(یوم پیدائش پرخراج عقیدت)
محسن زیدی (1935ء – 2003ء) ایک اردو شاعرتھے جو قلمی نام ‘محسن’ لکھا کرتے تھے۔ سید محسن رضا زیدی 10 جولائی 1935 شہر
بہرائچ میں پیدا ہوئے۔ والدین کا نام علی الترتیب سید علی رضا زیدی اور صغری بیگم تھا۔ ان کا 3 ستمبر 2003ء کو لکھنؤ میں انتقال ہوا ۔
محسن زیدی نے پرتاپ گڑھ، اتر پردیش میں ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی – اسلامیہ اسکول (1940ء – 1942ء)؛ کے .پی۔ ہندو ہائی اسکول (1943ء – 1948ء)؛ گورنمنٹ ہائی اسکول (1949 – 1950). انہوں نے کہا کہ مہاراج سنگھ انٹر کالج، بہرائچ، اترپردیش (- 1952 1951) سے ان کی ایران اسکول نے کیا۔ انہوں نے انگریزی ادب، تاریخ اور معاشیات (- 1954 1953) میں لکھنؤ یونیورسٹی سے آرٹس بیچلر موصول ہوئی۔ انہوں نے الہ آباد یونیورسٹی (1955 – 1956) سے معاشیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔1956 ء میں بھارتی اقتصادی سروس میں شمولیت اختیار کی اور 1993 ء میں ان کی ریٹائرمنٹ تک بھارت کی حکومت کے ساتھ کام کیا۔ کیمیکل اور ارورک، لیبر، زراعت کی وزارتوں میں مرکزی حکومت کے ساتھ بہت سے عہدوں پر تعینات رہے۔ اور منصوبہ بندی کمیشن میں۔ انہوں نے کہا کہ جوائنٹ سکریٹری کے سینئر انتظامی جماعت میں ایک ‘سینئر اکانومسٹ’ کے طور پر ریٹائر۔ حکومت اسائنمنٹس کے تحت وہ جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، تائیوان، انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور الجیریا جیسے ممالک کا دورہ کیا۔
محسن زیدی غزل کے شاعر تھے۔ بعض ناقدین محسن زیدی کو اردو شاعری کی کلاسیکی روایت کے قریب سمجھتے ہیں، کچھ ان کو ترقی پسند تحریک کے لکھنے والوں کی طرف سے متاثر محسوس کرتے ہیں ۔فراقؔ گورکھپوری آپ کے بارے میں اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں
’’محسن زیدی کئی برس الہ آباد یونی ورسٹی میں میرے شاگرد رہے ہیں ۔وہ اپنے ذوقِ شخن کو کافی جتن سے پالتے اور پروان چڑھاتے رہےہیں۔ ’’شہر دل ‘‘کے نام سے اپنی پہلی غزلوں کا یہ انتخاب پیش کر رہے ہیں۔شہرِدل میں جوکلام شائع ہو رہا ہے،وہ میں کُل کا کُل تو نہیں دیکھ ہوں لیکن بادی النظرمیں کم از کم پچاس اشعار ایسے گزرےجو کافی جاذب قلب و نظرتھے۔عموماً ان کے اشعار میں لہجے کی نرمی ،الفاظ کا ترنم اور بیان کی روانی ملتی ہے۔اس انتخاب کو حاصل کرکے ہزار ہاآدمی انکے اشعار کو گنگنا نا چاہیں گے۔مجھے امید ہے کہ وہ ادب اور زندگی کا غائزمطالع کرتے رہیں گے اور جیسے جیسے ان کی شاعری ترقی کرے گی،انکی شاعری میں فکری عناصر کا اظافہ ہوتا ر ہے گا،اور ان کے وجدان کو نئی گہرائیاں ملتی رہے گی۔‘‘
محسن صاحب میرے نانا محمد شمیم اللہ صاحب کے کلاس فیلو تھے ۔جب بھی دہلی ہا ْلکھنؤ سے بہرائچ آتے تو آپ سے ملاقات ضرور کرتے تھے۔آپ کی کتاب ’’متاع آخر شب‘‘ کو میں نے نانا کے یہاں دیکھا ہے جس پر آپ نے یہ عبارت لکھی ہیں:
برادر شمیم صاحب کے لئے
خلوص کے ساتھ
محسن زیدی،بہرائچ
19؍ مارچ 1990ء
محسن ؔ زیدی صاحب ایک کامیاب شاعر تھے آپ کے کئی مجموعہ کلام منظرعام پر آ کر مقبول خاص و عام ہوئے ۔آپ کے مجموعہ کلام اس طرح ہیں :
شہردل
رشتۂ کلام
متاع آخر شب
باب سخن
جنبش نوک قلم
کلیات محسن زیدی
نمونہ کلام
ٹھہرے ہوئے نہ بہتے ہوئے پانیوں میں ہوں
یہ میں کہاں ہوں کیسی پریشانیوں میں ہوں
اک پل کو بھی سکون سے جینا محال ہے
کن دشمنان جاں کی نگہبانیوں میں ہوں
یوں جل کے راکھ خواب کے پیکر ہوئے کہ بس
اک آئینہ بنا ہوا حیرانیوں میں ہوں
جب راہ سہل تھی تو بڑی مشکلوں میں تھا
اب راہ ہے کٹھن تو کچھ آسانیوں میں ہوں
آساں نہیں ہے اتنا کہ بک جاؤں اس کے ہاتھ
ارزاں نہیں ہوں خواہ فراوانیوں میں ہوں
مجھ کو بھی علم خوب ہے سب مد و جزر کا
میں بھی تو سب کے ساتھ انہیں پانیوں میں ہوں
محسنؔ تمام تر سر و ساماں کے باوجود
پوچھو نہ کتنی بے سر و سامانیوں میں ہوں
جیسے دو ملکوں کو اک سرحد الگ کرتی ہوئی
وقت نے خط ایسا کھینچا میرے اس کے درمیاں
محسن زیدی
جنید احمد نور
بہرائچ، اتر پردیش
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔