بچوں کی اخلاقی تعلیم و تربیت اور والدین کا کردار
میری دادی جان کہا کر تی تھیں کہ ” پُتر جیدے کول جو ہووئے اوہ اگے اوہی کُج ونڈدا اے ! جے کسے دی جُھولی وچ پُھل ہون گے تے اوہ فیر اوہی ونڈے گا ناں ! ایدے نال،نال اُہدے کولوں خُوشبو وی آوے گی ۔ دُجی گل ایہہ وے کہ جے کسے کول ” وٹے” ہون گے تے اوہ غریب فیر اگلے بندے نوں”وٹے” ای مارے گا ناں ! کیوں کہ اُہدے کول ہے ای اہہیوں کُج تے اوہ وچارہ فیر کی کرے۔۔۔۔۔۔۔؟
اُن کی بات مکمل ہوتے ہی میں نے ڈرتے، ڈرے ایک سوال داغ دیا کہ دادی جان آپ بتائیں کہ کیا ہر وقت بندے جھولی میں پتھر اور پُھول اُٹھائے پھر سکتے ہیں ؟ آگے سے دادی جان اپنے مخصوص پنجابی لب و لہجے میں مُسکراتے ہوئے فرمایا کہ ” جٙھلیے اے” پُھل” تے "وٹے” اوہ نےجہڑے ہر بندے دے اخلاق دا حِصّہ ہوندے نے پُتر ! جے کِسے بندے دا اخلاق پُھلاں وانگوں ہووئے گا تے اوہ فیر ہر کِسے نُوں جُھک کے ادب نال ملے گا تے نالے اوہ ہر بندے دے نال عزت نال گل بات کرے گا۔ ایس پاروں فیر اُیدے اخلاق دی خوشبو ہر پاسے مہکے گی ،تے بُرے بندے دا اخلاق تے پُتر! ” وٹے” تے "روڑیاں” وانگوں ای ہوندا اے، جیدے وچوں ہر ویلے بو ای آندی رہندی اے ۔اوہ جیدو وی کوئی گل کرے گا تے” گال” ای کڈے گا اِیہو جیا بندہ جے آرام نال وی گل کرے تے اِنج لگدا اے جیوے لڑ رہیا اے ۔تے فیر ایہہ ثابت ہویا کہ مندا بول کسے نال نہ بولو ہمیشہ چنگا بولو تے ہر پاسے اپنے اخلاق دی خوشبو ونڈو ۔ یہ بہت خوبصورت باتیں تھی جو اُنہوں نے مجھے سمجھائی۔میرے لیے اُس وقت بھی اُن کی با تیں بہت اہم تھیں جتنی کہ اب ہیں ۔ وقت کا کام ہے گُزرنا تو وہ دبے پا ؤ ں گُزر گیا، لیکن اُن کی کہی ہوئی باتِیں آج بھی ذہن کے کسی گوشے میں تر و تازہ رہ گئیں ہیں ۔اُس وقت عمر کی حد ایسی تھی کی عجیب و غریب اور بے سر و پا ء سوالات ذہن میں کُلبلاتے رہتے تھے جن کے بارے میں اب اگر سوچوں تو ہنسی آتی ہے ، لیکن ہمارے بزرگوں کی یہ اعلیٰ ظرفی ہے جنہوں نے نہ صرف میرے بلکہ میرے چھوٹے بہن بھائیوں کے بھی ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا ۔انہوں نے ان جوابات سے ہماری اچھی اخلاقی تعلیم و تربیت کی ۔
آج کل اگر دیکھا جائے تو ہر طرف بچوں کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا فقدان نظر آتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ والدین ہیں ۔ بچوں کو بگاڑنے میں سرا سر قصور ماں ،باپ کا ہوتا ہے ۔ عموماً بچہ پہلے اپنے گھر کے ماحول خصوصاً اپنی ماں سے بہت کچھ سیکھتا ہے بعد ازاں وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے سیکھنے کے قابل ہوتا ہے اسی لیے مٙاں کی گود کو پہلی درس گاہ کہا گیا ہے۔ لیکن اب صورتِ حال مختلف ہے مجال ہے آج کل کے مٙاں باپ کچھ سنجدگی سے اِن اہم باتوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کریں ۔اُنہیں تو مُوئے موبائل فون سے ہی فرصت نہیں ہے۔ مٙاں کو دیکھو تو فون میں غرق ہے، باپ آفس سے گھر آتا ہے تو بجائےاپنے والدین اور بیوی بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کے وہ بھی فون میں غرق ہو جاتا ہے۔ ایسے میں بچے والدین کی توجہ نہ پا کر اکیلے پن کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ بھی والدین کی دیکھا ،دیکھی موبائل میں غوطہ زن ہو کر اپنی ایک الگ دُنیا بسا لیتے ہیں۔ اب چاہیے وہ دُنیا غلط ہو یا صحیح والدین کو اِس کی کچھ خبر نہیں ہوتی ۔اِس غفلت کا نتیجہ یہ نِکلتا ہے کہ بچے نافرمان ،ضدی اور ہٹ دھرم ہو جاتے ہیں پھر وہ کسی کی بھی نہیں سُنتے اور سُنیں بھی کیوں؟،جب والدین نے ہی اُن پر توجہ نہیں دی، اُنہیں کبھی پیار سے سمجھانے کی کوشش نہیں کی ، اور نہ ہی اُنہیں مناسب وقت دیا ہوتا ہے تو وہ پھر کس بنا پر سمجھیں اور اُن کی بات مانیں؟ ۔آج کل کے والدین ببول بو کر پُھولوں کے اُگنے کی اُمید کرتے ہیں جو خلافِ فطرت ہے۔ کیا کسی نے کیکر کے درخت پر آم لگے دیکھے ہیں ؟ نہیں ناں تو ثابت ہو گیا کہ جو آپ آج بوئیں گے کل آپ کو وہی کاٹنا پڑے گا۔ یہی قانونِ فطرت ہے۔ آپ اگر بچوں کو اُن کے بچپن میں اچھے اخلاق نہیں سکھائیں گے تو وہ کل کو بد تمیز اور بد لحاظ بنیں گے۔ وہ کبھی آپ کو کوئی خاص مقام ، عزت ، رتبہ نہیں دیں گے جس کے آپ حق دار ہیں ،لہذا اپنے بچوں پر خاص توجہ دیجئے۔ بچوں کی اخلاقی گراوٹ اور غفلت کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ آج کل کے والدین خود کو شائد زیادہ لِبرل اور ماڈرن ثابت کرنے کے چکر میں بچوں کو اُن کی کسی غلطی پر روکنے ٹوکنےاور ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ وہ اِسے بےجا سختیاں اور پابندیاں عائد کرنا کہتے ہیں ۔ مثلًا اگر اُن کا بچہ باہر کوئی اُلٹا سیدھا کارنامہ سر انجام دیتا ہے اور اُسکی شکایت کرنے مُحلے کا کوئی فرد گھر تک آجا تا ہے تو اُس کی بھی شامت بُلا لیتے ہیں کہ ہمارے بچے نے تو جناب ایسا ویسا کچھ نہیں کیا یہ تو آپ کی مِلی بھگت ہے جو ہمارے بچے کو قُصّور وار گردان رہے ہیں ۔اب چاہیے تو یہ تھا کہ آپ توجہ سے سامنے والے کی بات سُنتے آپ نے اُلٹا بچے کے سامنے ہی اُس کو کوسنا شروع کر دیا ۔ یوں شکایت کرنے والا بچارہ اپنا سا مُنہ لے کے رہ جاتا ہے ۔اسطرح اگر آپ کا بچہ دُوبارہ باہر کوئی غلطی کرتا ہے تو وہ اُس کی غلطی کی آئندہ کبھی نشان دہی نہیں کرے گا، کیوں کے بے عزتی کا ایک دفعہ کا تجربہ اُس کے لیے کافی ہوتا ہے ۔اِس کا نتیجہ پھر یہ نِکلتا ہے کہ آپ کے بچے کو غیر ضروری ہلا شیری مل جاتی ہے اور وہ مزید ہٹ دھرم ہو جاتا ہے۔اس طرح وہ آہستہ،آہستہ آپ کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے.
انتہائی معذرت کے ساتھ میں کہنا چاہتی ہوں کہ اب اور تب میں اخلاقی تعلیم و تربیت کا بہت زیادہ فرق ہے ۔تب صرف شرارتیں ہوا کر کر تی تھی بے راہ روی پر مشتمل گناہ نہیں ،جبکہ اب شرارتیں نہیں ہوتی بلکہ گناہ ہوتے ہیں، معاف کیجئے گا گناہ بھی ڈیجٹل قسم کےہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اِن ڈیجیٹل گناہوں کی ایک لمبی فہرست بنتی ہے ۔ غرض کے ایک طوفانِ بدتمزی ہے جو ہر طرف برپا ہے۔ سوشل میڈیا کے اِس دور نے ہر طرف جھوٹ ، منافقت ،مذہبی منافرت، فحاشی و عریانی پھیلا رکھی ہے ۔ جس سے ہماری مشرقی اقتدار و روایت تو کہیں قِصّہ پرانا بن کر دم توڑ چُکی ہے ۔ میری تمام والدین سے دست بستہ گزارش ہے کہ خُدا کے لیے اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں کہیں دیر نہ ہو جائے ۔اپنے بچوں اور اُن کے دوستوں پر نظر رکھیں، اپنے گھر اور گلی مُحّلے کے بُزرگوں سے کہیں کہ باہر اُن پر نظر رکھیں ۔اپنے بچوں کا موبائل فون وقتاً فوقتاً چیک کرتے رہا کریں ۔ اگر گھر میں کمپُیوٹر ہے تو اُسے الگ کمرے میں رکھنے کی بجائے ہال یا ٹی وی لاؤنج میں رکھیں جہاں پر آپ گزرتے ہوئے بچوں کی سر گرمیوں پر نظر رکھ سکیں ۔اِس کے علاوہ بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے رہیں ۔بچوں کے مثبت رویے پر جہاں اُن کی حوصلہ آفزائی کریں وہیں اُن کی غلطی پر سرزنش بھی کریں۔اُن کے ساتھ اچھا وقت گزاریں ان کے لیے تفریح کا سامان مہیا کریں۔ہمیشہ تربیت کرتے وقت اعتدال کے اُصولوں کو مدِ نظر رکھ کر کریں ۔ خصوصاً تربیت کے اِن روز مرہ اُمور کو زندگی کا حِصّہ بنا لیں۔
(1) پہلے نمبر پر رات کو اپنے بچوں کو سُلانے سے پہلے اچھی سی درس آموز اسلامی اور اخلاقی کہانی سُنائیں خاص کر ہمارے اسلامی ہیروز صحابہ اکرامؓ وصحابیات ؓ کے قِصّے سُنائیں ۔ پیارے نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ و آلہ وَسَلَّم کی حیاتِ مبارکہ کے واقعات سُنائیں۔ گناہ اور ثواب بتائیں، نیکی اور بدی میں فرق سیکھائیں ، نماز اور قرآن و حدیث پڑھنے کی تر غیب دیں۔ با جماعت نماز کے فوائد بتائیں ۔کوشش کریں بچوں کو ترجمہ کے ساتھ قرآن کا کُچھ حِصّہ روز پڑھائیں ۔ بُزرگوں کا ادب کرنا سچ بولنا سیکھائیں ۔کیوں کہ یہ رات کا وہ وقت ہوتا ہے جس وقت نہ صرف بچے پُرسُکون ہوتے ہے بلکہ اُن کا زہن بھی خالی سلیٹ کی طرح ہوتا ہے آپ جو تحریر اُس وقت بچوں کے دماغ میں لکھیں گے وہ کبھی نہیں بُھولیں گے۔ آپ دیکھیں گے وقت کے ساتھ ،سا تھ بچوں میں یہ نیک عادت خود بخود پُختہ ہوتی چلی جائیں گی۔
(2) دوسرے نمبر پر کھانے کے اوقات میں میں ہلکی پھلکی گفتگو کے دوران اُن سے روزہ مرہ ہونے والی سرگرمیوں کے حوالے سے بات کریں اور اُن کو پیار سے سمجھائیں ۔ہمیشہ نصحت کرتے وقت سبق آموز واقعہ سُنا کر نصحت کریں کیوں کہ اسطرح کی گئی نصحت کا اثر دیر پا ہوتا ہے۔
(3)تیسرے نمبر پر بچوں میں مطالعہ کی عادت ڈالیں ۔اُن کو اخلاقی درس آموز کہانیاں پڑھنے کے لیے دیں۔ اچھی کتابیں بہترین دوست اور رہنما کا کردار ادا کرتی ہیں ۔ایک قول ہے اچھی کتاب پڑھنے کی عادت ہو تو اچھا بولنے کی عادت خود بخود پڑ جاتی ہے ۔ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ ایک تین گھنٹے کی اچھی فلم کا اثر 48 گھنٹے تک رہتا ہے اسی طرح اچھی بات اور کہانیی کا اثر تقریباً ڈیڑھ سے تین ماہ تک رہتا ہے ۔
(4)اپنے بچے اور بچی میں کبھی بھی تخصیص نہ کریں اُن کے لیے یکساں تربیتی پیمانوں کا تعّین کریں ۔ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے ہم اپنی بچیوں کی تربیت تو قدرے کھینچ کر کرتے ہیں اُن کو با کردار اور حیّا دار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے کہ انہوں نے اگلے گھر جانا ہے گو اُن کی تربیت کرنا اچھی بات ہے لیکن بچے کو آزاد چھوڑ دینا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ اُن کو کیوں نہیں سکھایا جاتا کہ کسی کی بیٹی کے ساتھ کس طرح اچھا سلوک کرنا ہے۔ اُن کو بھی سکھائیں کہ کسی کی بیٹی کو کیسے عزت دینی چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں اگر بچہ گالی گلوچ کرے تو کہا جاتا ہے وہ مرد ہے بھئی ! بھلا یہ کیا جواز یہ کیا ربّ نے مردوں سے گالی گلوچ کرنے پر سخت حساب نہیں لینا ؟ دینِ اسلام میں گالی دینا گناہ ہے، اگرآج وہ کسی کی مٙاں بہن ایک کرے گا کل وہ کسی سے اپنی مٙاں بہن کے لیے بھی وہی کچھ سُنے گا پھر بدلے میں جھگڑے اور فسادات پیدا ہونگے ۔اِس نام نہاد مردانگی کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ الٹا نقصان ہے ۔آج وہ آپ کی دی ہوئی شہہ پر گالی گلوچ کو بُرا فعل نہیں سمجھتا تو کل کو قتل و غارت ،چوری ، اور کسی معصوم بچی کی عزت برباد کرنے میں کیسے بُرا محسوس کرے گا ۔ ؟ اُسےکیسے احساسِ گناہ ہوگا ؟ جواب دیں ۔۔۔۔۔۔؟
یاد رکھیں! آپ کی زرا سی غلط کاموں میں بچے کی بے جا حمایت کا نقصان آپ کو اور آپ کے بچے دونوں کو بُھگتنا پڑ سکتا بے۔ اِسطرح آپ کی جا نرمی کا فائدہ وہ بچہ اُٹھتا رہتا ہے اور آپ کی اِس ناقص تربیت کی بھینٹ پر کبھی ایک لڑکی اور اُسکا پُورا خاندان چڑھ جاتا ہے تو کبھی معاشرے کا کوئی فرد ۔ بچہ ہو یا بچی اُن کی تربیت کرتے ہوئے ہمیشہ اعتدال کے پہلوؤ ں کو مد نظر رکھیں ۔ جہاں بے جا سختی بچوں کو بگاڑتی وہیں بے جا نرمی سے بھی بچوں کا کردار مسخ ہوتا ہے ۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ بچوں کو فارغ نہ رہنےدیا جائے اُنہیں مصروف رکھا جائے۔ مثلاً فارغ اوقات میں گھر کے کاموں میں بچے اور بچیوں سے کہیں کہ وہ آپ کی مدد کیا کریں۔ آپ اُنہیں بتائیں کہ ہاتھ سے کام کرنا ہمارے پیارے نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ و آلہ وَسَلَّم کی مبارک سُنت ہے۔ لڑکوں سے بھی کچن ورک ،باغبانی ،گھر کی صفائی وغیرہ کروانے میں عار نہ سمجھیں بلکہ اُنہیں بتائیں کہ سُنت پر عمل کرنے سے ڈھیروں ثواب ملتا ہے ۔ اِسطرح نہ صرف بچوں میں احساسِ ذمہ داری پیدا ہوگا بلکہ اُن کا زیادہ وقت تعمیری کاموں میں صرف ہوگا، اِسطرح وہ دیگر فضول کاموں کی طرف توجہ نہیں دے سکیں گے ۔ماہرین کا کہنا ہے بچے میں اضافی قوت تحریک چاہتی ہے اگر یہ تحریک مثبت انداز میں خرچ ہو تو بچے میں مثبت تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً بچہ کھیل کود کر تھکن کے باوجود راحت محسوس کرتا ہے۔کیوں کہ وہ اپنی اضافی توانائی مثبت انداز میں خرچ کر چُکا ہوتا ہے ۔اگر یہ توانائی بر وقت خارج نہ ہو تو بچہ مختلف ذہنی اور جسمانی عوارض کا شکار ہو جاتا ہے ۔ ایک کہاوت ہے کہ” فارغ دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے "۔ آپ نے غور کیا ہو گا کہ بچیوں کی نسبت بچوں میں زیادہ جوش اور ولولہ ہوتا ہے، جو مختلف رویوں کا حامل ہوتا ہے اگر اِن بچوں کو دو گرہوں میں تقسیم کیا جائے تو آپ آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مثبت تبدیلی والے بچے مختلف تعمیری کاموں میں حِصّہ لیتے رہے ہیں ،جبکہ منفی رویہ رکھنے والے بچے زیادہ تر فارغ رہتے ہیں جس سے اُن کے اندر منفی سرگرمیوں کی طرف راغب ہونے کا میلان پیدا ہوتا ہے ۔ لہذا بچوں اور بچیوں میں فرق کرنے سے گُریز کریں ۔
(5)کبھی بھی اپنے خاندانی جھگڑوں ،سازشیوں، نفرتوں کی بھینٹ اپنے بچوں کو مت چڑھائیں۔ بچوں کو منافقت اور مذہبی منافرت سے کوسوں دُور رکھیں ۔اپنے بچوں کو ہمیشہ روداری،درگُزر کرنا، پیار و محبت سے رہنا ، سچ بولنا ،نرمی،معاملہ فہمی ،معاف کرنا سیکھائیں ۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے سامنے ہمیشہ صُلح جو رہیں اور لڑائی جھگڑے سے اجتناب برتیں ۔بچوں کے سامنے تمیز کا مظاہرہ کریں۔ بچہ ایک بہترین نقال ہوتا ہے وہ آپ سے وہی کچھ سیکھتا ہے جو آپ اپنی روز مرہ زندگی میں اُس کے سامنے کر رہے ہوتے ہیں ۔لہذا بچوں کے سامنے ایک دُوسرے کے ساتھ عزت و محبت سے پیش آئیں۔ اِس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے خُدا کے لیے سُدھر جائیں ۔ بعد میں میں کفِ افسوس ملنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ ایک ہندی ضرب المثل ہے کہ” اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت ” اس لیے خُود کو پچھتانے کا موقع ہر گز نہ دیں ۔
Title Image by Eiserner Gustav from Pixabay
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔