محسن نقوی …تعارف وکلام
محمد یوسف وحید
(مدیر: شعوروادراک خان پور )
شعر و ادب کی دنیا کا ایک معتبر نام محسن نقوی 5 مئی 1947ء میں سید چراغ حسین شاہ کے ہاں ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔والدین نے ان کا نام غلام عباس رکھا ۔ ان کا تعلق ایک عام اور کم آمدنی والے گھرانے سے تھا۔ ان کے والدپہلے لکڑی کا کام اور بعد ازاں ایک ہوٹل پر کام کرتے تھے۔ محسن نقوی کے چھ بہن بھائی تھے۔ پرائمری تعلیم گھر کے قریب واقع پرائمری سکول نمبر 6 میں حاصل کی۔میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1جب کہ ایف اے اوربی اے گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان سے کیا۔ایم اے گورنمنٹ کالج بوسن روڈملتان سے کیا۔نامور شاعر پروفیسر اسلم انصاری محسن نقوی کے اُستاد تھے۔
غلام عباس نے آٹھویں جماعت میں شاعری کا آغاز کیا تو اپنا قلمی نام محسن نقوی رکھ لیا۔ ڈیرہ غازی خان میں شفقت کاظمی، عبد الحمید عدم اور کیف انصاری جیسے غزل گو شعراء سے رہنمائی حاصل کی ۔علامہ شفقت کاظمی کا شمار مولانا حسرت موہانی کے شاگردوں میں ہوتا تھا۔ابتدائی زمانے میں ہی محسن نقوی کی شاعری نے ہم عصروں کو متوجہ کیا۔محسن نقوی نے کسی سے باقاعدہ اصلاح تو نہ لی مگر علامہ شفقت کاظمی کو اپنا منہ بولا استاد ضرور کہتے تھے۔ ملتان آنے کے بعد انہیں انواراحمد، عبدالرئو ف شیخ، فخر بلوچ ، صلاح الدین حیدر اور اصغرندیم سید جیسے دوستوں کی صحبت نصیب ہوئی ۔ یہ ان سب کے طالب علمی کازمانہ تھا۔ملتان کی ادبی،ثقافتی وسیاسی زندگی میں بہت تحرک تھا۔جلد ہی گھنگھریالے بالوں والا اور قہقہے بکھیرنے والا نوجوان محسن نقوی ملتان کی ادبی محفلوں کی جان بن گیا۔
محسن نقوی نے 1969ء میں ڈیرہ غازی خاں کے ہفت روزہ’’ہلال‘‘ میں اور ملتان میں روزنامہ ’’امروز ‘‘ کے لیے باقاعدہ ہفتہ وار قطعات اور کالم بھی لکھے ۔
1970ء میں ملک میں سیاسی گہما گہمی کا دَور تھا۔ترقی پسند سوچ رکھنے والے دیگر دانشوروں کی طرح محسن نقوی بھی پاکستان پیپلزپارٹی سے وابستہ ہوگئے اور یہ وابستگی آخری سانس تک برقرار رہی۔اسی زمانے میں محسن نقوی نے ’’بندِ قبا‘‘کے نام سے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ متعدد شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔جن میں عذابِ دید ، خیمہ ٔ جاں ، برگِ صحرا ، موجِ ادراک ، طُلوعِ اشک ، فُراتِ فکر ، ریزۂ حرف ، رخت ِ شب ، رِدائے خواب اور حق ایلیا شامل ہیں ۔ محسن نقوی کو اقبالِ ثانی کا خطاب بھی ملا۔
1980ء میں محسن نقوی لاہورچلے گئے ۔لاہور کے ادبی مراکز میں انہیں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے وسیع مواقع میسر آئے۔محسن کی غزلیں اور نظمیں کافی مقبول ہوئیں اور وہ نئی نسل کے پسندیدہ شاعر کے طور پر پہچانے جانے لگے۔اُس دور میں احمد ندیم قاسمی سے لیکر شہزاد احمد تک کئی نامور اُستاد شعرا موجود تھے۔محسن نقوی نے ان سب کی موجودگی میں اپنے منفرد اسلوب اور لب و لہجے کی بدولت اپنی پہچان کرائی۔غزل کے ساتھ ساتھ نظم اور رثائی ادب میں بھی ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔’’دسمبر مجھے راس آتانہیں‘‘سمیت ان کی کئی نظمیں آج بھی ہرخاص وعام میں مقبول ہیں۔ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دَورِ حکومت میں تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔
غلام عباس المعروف محسن نقوی کو 15جنوری 1996ء میں اقبال ٹائو ن کی بارونق مون مارکیٹ لاہور میں قتل کر دیا گیا۔محبت اور امن کا شاعر نفرت اور دہشت گردی کا نشانہ بن کر اپنے ہی ایک شعر کی عملی تصویر بن گیا۔
ہماری لاش پہ ڈھونڈو نہ انگلیوں کے نشاں
ہمیں خبر ہے عزیزو یہ کام کس کا ہے
محسن نقوی کی نمازِ جنازہ فقہ جعفریہ کے سربراہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے ناصر باغ لاہور میں پڑھائی۔ بعد ازاں اُردو کے عظیم شاعر محسن نقوی کواُن کے آبائی گاؤں ڈیرہ غازی خان میں سپردِ خاک کر دیا گیا ۔
٭
محسن مکمل عصری شعور کے ساتھ شعر کہتے تھے ۔ معاشرتی اُتار چڑھائو بھی ان کی شاعری کا اہم موضوع تھا۔محسن نقوی کو شاعرِ اہلِ بیت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ کربلا کے بارے میں ان کی شاعری کو پورے پاکستان میں ایک مقبولیت حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام کوہر جگہ قبول کیا جاتا ہے اور بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔
محسن نقوی نے شعری مجموعہ ’’ردائے خواب‘‘ کے دیباچے میںاپنی شاعری کا مرکزی نکتہ محبت اور امن کو قرار دیاہے ۔ بقول محسن نقوی:
’’زندگی اتنی مختصر ہے کہ اس میں جی بھر کے محبت کرنے کی مہلت بھی نہیں ملتی خدا جانے لوگ نفرت کے لئے وقت کہاں سے بچا لیتے ہیں‘‘۔
محسن کی شاعری میں صرف پیار و محبت اور لب و رُخسار کی باتیں شامل نہیں ہیں بلکہ انہوں نے دنیا کے ان حکمرانوں کے خلاف بھی لکھا تھا جو اپنے لوگوں کی پرواہ نہیں کرتے۔محسن نقوی نے فلم ’’بازاِ حسن‘‘ کے لیے ایک گیت ’’لہروں کی طرح تجھے بکھرنے نہیں دیں گے‘‘ لکھا اور بہترین فلمی گیت نگار کا ایوارڈحاصل کیا ۔
محسن نقوی نے شعرو ادب سے وابستہ رہ کر اُردو غزل میں ایک منفرد پہچان بنائی ۔انہوں نے فنی زندگی میں بامعنی شاعری لکھ کر خوب داد و تحسین حاصل کی۔ محسن کو اپنی شاعری کے ذریعے زبردست پذیرائی ملی جو اکثر واقعات کربلا کے گرد گھومتی تھی جس نے انہیں دنیا بھر میں شہرت ملی ۔ جداگانہ اُسلوب کے حامل محسن نقوی ہمیشہ اپنی شاعری میں سیاست اور مذہب پر بات کرتے اور حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور کارکردگی پر بات کرنے سے کبھی نہیں گھبراتے تھے۔ ان کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کی شاعری میں محبت کے معاملات پر قائم رہنے کے بجائے تنوع دکھانا تھا۔درحقیقت وہ ان حیرت انگیز شاعروں میں سے ایک تھے جو یہ دنیا ہر نسل میں پیدا نہیں کرتی۔محسن نقوی کے چند مشہور اشعار ملاحظہ فرمائیں :
اُجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
٭
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا
٭
یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا، آوارگی
اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی
٭
بچھڑکے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ہے
٭
وہ جس کا نام بھی لیا پہیلیوں کی اوٹ میں
نظر پڑی تو چھپ گئی سہیلیوں کی اوٹ میں
٭
محسن نقوی کی چند مشہور نظمیں ملاحظہ فرمائیں :
یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
جب آنکھ میں خواب دمکتے تھے
جب دلوں میں داغ چمکتے تھے
جب پلکیں شہر کے رستوں میں
اشکوں کا نور لٹاتی تھیں
جب سانسیں اجلے چہروں کی
تن من میں پھول سجاتی تھیں
جب چاند کی رم جھم کرنوں سے
سوچوں میں بھنور پڑ جاتے تھے
جب ایک تلاطم رہتا تھا
اپنے بے انت خیالوں میں
ہر عہد نبھانے کی قسمیں
خط خون سے لکھنے کی رسمیں
جب عام تھیں ہم دل والوں میں
اب اپنے پھیکے ہونٹوں پر
کچھ جلتے بجھتے لفظوں کے
یاقوت پگھلتے رہتے ہیں
اب اپنی گم سم آنکھوں میں
کچھ دھول ہے بکھری یادوں کی
کچھ گرد آلود سے موسم ہیں
اب دھوپ اگلتی سوچوں میں
کچھ پیماں جلتے رہتے ہیں
اب اپنے ویراں آنگن میں
جتنی صبحوں کی چاندی ہے
جتنی شاموں کا سونا ہے
اس کو خاکستر ہونا ہے
اب یہ باتیں رہنے دیجے
جس عمر میں قصے بنتے تھے
اس عمر کا غم سہنے دیجے
اب اپنی اجڑی آنکھوں میں
جتنی روشن سی راتیں ہیں
اس عمر کی سب سوغاتیں ہیں
جس عمر کے خواب خیال ہوئے
وہ پچھلی عمر تھی بیت گئی
وہ عمر بتائے سال ہوئے
اب اپنی دید کے رستے میں
کچھ رنگ ہے گزرے لمحوں کا
کچھ اشکوں کی باراتیں ہیں
کچھ بھولے بسرے چہرے ہیں
کچھ یادوں کی برساتیں ہیں
یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
(ماخذ:کلیاتِ محسن ، ماور پبلشرز لاہور ، اشاعت: 2010ء ، ص: 709)
٭
(تھک جاؤ گی)
پاگل آنکھوں والی لڑکی
اتنے مہنگے خواب نہ دیکھو
تھک جاؤ گی
کانچ سے نازک خواب تمہارے
ٹوٹ گئے تو
پچھتاؤ گی
سوچ کا سارا اجلا کندن
ضبط کی راکھ میں گھل جائے گا
کچے پکے رشتوں کی خوشبو کا ریشم
کھل جائے گا
تم کیا جانو
خواب سفر کی دھوپ کے تیشے
خواب ادھوری رات کا دوزخ
خواب خیالوں کا پچھتاوا
خوابوں کی منزل رسوائی
خوابوں کا حاصل تنہائی
تم کیا جانو
مہنگے خواب خریدنا ہوں تو
آنکھیں بیچنا پڑتی ہیں یا
رشتے بھولنا پڑتے ہیں
اندیشوں کی ریت نہ پھانکو
پیاس کی اوٹ سراب نہ دیکھو
اتنے مہنگے خواب نہ دیکھو
تھک جاؤ گی
(ماخذ:منتخب شاہکار نظموں کا البم ، منور جمیل ، اشاعت: 2000ء ، ص: 453)
٭
(بھول جاؤ مجھے)
وہ تو یوں تھا کہ ہم
اپنی اپنی ضرورت کی خاطر
اپنے اپنے تقاضوں کو پورا کیا
اپنے اپنے ارادوں کی تکمیل میں
تیرہ و تار خواہش کی سنگلاخ راہوں پہ چلتے رہے
پھر بھی راہوں میں کتنے شگوفے کھلے
وہ تو یوں تھا کہ بڑھتے گئے سلسلے
ورنہ یوں ہے کہ ہم
اجنبی کل بھی تھے
اجنبی اب بھی ہیں
اب بھی یوں ہے کہ تم
ہر قسم توڑ دو
سب ضدیں چھوڑ دو
اور اگر یوں نہ تھا تو یوں ہی سوچ لو
تم نے اقرار ہی کب کیا تھا کہ میں
تم سے منسوب ہوں
میں نے اصرار ہی کب کیا تھا کہ تم
یاد آؤ مجھے
بھول جاؤ مجھے
(ماخذ:کلیاتِ محسن ، ماور پبلشرز لاہور ، اشاعت: 2010ء ، ص:409)
۔۔۔
(چلو چھوڑو)
چلو چھوڑو
محبت جھوٹ ہے
عہد وفا اک شغل ہے بے کار لوگوں کا
طلب سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
خلش دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
خمار وصل تپتی دھوپ کے سینے پہ اڑتے بادلوں کی رائیگاں بخشش!
غبار? ہجر صحرا میں سرابوں سے اٹے موسم کا خمیازہ
چلو چھوڑو
کہ اب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانس کی ضربوں پہ
چاہت کی بنا رکھ کر سفر کرتا رہا ہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تم بھی موسموں کے ساتھ اپنے پیرہن کے رنگ بدلو گی
چلو چھوڑو
وہ سارے خواب کچی بھربھری مٹی کے بے قیمت گھروندے تھے
وہ سارے ذائقے میری زباں پر زخم بن کر جم گئے ہوں گے
تمہاری انگلیوں کی نرم پوریں پتھروں پر نام لکھتی تھیں مرا لیکن
تمہاری انگلیاں تو عادتاً یہ جرم کرتی تھیں
چلو چھوڑو
سفر میں اجنبی لوگوں سے ایسے حادثے سرزد ہوا کرتے ہیں صدیوں سے
چلو چھوڑو
مرا ہونا نہ ہونا اک برابر ہے
تم اپنے خال و خد کو آئینے میں پھر نکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے اک نیا موسم اترنے دو
مرے خوابوں کو مرنے دو
نئی تصویر دیکھو
پھر نیا مکتوب لکھو
پھر نئے موسم نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
مرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
مری یادوں سے کچے رابطے توڑو
چلو چھوڑو
محبت جھوٹ ہے
عہد وفا اک شغل ہے بے کار لوگوں کا
(ماخذ:کلیاتِ محسن ، ماور پبلشرز لاہور ، اشاعت: 2010ء ، ص: 725)
٭
(تمہیں کس نے کہا تھا)
تمہیں کس نے کہا تھا
دوپہر کے گرم سورج کی طرف دیکھو
اور اتنی دیر تک دیکھو
کہ بینائی پگھل جائے
تمہیں کس نے کہا تھا
آسماں سے ٹوٹتی اندھی الجھتی بجلیوں سے دوستی کر لو
اور اتنی دوستی کر لو
کہ گھر کا گھر ہی جل جائے
تمہیں کس نے کہا تھا
ایک انجانے سفر میں
اجنبی رہرو کے ہمرا دور تک جاؤ
اور اتنی دور تک جاؤ
کہ وہ رستہ بدل جائے
(ماخذ:کلیاتِ محسن ، ماور پبلشرز لاہور ، اشاعت: 2010ء ، ص: 890)
٭
(تمہیں کیا)
تمہیں کیا
زندگی جیسی بھی ہے
تم نے اس کے ہر ادا سے رنگ کی موجیں نچوڑی ہیں
تمہیں تو ٹوٹ کر چاہا گیا چہروں کے میلے میں
محبت کی شفق برسی تمہارے خال و خد پر
آئنے چمکے تمہاری دید سے
خوشبو تمہارے پیرہن کی ہر شکن سے
اذن لے کر ہر طرف وحشت لٹاتی تھی
تمہارے چاہنے والوں کے جھرمٹ میں
سبھی آنکھیں تمہارے عارض و لب کی کنیزیں تھیں
تمہیں کیا
تم نے ہر موسم کی شہ رگ میں انڈیلے ذائقے اپنے
تمہیں کیا
تم نے کب سوچا
کہ چہروں سے اٹی دنیا میں تنہا سانس لیتی
ہانپتی راتوں کے بے گھر ہم سفر
کتنی مشقت سے گریبان سحر کے چاک سیتے ہیں
تمہیں کیا
تم نے کب سوچا
کہ تنہائی کے جنگل میں
سیہ لمحوں کی چبھتی کرچیوں سے کون کھیلا ہے
تمہیں کیا
تم نے کب سوچا
کہ چہروں سے اٹی دنیا میں
کس کا دل اکیلا ہے
(ماخذ:کلیاتِ محسن ، ماور پبلشرز لاہور ، اشاعت: 2010ء ، ص: 1237)
٭
بہت دنوں بعد
تیرے خط کے اداس لفظوں نے
تیری چاہت کے ذائقوں کی تمام خوشبو
مری رگوں میں انڈیل دی ہے
بہت دنوں بعد
تیری باتیں
تری ملاقات کی دھنک سے دہکتی راتیں
اجاڑ آنکھوں کے پیاس پاتال کی تہوں میں
وصال وعدوں کی چند چنگاریوں کو سانسوں کی آنچ دے کر
شریر شعلوں کی سرکشی کے تمام تیور
سکھا گئی ہیں
ترے مہکتے مہین لفظوں کی آبشاریں
بہت دنوں بعد پھر سے
مجھ کو رلا گئی ہیں
بہت دنوں بعد
میں نے سوچا تو یاد آیا
کہ میرے اندر کی راکھ کے ڈھیر پر ابھی تک
ترے زمانے لکھے ہوئے ہیں
سبھی فسانے لکھے ہوئے ہیں
بہت دنوں بعد
میں نے سوچا تو یاد آیا
کہ تیری یادوں کی کرچیاں
مجھ سے کھو گئی ہیں
ترے بدن کی تمام خوشبو
بکھر گئی ہے
ترے زمانے کی چاہتیں
سب نشانیاں
سب شرارتیں
سب حکایتیں سب شکایتیں جو کبھی ہنر میں
خیال تھیں خواب ہو گئی ہیں
بہت دنوں بعد
میں نے سوچا تو یاد آیا
کہ میں بھی کتنا بدل گیا ہوں
بچھڑ کے تجھ سے
کئی لکیروں میں ڈھل گیا ہوں
میں اپنے سگریٹ کے بے ارادہ دھوئیں کی صورت
ہوا میں تحلیل ہو گیا ہوں
نہ ڈھونڈھ میری وفا کے نقش قدم کے ریزے
کہ میں تو تیری تلاش کے بے کنار صحرا میں
وہم کے بے اماں بگولوں کے وار سہہ کر
اداس رہ کر
نہ جانے کس رہ میں کھو گیا ہوں
بچھڑ کے تجھ سے تری طرح کیا بتاؤں میں بھی
نہ جانے کس کس کا ہو گیا ہوں
بہت دنوں بعد
میں نے سوچا تو یاد آیا
(ماخذ:کلیاتِ محسن ، ماور پبلشرز لاہور ، اشاعت: 2010ء ، ص: 739)
٭
(ایک نئے لفظ کی تخلیق)
زندگی لفظ ہے
موت بھی لفظ ہے
زندگی کی تراشی ہوئی اولیں صوت سے سرحد موت تک لفظ ہی لفظ ہیں
سانس بھی لفظ ہے
سانس لینے کی ہر اک ضرورت بھی لفظوں کی محتاج ہے
آگ پانی ہوا خاک سب لفظ ہیں
آنکھ چہرہ جبیں ہاتھ لب لفظ ہیں
صبح و شام و شفق روز و شب لفظ ہیں
وقت بھی لفظ ہے
وقت کا ساز و آہنگ بھی
رنگ بھی سنگ بھی
امن بھی جنگ بھی
لفظ ہی لفظ ہیں
پھول بھی لفظ ہے
دھول بھی لفظ ہے
لفظ قاتل بھی ہے
لفظ مقتول بھی
لفظ ہی خوں بہا
لفظ دست دعا
لفظ ارض و سما
صبح فصل بہاراں بھی اک لفظ ہے
شام ہجر نگاراں بھی اک لفظ ہے
رونق بزم یاراں بھی اک لفظ ہے
محفل دل فگاراں بھی اک لفظ ہے
میں بھی اک لفظ ہوں
تو بھی اک لفظ ہے
آ کہ لفظوں کی صورت فضاؤں میں مل کر بکھر جائیں ہم
اک نیا لفظ تخلیق کر جائیں ہم
آ کہ مر جائیں ہم
(ماخذ:کلیاتِ محسن ، ماور پبلشرز لاہور ، اشاعت: 2010ء ، ص: 524)
٭
مرے لیے کون سوچتا ہے
جدا جدا ہیں مرے قبیلے کے لوگ سارے
جدا جدا سب کی صورتیں ہیں
سبھی کو اپنی انا کے اندھے کنویں کی تہ میں پڑے ہوئے
خواہشوں کے پنجر
ہوس کے ٹکڑے
حواس ریزے
ہراس کنکر تلاشنا ہیں
سبھی کو اپنے بدن کی شہ رگ میں
قطرہ قطرہ لہو کا لاوا انڈیلنا ہے
سبھی کو گزرے دنوں کے دریا کا دکھ
وراثت میں جھیلنا ہے
مرے لئے کون سوچتا ہے
سبھی کی اپنی ضرورتیں ہیں
مری رگیں چھلتی جراحت کو کون بخشے
شفا کی شبنم
مری اداسی کو کون بہلائے
کسی کو فرصت ہے مجھ سے پوچھے
کہ میری آنکھیں گلاب کیوں ہیں
مری مشقت کی شاخ عریاں پر
سازشوں کے عذاب کیوں ہیں
مری ہتھیلی پہ خواب کیوں ہیں
مرے سفر میں سراب کیوں ہیں
مرے لیے کون سوچتا ہے
سبھی کے دل میں کدورتیں ہیں
(ماخذ:منتخب شاہکار نظموں کا البم ، منور جمیل ، اشاعت: 2000ء ، ص: 455)
٭
(ہوا اس سے کہنا)
ہوا
صبح دم اس کی آہستہ آہستہ کھلتی ہوئی آنکھ سے
خواب کی سیپیاں چننے جائے تو کہنا
کہ ہم جاگتے ہیں
ہوا اس سے کہنا
کہ جو ہجر کی آگ پیتی رتوں کی طنابیں
رگوں سے الجھتی ہوئی سانس کے ساتھ کس دیں
انہیں رات کے سرمئی ہاتھ خیرات میں نیند کب دے سکے ہیں
ہوا اس کے بازو پہ لکھا ہوا کوئی تعویذ باندھے تو کہنا
کہ آوارگی اوڑھ کر سانس لیتے مسافر
تجھے کھوجتے کھوجتے تھک گئے ہیں
ہوا اس سے کہنا
کہ ہم نے تجھے کھوجنے کی سبھی خواہشوں کو
اداسی کی دیوار میں چن دیا ہے
ہوا اس سے کہنا
کہ وحشی درندوں کی بستی کو جاتے ہوئے راستوں پر
ترے نقش پا دیکھ کر
ہم نے دل میں ترے نام کے ہر طرف
اک سیہ ماتمی حاشیہ بن دیا ہے
ہوا اس سے کہنا
ہوا کچھ نہ کہنا
ہوا کچھ نہ کہنا
(ماخذ:کلیاتِ محسن ، ماور پبلشرز لاہور ، اشاعت: 2010ء ، ص: 676)
٭
(وہ شاخ مہتاب کٹ چکی ہے)
بہت دنوں سے
وہ شاخ? مہتاب کٹ چکی ہے
کہ جس پہ تم نے گرفت وعدہ کی ریشمی شال کے ستارے سجا دیئے تھے
بہت دنوں سے
وہ گرد احساس چھٹ چکی ہے
کہ جس کے ذروں پہ تم نے
پلکوں کی جھالروں کے تمام نیلم لٹا دیئے تھے
اور اب تو یوں ہے کہ جیسے
لب بستہ ہجرتوں کا ہر ایک لمحہ
طویل صدیوں کو اوڑھ کر سانس لے رہا ہے
اور اب تو یوں ہے کہ جیسے تم نے
پہاڑ راتوں کو
میری اندھی اجاڑ آنکھوں میں
ریزہ ریزہ بسا دیا ہے
کہ جیسے میں نے
فگار دل کا ہنر اثاثہ
کہیں چھپا کر بھلا دیا ہے
اور اب تو یوں ہے کہ
اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر
مرے بدن پر سجے ہوئے آبلوں سے بہتا لہو نہ دیکھو
مجھے کبھی سرخ رو نہ دیکھو
نہ میری یادوں کے جلتے بجھتے نشاں کریدو
نہ میرے مقتل کی خاک دیکھو
اور اب تو یوں ہے کہ
اپنی آنکھوں کے خواب
اپنے دریدۂ دامن کے چاک دیکھو
کہ گرد احساس چھٹ چکی ہے
کہ شاخ مہتاب کٹ چکی ہے
(ماخذ:کلیاتِ محسن ، ماور پبلشرز لاہور ، اشاعت: 2010ء ، ص: 690)
٭
محسن نقوی کی اُردو غزلوں کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں :
(۱)
بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
صحرا مرا چہرا ہے سمندر تری آنکھیں
پھر کون بھلا داد تبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں
خالی جو ہوئی شام غریباں کی ہتھیلی
کیا کیا نہ لٹاتی رہیں گوہر تیری آنکھیں
بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
کھلتی ہیں بہت دل میں اتر کر تری آنکھیں
اب تک مری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا
بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تری آنکھیں
ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تری آنکھیں
میں سنگ صفت ایک ہی رستے میں کھڑا ہوں
شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تری آنکھیں
یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسنؔ
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تری آنکھیں
٭
(۲)
یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی
اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی
کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا تو کون ہے اس نے کہا آوارگی
لوگو بھلا اس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی
یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر
ہم لوگ تو اکتا گئے اپنی سنا آوارگی
اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا مرے غم کا سبب
صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا آوارگی
اس سمت وحشی خواہشوں کی زد میں پیمان وفا
اس سمت لہروں کی دھمک کچا گھڑا آوارگی
کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں
محسنؔ مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی
(فلم: ماٹی مانگے خون،1984 )
٭
(۳)
اتنی مدت بعد ملے ہو
کن سوچوں میں گم پھرتے ہو
اتنے خائف کیوں رہتے ہو
ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو
تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا
ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو
کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے
رات گئے تک کیوں جاگے ہو
میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں
تم دریا سے بھی گہرے ہو
کون سی بات ہے تم میں ایسی
اتنے اچھے کیوں لگتے ہو
پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا تھا
پتھر بن کر کیا تکتے ہو
جاؤ جیت کا جشن مناؤ
میں جھوٹا ہوں تم سچے ہو
اپنے شہر کے سب لوگوں سے
میری خاطر کیوں الجھے ہو
کہنے کو رہتے ہو دل میں
پھر بھی کتنے دور کھڑے ہو
رات ہمیں کچھ یاد نہیں تھا
رات بہت ہی یاد آئے ہو
ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے
اپنی کہو اب تم کیسے ہو
محسنؔ تم بدنام بہت ہو
جیسے ہو پھر بھی اچھے ہو
(ماخذ:کلیاتِ محسن ، ماور پبلشرز لاہور ، اشاعت: 2010ء ، ص: 303)
٭
(۴)
ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی
اس رات دیر تک وہ رہا محو گفتگو
مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی
مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گھل مل گیا وہ شخص
حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی
وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی
سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں
شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی
تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید
سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اسے بھی تھی
محسنؔ میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل
درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی
(ماخذ: بیسویں صدی کی بہترین غزلیں ، ص: 192)
٭
(۵)
میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا
یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو
میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا
ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں
ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دوں گا
وفا کروں گا کسی سوگوار چہرے سے
پرانی قبر پہ کتبہ نیا سجا دوں گا
اسی خیال میں گزری ہے شام درد اکثر
کہ درد حد سے بڑھے گا تو مسکرا دوں گا
تو آسمان کی صورت ہے گر پڑے گا کبھی
زمیں ہوں میں بھی مگر تجھ کو آسرا دوں گا
بڑھا رہی ہیں مرے دکھ نشانیاں تیری
میں تیرے خط تری تصویر تک جلا دوں گا
بہت دنوں سے مرا دل اداس ہے محسنؔ
اس آئنے کو کوئی عکس اب نیا دوں گا
(ماخذ:کلیاتِ محسن ، ماور پبلشرز لاہور ، اشاعت: 2010ء ، ص: 224)
٭
(۶)
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا
یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا
سوچ رہا ہوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ہوا
صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں
مفت میں ہم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ہوا
میرے حال پہ حیرت کیسی درد کے تنہا موسم میں
پتھر بھی رو پڑتے ہیں انسان تو پھر انسان ہوا
اتنی دیر میں اجڑے دل پر کتنے محشر بیت گئے
جتنی دیر میں تجھ کو پا کر کھونے کا امکان ہوا
کل تک جس کے گرد تھا رقصاں اک انبوہ ستاروں کا
آج اسی کو تنہا پا کر میں تو بہت حیران ہوا
اس کے زخم چھپا کر رکھیے خود اس شخص کی نظروں سے
اس سے کیسا شکوہ کیجے وہ تو ابھی نادان ہوا
جن اشکوں کی پھیکی لو کو ہم بے کار سمجھتے تھے
ان اشکوں سے کتنا روشن اک تاریک مکان ہوا
یوں بھی کم آمیز تھا محسنؔ وہ اس شہر کے لوگوں میں
لیکن میرے سامنے آ کر اور بھی کچھ انجان ہوا
٭
(۷)
اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا
اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا
موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی
ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا
تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا
آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے
راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا
زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے
اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا
کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ
دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا
(ماخذ: پاکستانی ادب ، ڈاکٹر امجد رشید ، اکادمی ادبیات اسلام آباد ، 2009ء ، ص: 663)
٭
(۸)
ہر ایک شب یوں ہی دیکھیں گی سوئے در آنکھیں
تجھے گنوا کے نہ سوئیں گی عمر بھر آنکھیں
طلوع صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جائیں کہیں
یہ دشت شب میں ستاروں کی ہم سفر آنکھیں
ستم یہ کم تو نہیں دل گرفتگی کے لئے
میں شہر بھر میں اکیلا ادھر ادھر آنکھیں
شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں
میں زخم زخم ہوا جب تو مجھ پہ بھید کھلا
کہ پتھروں کو سمجھتی رہیں گہر آنکھیں
میں اپنے اشک سنبھالوں گا کب تلک محسنؔ
زمانہ سنگ بکف ہے تو شیشہ گر آنکھیں
(ماخذ: اُردو ادب ، اقبال حسین ، اشاعت: اقبال حسین پبلشرز ، 1996ء ، ص: 59)
٭
کلیاتِ محسنؔ نقوی سے پچاس منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں :
1
مسکرایا نہ کر کہ محسن پر
یہ سخاوت گراں گزرتی ہے
2
جو دوستی نہیں ممکن تو پھر یہ عہد کریں
کہ دشمنی میں بہت دور تک نہ جائیں گے
3
تیرا محسنؔ ملامت کی بارش میں تَر
جرم یہ ہے کہ فنکار ہے اور کیا؟
4
سیلِ خوں اب کے بہت تیز ہے محسنؔ میرے
شہر کا شہر گیا، گھر کی خبر کیا رکھنا
5
شوق سے توڑ دیجے تعلق مگر
راستے کی ملاقات باقی رہے
6
جہنم جھیلنے سے بھی کٹھن ہے
اَنا کو خوگرِ بیداد کرنا
7
ہجر کی رُت عذاب ہے محسنؔ
عادتیں سب بدل گئیں اُس کی
8
بارشِ سنگ میں جب قحطِ نمُو یاد آیا
تیرا سچ بولتا، بے باک لہُو یاد آیا
9
محسنؔ جب بھی چوٹ نئی کھا لیتا ہوں!
دل کو یاد آتے ہیں زخم پُرانے کیوں
10
محسنؔ اُس نے دل کا شہر اجاڑ دیا
میں سمجھا تھا بخت سنورتا جاتا ہے
11
سب سے ہٹ کر ہی منانا ہے اُسے
ہم سے اک بار وہ روٹھے تو سہی
12
محسنؔ غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں
ملبے میں دَب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے
13
نجانے راکھ ہوئی کتنے سورجوں کی تپش
ہماری برف رگوں میں لہو پگھلنے تک
14
دل جو ٹوٹے تو سرِ محفل بھی
بال بے وجہِ بکھر جاتے ہیں
15
شہر کی بھیڑ میں کھلتے ہیں کہاں اُس کے نقوش
آؤ تنہائی میں سوچیں کہ وہ کیا لگتا ہے
16
اِک روز تری پیاس خریدے گا وہ گھبرو
پانی تجھے پنگھٹ سے جو بھرنے نہیں دیتا
17
ہم تو چُپ ہیں مگر زمانے کی
حشر سامانیاں نہیں جاتیں
18
ہم انا مست، تہی دست بہت ہیں محسنؔ
یہ الگ بات کہ عادت ہے امیروں جیسی
19
جب تری دھن میں جِیا کرتے تھے
ہم بھی چپ چاپ پھرا کرتے تھے
20
یوں دیکھتے رہنا اُسے اچھا نہیں محسنؔ
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر، تیری آنکھیں
21
سب اہلِ شہر پھر درِ دشمن پہ جھک گئے
محسن کھلا کہ شہر کی تقدیر ہم نہ تھے
22
کج کلاہوں سے لڑ گئے محسنؔ
ہم بھکاری حسینؑ کے دَر کے
23
نوکِ سِناں پہ کیوں نہ سجے اپنی سرکشی
جُز شہریار شہر میں اپنا عدُو ہے کون؟
24
خوشبو کی سرد لہر سے جلنے لگے جو زخم
پھولوں کو اپنا بندِ قبا کھولنا پڑا
25
محسنؔ تکلفات کی غارت گری نہ پوچھ
مجھ کو غمِ وفا تجھے فکرِ معاش ہے
26
تِری آنکھ کو آزمانا پڑا
مجھے قصہِ غم سنانا پڑا
27
یاروں کی خامشی کا بھرم کھولنا پڑا
اتنا سکوت تھا کہ مجھے بولنا پڑا
28
کتنی عزیز تھی تری آنکھوں کی آبرو
محفل میں بے پیے بھی ہمیں ڈولنا پڑآ
29
کتاب کھول رہا تھا وہ اپنے ماضی کی
وَرق وَرق پہ بکھرتا گیا مرا چہرہ
30
صبح دَم شہر کی شورش تیرے دم سے ہوگی
رات پچھلے پہر عالمِ ہُو میرا ہے
31
آسماں سمجھ رہے تھے اُسے شہرِ جاں کے لوگ
مشکل اتھا اس قدر کہ میرے اپنے فن سا تھا
32
اُن پر تو قرض ہیں مرے حرفوں کے ذائقے
اب جن کو آ گئیں بڑی باتیں بنانیاں
33
آہٹ سنی ہوا کی تو محسنؔ نے خوف سے
جلتا ہوا دِیا تہِ داماں چھپا لیا
34
بستی کے سبھی لوگ سلامت ہیں تو محسنؔ
آواز کوئی اپنے سِوا کیوں نہیں آتی
35
رویا ہے اس قدر کہ اب آنکھیں گلاب ہیں
وہ شخص روٹھ کر بھی نشیلا دکھائی دے
36
مشکل کہاں تھے ترکِ محبت کے مرحلے
اے دل مگر سوال تری زندگی کا تھا
37
جانتے ہیں وہ بے وفا ہے مگر
دل پہ اب اختیار بھی تو نہیں
38
آنکھوں میں ایک اشک ہے باقی ہوائے شام
یہ آخری دِیا ہے اِسے مت بجھائیو
39
کبھی تُو محیطِ حواس تھا، سو نہیں رہا
میں ترے بغیر اُداس تھا، سو نہیں رہا
40
اُسے لُبھا نہ سکا، میرے بعد کا موسم!
بہت اُداس لگا، خال و خد سنوار کے بھی
41
سفر تنہا نہیں کرتے!
سُنو ایسا نہیں کرتے
42
دِیا خود سے بُجھا دینا
ہوا کو اور کیا دینا
43
رَگوں میں زہر بھر لینا
بدن آباد کر لینا
44
کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ
دل پہ اُس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا
45
ٹھہر جاؤ کہ حیرانی تو جائے
تمہاری شکل پہچانی تو جائے
46
راحتِ دل، متاعِ جاں ہے تُو
اے غمِ دوست جاوداں ہے تُو
47
میں شکستہ آئنوں کے شہر میں پھرتا رہا
ہاتھ میں تیرا پتہ، پاؤں میں چبھتی کِرچیاں
48
تو کہ سمٹا تو رگِ جاں کی حدوں میں سمٹا
میں کہ بکھرا تو سمیٹا نہ گیا تیرے بعد
49
خود کشی کو بھی رائیگاں نہ سمجھ
کام یہ بھی ہے کر گزرنے کا
50
اُس کے خال و خد کی تشبیہیں نہ پوچھ
رنگ، رِم جھم، روشنی، رعنائیاں
٭٭٭
حوالہ جات :
(کتابیات)
1۔پیمانہ ٔ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:386
2۔ردائے خواب ، محسن نقوی ، ماورا پبلشرز لاہور
3۔ کلیاتِ محسن ، بک کارنر جہلم
4۔ کلیاتِ محسن (مذہبی کلام )
5۔خطباتِ محسن (تقاریر)منہاج الصالحین لاہور
(سوشل میڈیا /ویب )
1۔ ریختہ ڈاٹ او آر جی ( محسن نقوی )
2۔ وِیکی پیڈیا ( انگلش/اُردو ) ، محسن نقوی
3۔پاک میڈیا ، محسن نقوی
4۔اُردو نظمیں /محسن نقوی، بائیو گرافی
5۔اُردو کلاسک ، فیس بک (گروپ )
6۔ریختہ بلاگ پوسٹ
٭٭٭
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
One thought on “محسن نقوی …تعارف وکلام”
Comments are closed.