ملتان گیس بائوزر دھماکہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
آئے دن پاکستان میں گیس سلینڈر کے دھماکے ہورہے ہیں لیکن غیر معیاری گیس سلینڈروں کی خرید و فروخت پر حکومتی سطح پر کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ جو کہ ایک تشویش ناک صورت حال کی نشاندہی کرتی ہے۔پاکستان میں صنعتی اور تجارتی ترقی کے ساتھ نقل و حمل کے نظام میں اضافہ ہوا ہے مگر اس ترقی کے ساتھ حفاظتی تدابیر کی عدم موجودگی حادثات کا سبب بن رہی ہے۔ ملتان کے مظفر گڑھ روڈ پر فہد ٹاؤن میں گیس سے بھرے بائوزر کے دھماکے میں 6 افراد جاں بحق اور 39 زخمی ہوگئے جن میں 13 کی حالت تشویشناک ہے۔ یہ افسوسناک واقعہ نہ صرف انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنا بلکہ کئی گھروں کو آگ کی لپیٹ میں لے لیا اور املاک کے ساتھ ساتھ مویشی بھی ہلاک ہوگئے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق بائوزر کا ڈرائیور اسے سڑک کے کنارے کھڑا کر کے رشتہ داروں سے ملنے چلا گیا تھا۔ اسی دوران 16 افراد غیر قانونی طور پر ایل پی جی گیس کی ری فلنگ کر رہے تھے کہ اچانک ٹینکر میں آگ بھڑک اٹھی۔ دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ بائوزر کے ٹکڑے قریبی گھروں میں جا گرے جس سے آگ پھیل گئی۔ واقعے کے بعد ملزمان موقع سے فرار ہوگئے۔
پاکستان میں گیس کے ذخائر کی دریافت کے بعد صنعتی ترقی کا آغاز ہوا مگر حفاظتی تدابیر اور معیاری قوانین کی عدم موجودگی ہمیشہ مسائل کا سبب بنی۔ ہر سال گیس لیکیج، غیر قانونی ری فلنگ اور ناقص نقل و حمل کے باعث سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ 2015 میں کراچی میں پیش آنے والے ایک ٹینکر حادثے نے 60 سے زائد زندگیاں چھین لی تھیں۔ ایسے حادثات بار بار یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ہم اپنی بنیادی حفاظتی ضروریات کو نظر انداز کر رہے ہیں؟
ملتان حادثے کے کئی اسباب ہیں جن میں سے سب سے بڑی وجہ غیر قانونی ری فلنگ بھی ہے۔ ایل پی جی کی غیر قانونی ری فلنگ نہ صرف خطرناک ہے بلکہ حکومتی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی ہے۔ ڈرائیور کا بائوزر چھوڑ کر ذاتی کاموں میں مصروف ہونا غیر ذمہ داری کی انتہا ہے۔ جس پر ایکشن لیا جائے تاکہ آئندہ ایسے حادثات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ بائوزر کے آس پاس حفاظتی آلات کی عدم موجودگی اور قریبی آبادی میں اس کا کھڑا ہونا خطرے کو بڑھاتا ہے۔ اس حادثے کی وجہ سے قیمتی جانوں کا ضیاع اور درجنوں افراد کا زخمی ہونا ناقابل تلافی نقصان ہے۔گھروں اور مویشیوں کی تباہی نے متاثرہ خاندانوں کو مالی بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ متاثرین اور ان کے خاندانوں پر نفسیاتی دباؤ اور خوف کے اثرات طویل عرصے تک رہیں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ کمشنر کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جبکہ پولیس نے 8 نامزد اور 7 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ دو ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی جا چکی ہے۔
اس واقعے سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ہمیں فوری طور پر درج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ گیس کے نقل و حمل اور ری فلنگ کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ ڈرائیورز کو حفاظتی اصولوں کی تربیت دی جائے اور ان کی ذمہ داریوں کو واضح کیا جائے۔ بائوزر اور دیگر گیس ٹینکرز کے ساتھ حفاظتی آلات کی موجودگی کو لازمی قرار دیا جائے۔عوام کو گیس کے استعمال اور نقل و حمل کے دوران احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ ہر زاویے سے تحقیقات کر کے ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ملتان کا حادثہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ انسانی جانیں بے حد قیمتی ہیں اور ان کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس واقعے کی مکمل تحقیقات اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ حکومت، متعلقہ ادارے اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ آئندہ کسی بھی خاندان کو ایسے سانحات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
Title Image by Jean-Paul Jandrain from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |