مدثر بن کے آئے ہیں مزمل بن کے آئے ہیں
وہ کل آیات قرآنی کا حاصل بن کے آئے ہیں
شعاع مہر حسن ماہ کامل بن کے آئے ہیں
وہ سینے سے لگا لینے کے قابل بن کے آئے ہیں
یہ وہ بحرِ سخا فیاض کامل بن کے آئے ہیں
فرشتے ان کے دروازے پہ سائل بن کے آئے ہیں
جو دل وحی خدا سمجھا ہے وہ دل بن کے آئے ہیں
جہاں قرآں اترا ہے وہ منزل بن کے آئے ہیں
شعورِ ناخدائے کشتئ دل بن کے آئے ہیں
وہ ہر اک بحرِ بے پایاں کا ساحل بن کے آئے ہیں
شوقؔ بہرائچی
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔