میلاد النبیﷺ تاریخ کے آئینے میں
برصغیر پاک و ہند میں میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس کی باقاعدہ ابتدا کے بارے میں کوئی واضح تاریخی حوالہ نہیں ملا، مگر عمومی طور پر میلاد النبی ﷺ کی تقریبات کا انعقاد مسلمان دنیا میں صدیوں سے ہوتا رہا ہے۔
برصغیر میں یہ روایت مغل دورِ حکومت میں زیادہ نمایاں ہوئی جب میلاد النبی ﷺ کو جوش و خروش سے منانے کی تقریبات کا اہتمام کیا جانے لگا جبکہ جلوس کی باقاعدہ شکل میں نکلنے کا آغاز برطانوی دور کے دوران 19ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے اوائل میں ہوا۔ اس زمانے میں مسلمانوں نے اپنی مذہبی شناخت اور تشخص کو اُجاگر کرنے کے لیے میلاد النبی ﷺ کے جلوس اور جلسے منعقد کرنا شروع کیے جن میں عوامی شرکت بڑھتی گئی۔
میلاد النبی ﷺ منانے کی ابتدا کے بارے میں روایتی اور تاریخی ذرائع میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ابتدائی اسلامی تاریخ میں اہلِ بیتِ اطہار علیہ السلام، صحابہِ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور تابعین نبی اکرمﷺ کی ولادت کا دن عقیدت اور محبت سے یاد رکھتے تھے، لیکن اس کو باضابطہ طور پر جشن یا تقریب کی صورت میں منانے کا رواج بعد میں قائم ہوا۔
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کا باقاعدہ آغاز فاطمی خلافت (جو شیعہ مکتب فکر کی حکومت کہلاتی رہی ہے) کے دور میں ملتا ہے جو کہ 10ویں صدی کے آس پاس مصر میں قائم ہوئی۔
فاطمی حکمرانوں نے رسول کریم و آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ایام کو باقاعدہ منانے کا آغاز کیا، بعد ازاں اہلِ سنت کے حلقوں میں میلاد النبیﷺ کی تقریبات زیادہ مقبول ہوئیں اور 12ویں صدی کے بعد اس کو زیادہ جوش و خروش سے منانا شروع کیا گیا۔
یورپ کے صلیبی حملوں کے دوران مسلمانوں کو متحد کرنے اور ان میں مذہبی حمیت بیدار کرنے کے لیے میلاد النبی ﷺ کی تقریبات کو بڑھاوا دیا گیا، اور اس کے بعد یہ روایت اسلامی دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلتی چلی گئی، یوں میلاد النبی ﷺ کی تقریبات کا آغاز کئی صدیوں پہلے ہوا، اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے منانے کے طریقے اور انداز میں تبدیلی آتی رہی۔
میلاد النبی ﷺ کے جلوس میں رکاوٹ ڈالنے کے حوالے سے تاریخی اعتبار سے کسی خاص شخص یا حکمران کا نام لینا مشکل ہے، کیونکہ مختلف ادوار میں اور مختلف علاقوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر ایسے جلوسوں میں رکاوٹیں ڈالی گئی ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں برطانوی راج کے دوران مسلمانوں کی مذہبی تقریبات اور جلوسوں پر کئی مرتبہ پابندیاں عائد کی گئیں یا رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ برطانوی استعمار نے سیاسی وجوہات کی بنا پر مسلمانوں کی بڑی مذہبی تقریبات کو محدود کرنے کی کوشش کی تاکہ مسلمانوں کے اجتماع کو قابو میں رکھا جا سکے اور کسی قسم کی سیاسی بغاوت یا اتحاد کی فضا پیدا نہ ہو۔
انگریز حکومت نے خاص طور پر 19ویں اور 20ویں صدی میں میلاد النبی ﷺ کے جلوسوں پر کڑی نظر رکھی، اور بعض اوقات ان کو روکنے یا محدود کرنے کی کوشش کی۔
اس کے علاوہ بعض فرقہ وارانہ تنازعات اور اختلافات کی وجہ سے بھی میلاد النبی ﷺ کے جلوسوں میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ کچھ مسلمان فرقے میلاد منانے کی حمایت کرتے تھے جبکہ کچھ اس کی مخالفت کرتے تھے اور ہیں، جس کی وجہ سے مختلف ادوار میں اور مختلف مقامات پر میلاد کے جلوسوں کو روکنے یا ان پر پابندی لگانے کی کوششیں ہوئیں۔ عمومی طور پر برطانوی راج اور فرقہ وارانہ اختلافات کو میلاد النبی ﷺ کے جلوسوں میں رکاوٹ ڈالنے کے اولین عوامل میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس میں رکاوٹ ڈالنے کا کوئی مخصوص اور واضح واقعہ یا شخص تاریخی اعتبار سے نمایاں نہیں ہے، لیکن عمومی طور پر یہ رکاوٹیں مختلف ادوار میں سیاسی اور فرقہ وارانہ وجوہات کی بنا پر سامنے آتی رہی ہیں۔
پاکستان کے قیام کے بعد ابتدا میں میلاد النبی ﷺ کے جلوس بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے نکالے جاتے رہے مگر 1980 کی دہائی میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور بعض حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے مختلف شہروں میں مذہبی جلوسوں کو روکنے یا محدود کرنے کی کوششیں ہوئیں۔
یہ خاص طور پر اُس دور میں زیادہ ہوا جب ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کے دورِ حکومت میں فرقہ وارانہ تنازعات میں شدت آئی اور شیعہ سنی تنازعات سمیت دیگر مذہبی گروہوں کے درمیان اختلافات میں اضافہ ہوا۔ اس دور میں بعض مقامات پر میلاد النبی ﷺ یا دیگر مذہبی جلوسوں کو روکنے یا ان میں رکاوٹ ڈالنے کے واقعات پیش آئے۔ رکاوٹوں کی یہ نوعیت زیادہ تر سکیورٹی وجوہات، فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے یا قانون و نظم برقرار رکھنے کے تناظر میں ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ بعض اوقات علاقائی انتظامیہ یا حکومتی احکامات کی وجہ سے بھی میلاد کے جلوسوں میں رکاوٹیں ڈالنے کی اطلاعات ملتی ہیں۔
میلادِ رسول/ولادتِ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ کے حوالے سے بھی مکتبِ اہلِ تشیع اور مکتبِ اہلِ تسنن میں اختلاف پایا جاتا ہے عمومی طور پر اور اہلِ سنت مؤرخین/اکابرین کے حوالہ جات کے مطابق 12 ربیع الاول کو حضورِِ پاک کا یومِ ولادت مانا جاتا ہے اور میلاد النبیﷺ کا خوشیوں بھرا جلوس نکالا جاتا ہے جبکہ اہلِ تشیع کے مؤرخین/علما کے مطابق 17 ربیع الاول شریف کو حضورِ خاتم النبین ﷺ کا یومِ ولادت مانا جاتا ہے تاہم ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ ملکِ پاکستان میں شیعہ سنی مکاتبِ فکر ملکر 12 ربیع الاول کو رہبرِ دو عالم ﷺکا یومِ ولادت دھوم دھام سے مناتے ہیں۔
یامحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم❤️
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔