عاصم بخاری کی شاعری میں میانوالی کے شاعر و ادیب

عاصم بخاری کی شاعری میں میانوالی کے شاعر و ادیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجزیہ کار
مقبول ذکی مقبول ، بھکر

عاصم بخاری کے اپنی مٹی سے وفاداری سےمتعلق ایک تمہیدی قطعہ قارئین کی بصارتوں کی نذر کرتے ہوئے اپنی تحریر کا آغاز کرتا ہوں ۔
قطعہ
قرض تھا مجھ پہ میری مٹی کا
شکر ہے میں ہوا ہوں اس قابل
شعر میرے وسیب اپنے پر
یہ بھی اعزاز ہو گیاحاصل

عاصم بخاری ایک بیدار مغز اور پر تخیل شاعر ہیں ۔ ان کے ہاں نِت نۓ موضوعاتی شعری تجربے ملتے رہتے ہیں ۔ در اصل یہ ان کی مقامیت ہے حب الوطنی ہے اپنی مٹی سے پیار کے ساتھ ساتھ شعر گوئی پر قدرت کی دلیل اور ثبوت بھی ہے ۔ مقامی موضوعات کو برتنا اور شخصیات و خصوصیات کو موضوع بنانا اتنا آسان کام نہیں ۔ اکثریت مروجہ عنوانات پر لکھ رہی ہوتی ہے مگر یہی تو عاصم بخاری کی موضوعاتی انفرادیت ہے ۔ جوکہ ادبی منظر نامے پر آۓ روز مختلف موضوعاتی و ہیٸتی تجربات پر اکساتی رہتی ہے ۔ جو کہ ان کے ادبی خلوص ، لگن ، شوق ، ریاضت اور ان تھک محنت کا ثمر ہے

عاصم بخاری کے ہاں میانوالی کے اساتذہٕ شاعری کو خراجِ تحسین بھی ملتا ہے ۔ عمر حیات فاروق روکھڑی عالمی شہرت یافتہ اردو غزل گو اور سراٸیکی گیت نگار گزرے ہیں ۔جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں نظمیں کہیں ۔ ان کی خصوصیات کا یوں ذکر کرتے ہیں۔

مہماں نواز تھے بڑے ، حق مغفرت کرے
اک زندہ دل ادیب تھے فاروق روکھڑی
باباۓ تھل کا پایا لقب شہرتیں ملیں
کتنے ہی خوش نصیب تھے فاروق روکھڑی

عاصم بخاری نے کسی بھی شاعر و ادیب کا ذکر کرتے ہوۓ اس کی مجسم تصویر پیش کر دی ہے ۔ اور اس شخصیت کے مزاج کو محاکاتی صورت میں پیش کرتے ہیں۔۔ غلام حسین مجبور عیسی خیلوی بین الاقوامی شہرت کے حامل سراٸیکی گیت نگار اور شاعر تھے ۔ قدرت نے عطا اللّٰہ عیسیٰ خیلوی کی  پر اثر آواز کے ذریعے دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا مگر ان کا اپنا مزاج تھا عالمی شہرت یافتہ ہونے کے باوجود ، شاید ہی کسی مشاعرہ میں انھوں نے شرکت کی ہو ۔اسی بات کو عاصم بخاری کس خوب صورتی سے شعر کے رنگ میں ڈھالا ہے

پڑھنا مشاعرے نہیں حصہ مزاج کا
اپنا شمار بھی صفِ مجبور میں کرو

عاصم بخاری کی شاعری میں میانوالی کے شاعر و ادیب

پروفیسر منور علی ملک اردو انگریزی اور سرائیکی ادب کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔ ان کی شہرت کا آغاز بھی عیسیٰ خیل میانوالی سے ہوتا ہے ۔اردو سرائیکی کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی شاعری کی ۔ان کے مزاج کی سادگی شاعری ۔ یہ بھی سہل ممتنع کی مثال ہے ۔ ان کے اسلوب شعر کے بارے عاصم بخاری یوں لکھتے ہیں۔
قطعہ
میاں والی کا ناز اعزاز تم
ہر اک کہہ رہا ہے منور علی
ترا رنگ تحریر سچ تو ہے یہ
کہ سب سے جدا ہے منور علی

خالد ندیم شانی آج کے شعری منظر نامے پر اوج و کمال پر دکھاٸی دیتے ہیں۔۔ متحرک شخصیت ہیں اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی وطنِ عزیز کی نماٸندگی کرتے دکھاٸی دیتے ہیں ۔ ان کے فن کو کس خوب صورت شعری پیراٸے میں عاصم بخاری نے پیش کیا ہے ۔

شاعر تو سبھی اچھے ہیں وطنِ عزیز کے
خالد ندیم شانی کا لیکن یہ دور ہے
اس کے علاوہ شاعرِ موصوف کی شخصیت کے ایک اور شخصی و سماجی پہلو کا ذکر و اعتراف بڑے خوب صورت لفظوں میں کیا ہے جو کہ ان کے عمیق مشاہدے اور غور و خوض کا حاصل ہے۔
شعر دیکھیں

ہنس کے جینے کا ہے ہنر سیکھا
میں نے خالد ندیم شانی سے
عاصم بخاری شانی سے خاصے متاثر دکھاٸی دیتے ہیں۔ان کی شعری خوبی کا اعتراف یوں کرتے ہیں

مانا ہوں گے ہزار دنیا میں
اس کا ثانی نہ خوش بیانی میں
ولولہ ، جوش ، زندگی پائی
میں نے خالد ندیم شانی میں

پروفیسر رٸیس احمد عرشی میانوالی اردو زبان و ادب کا ایک بہت بڑا حوالہ ہیں۔ املا تلفظ اداٸیگی تذکیر و تانیث اور فنی حوالے سے خصوصاً بالکل سمجھوتہ نہیں کرتے ، اس حوالے سے ان کی عظمت کا اعتراف انتہاٸی مودبانہ انداز میں یوں کرتے ہیں۔

کم یہ اعزاز تو نہیں عاصم
عرشی صاحب سے داد پاتے ہو
محمد محمود احمد۔۔۔ رفتید ولے نہ از دل ِ ما”
فطری و قدرتی شاعر تھے ۔ ان کا تخیل بہت بلند تھا۔ انھوں نے بہت تھوڑے عرصہ میں اردو سراٸیکی شاعری میں عالمی شہرت پاٸی ۔افسوس انھیں مہلت شعر کم ملی ۔ ان کی نا گہانی موت پہ عاصم بخاری اپنی محبت کا اظہار کچھ ایسے کرتے ہیں

تری پہچان دنیاۓ ادب میں
لب و لہجہ ترا محمود احمد
بہت جلدی ہمیں چھوڑا ہے تو نے
یہی تجھ سے گلہ محمود احمد

مظہر نیازی میانوالی کا ایک جان دار حوالہ ہیں ۔ ملک کے طول و عرض میں نماٸندگی کرتے ہیں ۔ اردو سراٸیکی میں ان کا کام قابلِ تحسین ہے ۔عاصم بخاری تبھی تو ان کی ادبی خدمات کے معترف ہیں قطعہ ملاحظہ ہو

راس آیا تمہیں ، ترنم بھی
حصے لفظوں کی دولتیں آٸیں
تم کہ وہ خوش نصیب ہو مظہر
گیتوں غزلوں سے شہرتیں پاٸیں

میانوالی کے آسمان ادب پر ایک نام راحت امیر نیازی کا بھی ہے جنہوں نے نظم و نثر کے ساتھ ساتھ فروغ ادب کے لیے بے مثال خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ جن کی خدمات کا زمانہ معترف ہے ۔ان کے لیے ان کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو۔

عاصم بخاری سادگی جن کی مسلمہ
درویش منکسر ہے جو عجز فقیر ہے
اپنی مثال آپ جو صدق و خلوص میں
خادم ادب کا شہر میں راحت امیر ہے

عرشم خان میانوالی کے ادبی منظر پر تھوڑا عرصہ پہلے نمودار ہوٸے یہ وہ خوش نصیب ہیں جو بہت ہی مختصر وقت میں اپنی سراٸیکی نظم ،، کڈاٸیں وی میڈے خدا نی آکھا کے ذریعے بلندیوں پر پہنچے ۔شعری مجموعے بھی منظر عام پر آ چکے ہیں ۔اردو غزل بھی خوب کہتے ہیں ۔ان کی اس ادبی شہرت کا اعتراف عاصم بخاری شعری روپ میں یوں کرتے ہیں۔

شعر اچھا کہ رہا ہے منفرد انداز سے
آج کل چرچے ہیں عاصم خوب عرشم خان کے

میانوالی میں اردو سرائیکی دونوں زبانوں میں برابر شاعری کی گئی جو ماں بولی اور قومی زبان سے محبت کا ثبوت ہے ۔ اور ماں بولی نے بھی ان شعرا کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ ان میں ایک معروف نام ظہیر مہاروی بھی ہے جس کی نظم گیا ” نیں۔۔۔” نے پذیرائی کا ریکارڈ قائم کر دیا۔اس کو عاصم بخاری یوں خراجِ تحسین پیش کیا

ہے وہ یہ خوش نصیب جس کی ہر طرف ہیں شہرتیں
کمال پر ہے نظم میں سرائیکی ظہیر بھی

عاصم بخآری کے ہاں میانوالی کے شعری منظر کی منظوم اور تابناک شعری مستقبل کی جھلک ملتی ہے ۔ ایک معریٰ نظم میں سمیع نوید ، علی عرفان ، شاکر خان اور ضیا اللّٰہ قریشی کی شعری عظمت و منزلت کا اعتراف کچھ ایسے کرتے ہیں

جدا وکھرا زمانے بھر سے عاصم
سمیع اللّٰہ کا لفظی تقابل
علی عرفان کا عنواں محبت
وہ شاکر خان کا لہجہ مثالی
ضیا اللّٰہ قریشی کی متانت
قلم کاری میں آپ اپنی ہیں پہچاں
میاں والی مری ہے جن پہ نازاں
اگر چہ مزید کافی شعرا ادباء کے حوالے سے ان کے منظومات موجود ہیں ۔حیات باقی تو پھر سہی ۔ مضمون کی طوالت کے خدشہ کے پیش نظر مختصراً اتنا کہوں گا کہ
عاصم بخآری ایک بالغ النظر اور وسیع النظر شاعر ہیں ۔ ان کے ہاں ہمیں عصری شعور و آگہی ملتی ہے۔۔ان کی اپنے ادبی ماحول پر نظر ہے ۔ شاعروں کے ساتھ ساتھ نثر نگاری پر بھی کیا خوب اظہار کرتے ہیں ۔محقق دوراں اور بہترین نقاد
پروفیسرمیاں ارشد حسان کے نام ایک نظم دیکھیں
نظم
ادیبوں میں یہ پختہ کار ، ارشد
ہمارا یار ، یہ دل دار ، ارشد

پتہ دیتا ہے تیری دسترس کا
تری تحریر کا معیار ، ارشد

ترے اسلوب کی دیتا گواہی
ترے الفاظ کا یہ ہار ، ارشد

کہیں یہ تیز تر تلوار سے ہے
تمہارے اِس قلم کی دھار ،ارشد

کیا ثابت ” چراغ ِ فکر ” نے یہ
چھپا رستم بڑا فن کار ، ارشد

تو وابستہ میاں حسان جس سے
بڑا سب سے ، ہے وہ دربار ، ارشد

دعا عاصم کی خالق سے کہ تیری
ہو یوں ہر بات ، پائیدار ، ارشد

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سبھی عنوان میرے

بدھ اکتوبر 9 , 2024
شجاع اختر اعوان نے جب کائنات کی وسعتوں کو دیکھا تو ہر طرف رنگ و نور پھیلا ہوا پایا اور اس کے ساتھ وطن عزیز کے چار خوبصورت موسم پاۓ
سبھی عنوان میرے – ڈاکٹر شجاع اختر اعوان کی تصنیف

مزید دلچسپ تحریریں