے ادب کی کوئی زبان نہیں ہوتی یہ اندر کے جذبات واحساسات کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ دُنیا کے ہر خطہ میں ادب ہی کی زبان کو سمجھا اور محسوس کیا گیا ہے ۔ چاہے وہ لوک ادب ہو افسانوی ، رومانوی ، داستانی یا کہ شعری ادب ہو چاہے کسی بھی پیرائے یا صنف میں موجود ہو ۔ اُس کی چاشنی اور مٹھاس ایک خاص لذت رکھتی ہے ۔ دُنیا کی ہر زبان میں ادب تخلیق ہوا اور وہ زبان بولنے والے لوگ اپنے اس ادبی ورثے کے امین ہیں ۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ ادب کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اس کی وسعت صرف اور صرف محبت ہی سے ماپی جاسکتی ہے اس کا نہ کوئی اور پیمانہ ہے اور نہ ہی پیرا میٹر جس سے ادب کی پیمائش کی جاسکے ۔ تھل صحرا کے جنوب اور دریائے سندھ کے مشرقی کنارے آباد بھکر کا شہر بہت قدیم ہے ۔ اس کی اپنی زبان تہذیب ثقافت اور کلچر ہے جہاں پر زیادہ تر بولنے والوں کی زبان سرائیکی ہے ۔ ضلع کا زیادہ تر علاقہ ریت کے ٹیلوں صحرائے تھل پر مشتمل ہے اور دیکھا جائے تو تھل کے لوگوں کا ایک اپنا رہن سہن تہذیب کلچر بود و باش اور لباس ہے جو کہ ایک خاص خوبصورتی کا حامل ہے ۔ ضلع بھکر شروع سے علم و ادب کا محور و مرکز رہا ہے اور یہاں ہر دور میں اُردو ، سرائیکی اور پنجابی ادب کے لکھنے والے شاعر ادیب اور محقق موجود رہے ہیں ۔ اِس دھرتی پر ہر دور میں ہر صنفِ سخن میں ادب تخلیق ہوتا رہا چاہے وہ حمد ، نعت ، سلام ، منقبت ، غزل اور نظم کی صورت میں لکھا جانے والا ہو یہ ادب شعر و ادب کی تاریخ کا حصّہ رہا ہے ۔ اس علاقے کو کچھی کا علاقہ بھی کہا جاتا ہے اور اس علاقے نے بہت سے نام ور اور قد آور ادب تخلیق کرنے والی شخصیات کو جنم دیا ۔ جن میں غلام سکندر خان غلام ، غلام حسن تائب ، فیروز ترک ، نذر حسین ترک ، خلشِ پیر اصحابی مضطر حیدری ، سید آلِ محمد سوز ، شکیب جلالی ، کلیم بخاری ، بشیر احمد بشر ، نذیر احمد نذیر ڈھالہ خیلوی ، ڈاکٹر اللّٰہ نواز شہانوی ، اقبال حسین ، ڈاکٹر اشرف کمال ، علی شاہ ، نجف علی شاہ بخاری ، الطاف اشعر بخاری ، انیل چوہان ، محمد اقبال بالم اور مقبول ذکی مقبول اس کاروان کا حصّہ نظر آۓ ۔ رثائی ادب صدیوں سے تخلیق ہوتا چلا آرہا ہے ۔ نواسہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم حضرت امام حسین علیہ السّلام کے ساتھ ہونے والے سانحہ کربلا کی نسبت سے ان علاقوں میں کربلائی ادب کے اثرات ہر دور میں نمایاں رہے ہیں اور بہت سی قد آور شخصیات اُردو اور سرائیکی زبان میں رثائی ادب تخلیق کرتی رہی ہیں ۔ اسی مناسبت سے بھکر کی تحصیل منکیرہ جو کہ صحرائے تھل میں واقع ہے اس دھرتی کے باسی اور شاعر و ادیب محقق مقبول ذکی مقبول کا تذکرہ نہ کرنا ادب کے ساتھ نا انصافی ہے ۔ کربلائی ادب کے حوالے سے ان کے دو شعری مجموعے ٫٫ سجدہ ،، اور ٫٫ منتہائے فکر ،، منظرِ عام پر آ چکے ہیں جو کہ ادبی حلقوں سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں ۔
کربلائی ادب لکھنے کیلئے ہر انسان اس کے اثر پزیری اور ابلاغ کا کس طرح تقاضا کرتا ہے کہ نواسہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے اس کی کتنی عقیدت اور معرفت ہے پھر بصیرت کے حوالے ہی سے یہ کرم اللّٰہ پاک کا اُس کی اپنی خاص عنایت کا ادراک عطا کرتا ہے ۔ مقبول ذکی مقبول اللّٰہ تعالیٰ کی ایک خاص عطا کا کرم ہے ۔ اگر اُن کے مجموعہ ء کلام ٫٫ منتہائے فکر ،، کو حقیقی حوالے سے دیکھا اور سمجھا جائے تو انسان تصوراتی طور پر معراجِ عشق پر پہنچ جاتا ہے ۔ ٫٫ منتہائے فکر ،، کو لغوی معنی کے پیرائے میں دیکھیں تو سوچ کی آخری بلندی بنتی ہے اور وہاں سے کہیں کریمِ کربلا کا اور خانوادہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا مقام شروع ہوتا ہے تو پھر عام آدمی اُن کی فضیلیت و عظمت کو اس محدود سے دائرہ دماغ میں کیسے سمو سکتا ہے ۔؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کی کریمی ہے جس نے کچھ نہ کچھ حصّہ عطا کیا ہے ۔ یہ انسان کو اُس کی اپنی حیثیت کے مطابق عطا کرتا ہے ۔ جب خالق کائنات کی توحید اور رسالت مآب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی نبوت کو خطرہ لاحق ہوا تو رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کریم کے خانوادہ ہی سے سرکار امام حسین علیہ السّلام نے ہی دین کی بقا و سرفرازی کیلئے قیام کیا اور علم حق بلند کر کے کربلا میں دینِ مصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم اور توحید کبریا کیلئے اپنے بہتر (ع) رفقا کے ساتھ کار زارِ کربلا میں سیسہ پلائی دیوار بَن کر کھڑے ہوئے اور اِس وقعہ کو مقبول ذکی مقبول نے یوں بیان فرمایا ہے ۔
آپ (ع)کی جو تھی امامت دین پر آئے نہ آنچ
کربلا میں کی قیادت دین پر آئے نہ آنچ
آپ (ع)کے اصحاب (ع) پر راضی ہوا ہے پاک ربّ
یاد ہے سب کو شجاعت دین پر آئے نہ آنچ
ناز کرتے ہم رہیں گے تھے بہتر (ع) باوفا
پی گئے جامِ شہادت دین پر آئے نہ آنچ
ارجمندِ مصطفٰی (صہ) تھے کربلا میں سوگوار
آپ (ع) کی تو ہے بسالت دین پر آئے نہ آنچ
یہی تو تھا فلسفہ دینِ حق جس کیلئے حضرت زہرا سلام اللّٰہ علیہا کے لال علیہ السّلام نے اپنا سب کچھ قربان کیا
اِک دیا روشن کیا عاشور کی شب کربلا
پورے عالم میں ہے اُس کا ہر طرف قصہ الگ
کربلا کی داستان اپنی جگہ پر ایک الگ داستانِ غم ہے اگر میدان میں حضرت عباس علیہ السّلام کے بازو کٹتے ہیں تو حجاب کی صدا بلند ہوتی ہے اگر حرمل کا تیر حضرت علی اصغر علیہ السّلام کا گلہ چیرتا ہے تو اُس کی ماں رباب سلام اللّٰہ علیہا ٹوٹ جاتی ہے اس دل سوز لمحے کو مقبول ذکی مقبول نے یوں قلم بند کیا ہے ۔ پہلا شعر حضرت عباس علیہ السّلام کے حوالے سے اور دوسرا حضرت علی اصغر علیہ السّلام کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں ۔
بازو کٹے جو نہر پر حیدر (ع)کے لال کے (ع)
خیموں سے اِک صدا اُٹھی ہائے مرا حجاب
حرمل کے تیر نے ہی تو امبر ہلا دیا
تڑپی صغیر ( ع ) سے بھی جو بڑھ کر وہاں رُباب (ع)
جب طاغوتی طاقتوں اور ظلم و بریریت سے نظامِ حق اور حق خود ارادیت کیلئے چھ ماہ کے بچے کی قربانی بھی دینی پڑے تو ضروری ہے نظامِ حق کی بقا کیلئے یہ بھی لازم ہے اگر ہم آئے دن عالمی تناظر میں دیکھیں تو فلسطین اور آزاد جموں کشمیر میں نظام حق اور حق خود ارادیت کیلئے چھ چھ ماہ بچوں کی قربانیاں پیش کی جارہی ہیں ۔ اِس کا آغاز بھی یومِ عاشورہ کربلا سے ہوا تھا ۔ اِسی تناظر میں اُن کا ایک یہ شعر بطور نمونہ پیش ہے ۔
راہِ حق پر دیا بیٹا وہ تھا معصوم (ع) چھ ماہ کا
کہا تھا فوجِ ظالم سے بچائیں گے نظامِ حق
مقبول ذکی مقبول جتنا خوبصورت شاعر ہے اُتنا خوبصورت انسان بھی ہے اِن کے علاوہ اُن کے مزید شعری مجموعے
٫٫ یہ میرا بھکر ،، ( فردیات) فروری 2024ء میں شائع ہوا
٫٫ اندازِ بیاں دیکھ ،، ( اُردو ، پنجابی اور سرائیکی شاعری) 14 اگست 2024ء میں شائع ہوا
مقبول ذکی مقبول شاعری کے ساتھ ساتھ مختلف تحقیقی مضامین پر مبنی کتابیں لکھ چکے ہیں جو کہ ٫٫ شذراتِ مقبول ،، مضامین و تبصرے کی کتاب جنوری 2024ء میں شائع ہو چکی ہے ۔ تحقیق کے حوالے سے بھی منکیرہ میں اور دور دراز تک کے علاقوں میں ان کے ادبی طور پر روابط موجود ہیں جو کہ مقبول ذکی مقبول کی ادب دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ وہ کئی دفعہ میرے ہاں جھوک شیرازی ، جھنگ میں تشریف لائے اور جھنگ کے مختلف ادبی پروگراموں کا حصہ بنتے رہے ہیں اور میرے ساتھ تو اُن کا ایک خاص عشق کا رشتہ ہے جو ہم کو جوڑے رکھتا ہے تحقیق کے حوالے سے جو اُن کی مختلف ادبی شخصیات سے ملاقاتیں رہی ہیں اُن کو ترتیب دے کر انٹرویوز کی شکل بنا کر اُن کو کتابی صورت میں شائع کر کے عظیم ادبی سرمائے کو محفوظ کیا اور ایک ادبی تاریخ مرتب کی ٫٫ سُنہرے لوگ ،، جون 2023ء اور ٫٫ روشن چہرے ،، جولائی 2023ء
اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ٫٫ اعترافِ فن ،، عاصم بخاری تحقیق و تنقید پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جو یکم جنوری 2024ء میں چھپ چکی ہے اُس کے ساتھ ساتھ ٫٫ عاصم بخاری : شخصیت اور شاعر ،، کے نام سے کتاب فروری 2025ء میں چھپ چکی ہے ۔ یہ بھی مقبول ذکی مقبول کی تحقیق کا سر چشمہ ہے ۔ ٫٫ سید حُب دار قائم : جگمگاتا ستارہ ،، کے عنوان سے ایک کتاب فروری 2025گء میں شائع کر کے مؤلف و محقق کے طور پر بھی سامنے آ چکے ہیں ۔ ادب کے میدان میں جب ہم مقبول ذکی مقبول بطور شاعر و ادیب اور محقق دیکھتے ہیں تو اُن کی شخصیت واضح طور پر سامنے آتی ہے ۔
صحرائے تھل کی پیاس کو مقبول ذکی مقبول علم و ادب سے بجھانے کیلئے سر گرداں ہیں ۔ ذہنی سکون اور ادبی مسرت کیلئے شعر و ادب تخلیق کر کے اپنی دھرتی کے ساتھ محبت کا قرض اُتارنے کی کوشش کر رہیں ہیں ۔ ہر انسان پر اُس کے علاقہ کی مٹی کا حق ہوتا ہے ۔ جس نے اُس کو جنم دیا ہوتا ہے ۔ اُس کا قرض اُتارنا بھی واجب ہے ۔ مقبول ذکی مقبول کی سعی و کوشش اسی قرض کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |