مائنڈ چپس – حصہ دوم
نارتھ ڈیکوٹا کیلیفورنیا نے 2007 میں امریکی سینٹ سے ایک بل پاس کروایا جس کے مطابق کسی کو جسم میں مائیکرو چپ لگوانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور یہ قانون امریکہ میں کافی عرصہ تک رائج رہا۔ میرا خیال ہے کہ عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ ہر عظیم کام کی مخالفت اس کام کی اہمیت کو نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے کرتا ہے۔ ایک وقت آئے گا جب انسانی زہنون کو کنٹرول کرنے کے لئے اطلاعات کا جدید تیکنیکی نظام Mass Mind Control Technology کو استمعال کیا جائے گا اور پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کی جگہ یہی ایم ایم سی ٹی MMCT دماغی آلات لے لیں گے۔ کورونا نے انسانی نفسیات اور اعصاب کی قلعی کھول دی تھی۔ حقیقتا ہمارا دماغ یو ایس بی یا میموری کارڈ کی مانند ہے جس پر جو ریکارڈ ہو جائے دماغ اسی کو بار بار دہراتا رہتا ہے۔ دنیا نے کورونا لاک ڈاون میں رہ کر تجربہ کر لیا کہ پوری دنیا کو بھی "میسمیرائیز” کیا جا سکتا ہے۔ کورونا کی طوفانی میڈیا کوریج نے ثابت کر دیا تھا کہ عمومی، انفرادی اور عوامی دماغ کورے کاغذ ہوتے ہیں ان پر جو چاہو لکھ لو۔ اگر دنیا پر "ایک” حکومت قائم نہ بھی ہوئ تو دنیا کے عوام الناس کو کمپیوٹروں اور انہی زہنی چپوں کے ذریعے کنٹرول کیا جائے گا، دماغوں میں نئے اور اپ ڈیٹڈ سافٹ وئیر لگیں گے اور کچھ دماغوں کو چوری یا "ہیک” بھی کیا جا سکے گا۔ گو کہ یہ کلاسیکل ٹیکنالوجی "کورونا” اور انسانی "کلوننگ” کی طرح انسانی بقا کے لئے خطرہ ہے کیونکہ جب یہی ٹیکنالوجی کوانٹم لیول کے نذدیک پہنچے گی تو طاقت کا توازن ختم ہو جائے گا یا پھر کوئ انسان کسی انسان سے برتر بھی ہو گا تو فرق صرف انیس بیس کا ہو گا۔ ممکن ہے یہ واقعہ پچاس سال میں ہو یا پچاس ہزار سال میں مگر ایک مرحلہ پر انسان امن کی جنت میں ضرور داخل ہو گا۔ یہ بھی امکان ہہے دنیا پر "شیطان” غالب آ گیا تو انسان اپنی ہی طاقت کے بوجھ تلے دب کر ختم ہو جائے گا۔ لیکن میں وثوق سے کہتا کہ ہوں انسان کا انجام وہ نہیں ہو گا جو سائنس فکشن پر مبنی مووی "میٹرکس” وغیرہ میں دکھایا گیا ہے۔
بڑے اور عظیم مقصد کے لئے انسانوں کا انتخاب قدرت کرتی ہے۔ کسی بڑے اور عظیم مقصد کا خیال دل میں آئے تو خدا کا شکر ادا کریں کہ خدا نے آپکو اس مقصد کے لئے چن لیا ہے۔
کسی مشکل مقصد کا تعین اور عہد کرنے سے چھوٹی مشکلات میں کمی آ جاتی ہے یا ان مشکلات کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔
انسان کسی بڑے اور عظیم مقصد کے لئے ان طوفانوں سے بھی ٹکرا جاتا ہے جن کا مقابلہ کرنے کے لئے عام حالات میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
ایک بار بڑے اور مشکل مقصد کا ارداہ کر لیں اسکا راستہ خود بخود ہموار ہونے لگے گا۔
ہم جس مقصد پر توجہ مرکوز کرتے ہیں وہ ہماری طرف کھینچا چلا آتا ہے کیونکہ ہمارے دماغ کی لہریں مطلوبہ چیزوں کو مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ ہم زندگی میں جو کچھ حاصل کرتے ہیں وہ ہماری سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ لہذا ہم کچھ بڑا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں جذباتی انداز میں سوچنا ہو گا۔
ایک عظیم مقصد وہ چھوٹے اور آسان کام انجام دینے کا نام ہے
جن کا تعلق ہمیشہ دوسروں کی خوشی سے ہو۔
انسان جس برق رفتاری سے ترقی کر رہا خدا کرے کہ وہ اپنے اجتماعی مقصد کو اپنی "نجات کے لئے مختص کر دے۔
جن خیالات کی لاشعور میں ہم مسلسل پرورش کرتے ہیں وہی ہماری شعوری دنیا میں حقیقت بن کر ابھرتے ہیں کیونکہ ہماری زندگی خیالات کی پیداوار ہے اور ہم وہی کچھ حاصل کر پاتے ہیں جو ہمارے خیالات ہوتے ہیں۔
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب ہم کسی چیز کی گہری خواہش کرتے ہیں اور اسے بار بار سوچتے ہیں تو ذہن ہمیں اس راستے پر ڈال دیتا ہے جس سے مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔
ایک فرد کا ذہن اگر چیزیں دریافت اور ایجاد کر سکتا ہے تو جب مائنڈ چپس کے زریعے ایک دماغ میں بہت سے لوگوں کا ذہن اکٹھا ہو گا تو صرف ذہنی طاقت سے چیزوں کو پیدا اور فنا کیا جا سکے گا۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پے آ سکتا نہیں، محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی (اقبال)۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔