اسکول سے واپس آتا تو کچا آنگن کسی پھلواری سا کِھلا دُھلا صاف ستھرا ، مٹی کی ہانڈی پوچا لگی ، کچھ جلتی ہلکا دھواں دیتی لکڑیوں کے چولھے پے دھری ، تنور سے نکلتے بازوؤں کو جھلساتے شعلے،گھڑے پانی سے لبالب بھرے سلیقے سے گھڑونجی پے سجے اور پانی وہ جو کوئیں سے ڈول ڈول کر کے نکالا گیا۔ چھوٹا بھائی کھیلتا کھلکھلاتا ایسا نکھرا جیسے ابھی نہایا ہو حالانکہ ڈائپر پیمپر تو شاید ایجاد بھی نہ ہوا تھا۔ ہمیں کھانا کھلا کر دادا دادی کو چائے دینے کے بعد پرات میں کھردرے صابن سے رگڑ رگڑ ایک ایک کپڑا دھونا۔ شام کو ہمیں سیپارے کا سبق خود پڑھانا۔ پھر رات کا کھانا وہی سلگتی لکڑیاں جلتا تنور اور لالٹین اضافی۔ یہ ماؤں کی وہ چند مصروفیات ہیں جو آج کی ممی اور ماما کہلواتی ، ماسیوں ، پیمپروں کی محتاج ، فیس بک، وٹس ایپ کی لگن میں بچوں کو باتھ روم میں بند رکھنے والی مہیلائیں سوچیں بھی تو فنا ہوجائیں۔
میں کہ سات لغات کا عالم حرف گر و لفظ ساز برجستہ گو و جملہ باز آج کے دن کو سپاس گذاری سے عاجز ہوں۔ آج میری ساتوں زبانوں کے تمام لفظ گونگے ہو گئے ہیں۔ میری ماں نے مجھے الف سے اقراء اور اکتب کہا مجھے نطق و قلم کا اہل بنایا۔ میں اپنے قلم سے قرطاس پر تو لکھ سکتا ہوں آسمان پر نہیں۔ میری ماں آسمان ہے۔
ماؤں کے عالمی دن پر میری دعا ہے الله ﷻ ہماری عظیم ماں کو صدقہ محمدؐ و آل محمد علیہ السلام صحت و تندرستی عطا کرے اور تا دیر ان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔
الہی آمین
آغا جہانگیر بخاری
سی۔ای۔ او
بانی مدیر
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔