میاں صاحب کو انداز سیاست بدلنا ہو گا
ایک انگریزی کہاوت ہے "آپ گھوڑے کو گھسیٹ کر پانی تک لے جا سکتے ہیں مگر اسے پانی پینے پر مجبور نہیں کر سکتے”۔ میاں محمد نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کے لیئے لایا گیا ہے مگر ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ وہ اس بار بھی اپنی معینہ مدت پوری کر سکیں گے۔ دھیرے دھیرے ایک تو میاں صاحب حسب معمول اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ دہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسرا ان کے اندر آمرانہ اور موروثی سیاست دوبارہ نمایاں ہونے لگی ہے۔
جمہوریت اپنی عام اصطلاح میں انتقام کی بجائے برداشت، رواداری اور رائے عامہ کے احترام کا نظام ہے تاکہ اجتماعی سوچ کو منظم کر کے ملک و قوم کے لئے ترقی کی راہ کو ہموار کیا جا سکے۔ لیکن میاں نواز شریف صاحب جمہوریت کے اس بنیادی اصول کو اپنانے کی بجائے خطرناک حد تک اپنی گزشتہ تین حکومتوں کے خاتمہ کا احتساب چاہتے ہیں۔ چاہے اچھی ہو یا بری ہو ہر سیاست دان کی ایک خاص قائدانہ طبیعت ہوتی ہے جسے وہ دہرانے پر مجبور ہوتا ہے۔ میاں صاحب بھی اپنے پرانے سیاسی رویوں کو بدلنے پر تیار نظر نہیں آتے ہیں۔ ملک کا سیاسی اور معاشی عدم استحکام واضح ہے اور حقیقت یہی ہے کہ ان دونوں کا استحکام لازم و ملزوم ہو گیا ہے۔ اب ملک اس بات کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا ہے کہ بار بار عدلیہ اور احتساب کو ایک دوسرے کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے۔
سیاست دانوں کی موجودہ لاٹ میں میاں محمد نواز شریف صاحب سب سے زیادہ تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز لاہور چونگی امر سدھو کے حلقے سے کونسلر بن کر کیا، وہ پنجاب کے وزیر خزانہ اور وزیر اعلی رہے اور تین بار وزیراعظم بنے مگر تینوں بار عہدے سے ہٹائے گئے۔ انہوں نے کافی عرصہ اپوزیشن کی سیاست بھی کی اور دو مرتبہ جلاوطنی بھی کاٹی۔ لیکن سیاست کے ان کٹھن مرحلوں میں انہیں جتنا سیکھنا چایئے تھا اتنا نہیں سیکھا۔ ایک محاورہ ہے، "ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات” (Coming Events Cast Their Shadows Before) وطن واپسی پر میاں صاحب نے لاہور کے استقبالیہ جلسے کے بعد ابھی تک ایک بھی عوامی جلسہ نہیں کیا۔ میاں صاحب کے سیاسی فہم بدلنے کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ وہ عوام میں جانے کی بجائے رائے ونڈ کے محل میں بیٹھ کر ٹکٹوں کی تقسیم کے لئے امیدواروں کو بلا بلا کر "انٹرویو” کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان کو چایئے تھا کہ وہ پارٹی کی تنظیم نو پر توجہ دیتے اور ملک بھر کے عوام سے رابطہ استوار کرتے۔
اگر میاں نواز شریف صاحب اپنی سیاسی بصیرت (Statesmanship) کو بدلنا نہیں چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ اقتدار ان کی جھولی میں ڈالا جائے تو اس جمہوری مشق کا نتیجہ بھی وہی نکلنا ہے جو پہلے نکلتا رہا ہے۔ مقتدرہ سے بھی کیا گلہ اس نے بھی انہی تین بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کسی کو "چننا” ہے وہ کسی گلو بٹ کو تو وزیراعظم لگانے سے رہی۔
شائد مقتدرہ کی بھی کچھ اپنی مجبوریاں ہوں اور ان کے پاس بھی کوئی تیسرا سیاسی متبادل نہ ہو مگر مسئلہ یہ ہے کہ نون لیگ بھی تو میاں نواز شریف کے نام (اور خاندان) سے منسوب ہے جس وجہ سے یہ وفاق کی سطح پر نون لیگ کا کوئی موثر سیاسی بیانیہ نہیں ہے۔ اگر میاں محمد نواز شریف کو ہی چوتھی بار وزیراعظم بنایا جانا مقصود ہے تو انہیں چایئے کہ وہ اپنے اندر انتقامی یا اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی جگہ قومی اور ملکی سطح کی سیاسی اور جمہوری سوچ پیدا کریں۔
میاں صاحب کی واپسی کی سہولت کاری کا یہ مطلب نہیں کہ ملک کو ایک بار پھر ماضی کی سیاسی ڈگر پر دھکیل دیا جائے۔ پرانی سیاسی لڑائیاں اب ختم ہونی چایئے۔ میاں محمد نواز شریف کو اپنا انداز سیاست بدلنا ہو گا۔ جمہوریت کوئی ‘ضد’ ہے اور نہ یہ کوئی ‘وراثت’ ہے۔ میاں صاحب خود کو نہیں بدلنا چاہتے تو پارٹی کی قیادت کو بدل دیں۔ معاشی حالات اتنے بدتر ہیں کہ فوج اور سول کا جھگڑا بنتا ہی نہیں ہے۔ زندگی کے ہر شعبے کی از سر نو تشکیل، عوامی مسائل کے حل اور بہتر گورننس کے سوا اب کوئی چارہ نہیں ہے۔ میاں محمد نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب دیکھنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہئے کہ اس بار موقع ملتا ہے تو ملک کو بہتر اور لانگ ٹرم پالیسیاں بنا کر کیسے چلانا ہے۔
Title Image Courtesy World Economic Forum
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔