میری طرف ضرور ہے خیر الورٰی کا رُخ
تبصرہ نگار:۔ سعادت حسن آس اٹک شہر
یہ مصرع محمد داود تابش کی نٸی کتاب ” درِ بتول ” سے لیا ہے جو حال ہی میں جلوہ افروز ہوٸی ہے اور یہ داود تابش کی غالباً چوتھی تخلیق ہے اس میں ان کا سارا کلام اپنے اندر عقیدتوں اور محبتوں کو سمیٹے ہوٸے ہے اس کتاب پر تابش صاحب دلی مبارک باد کے مستحق ہیں اس میں یش کیے گٸے تمام گلہاٸے عقیدت اپنی مثال آپ ہیں اس سے قبل ان کا نعتیہ مجموعہ ” ہر بات ہے روشنی” نظروں سے گزرا جوں جوں ان کی عقیدت کا سفر تخلیقی زینے عبور کرتا جا رہا ہے ان کے کلام میں دن بدن ندرت آتی جا رہی ہے
یہ بات ہرگز نہیں کہ انسان نبی پاک ﷺ کی محبت اور مودت میں انعات تو لکھے مگر ان کی آل کی محبت سے چشم پوشی کرے نعت گو شاعر ایسا ہرگز نہیں کر سکتا میں سمجھتا ہوں جب تک کسی شاعر پر نور کی برسات نہ ہو تب تک وہ نعت گو نہیں بن سکتا کیونکہ نور کی کرنیں جب تک کلام پر نہ پڑیں انسان کی تحریر روکھی اور
بے جان ہوتی ہے یا یوں کہیے کہ نعت ایک جسم ہے اور اس کا لبادہ وہ نوری کرنیں ہیں جو الہام کے ساتھ مل کر کلام کو لباس اور بالیدگی عطا کرتی ہیں
نعت کی تخلیق ہر ایک شاعر کے بس کی بات نہیں نعت لکھنا خالصتاً اذنِ رب ہے اس میں نبیﷺ پاک کی چشمِ کرم کا ہونا بہت ضروری ہے یہ عمل وہی شعرا کر سکتے ہیں جو پروردگار کے منظورِ نظر ہوتے ہیں جن پر پروردگار کا انعام ہو وہی اس منزل کی طرف گامزن ہوتے ہیں
محمد داود تابش ضلع اٹک کے ہونہار لکھاری ہیں جو اپنے نام کی لاج نبھاتے جا رہے ہیں داود تابش کو شاعری کے علاوہ موسیقی پر بھی عبور حاصل ہے ان کا یہ وصف بھی خداد داد صلاحیت ہے وہ نہ صرف نعت گو شاعر بل کہ ایک بہترین نعت خوان بھی ہیں ان کی یہ خوبی ان کے نام کی ترجمانی کرتی دکھاٸی دیتی ہے
رہی بات تابش کی تو میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی کلام کی کامیابی کا دار و مدار تابش پر ہے اسی تابش سے تجلی ٕ نور، اور دلکشی و رعناٸی مستنیر ہوتے ہیں جو شاعری میں الہام کی صورت میں شاعر پر وارد ہوتے ہیں
اگر شاعر کا کلام ندرت سے خالی ہو تو اس کی تحریر پھیکی اور بے جان ہوتی ہے کیونکہ قافیہ پیماٸی یا بحور پر صرف دسترس حاصل کر لینے والا شاعر شاعر تو کہلا سکتا ہے مگر کامیاب شاعر کبھی نہیں بن سکتا اس کی شاعری کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے
نعت گو شاعر جو کچھ بھی تحریر کرتا ہے اس کے پیچھے ایک چشمِ کرم ہوتی ہے جو اسے فانی نہیں ہونے دیتی اس کی طلبِ صادق اسے محبت سے مودت کے درجے پر فاٸز کر دیتی ہے
اسے اپنے محبوب کی ہر ادا اس حد تک عروج پر پہنچا دیتی ہے کہ وہ نہ صرف اس کے ہر عمل سے محبت کرتا ہے بل کہ اس کے دوستوں اس کے رفقاٸے عزیز اور اس کی آل سے محبت کرنا بھی اس کا لازمی جزو بن جاتا ہے
محمد داود تابش کی نٸی کتاب میں وہ سب عناصر موجود ہیں جو ان کی مودت کا منہ بولتا ثبوت ہیں
اگر جذبہ صادق ہو تو الہام کی صورت میں ایسے ایسے صداقت پر مبنی مضامین اترتے ہیں جن کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا
اگر شاعر کے اندر نعت لکھنے کی صلاحیت آ جاٸے تو اس کی مبالغہ آراٸی سے جان چھوٹ جاتی ہے اس کی غزل میں بھی نعت کا رنگ غالب آ جاتا ہے داود تابش کے کلام میں ایسی بھی مثالیں موجود ہیں
کوٸی بھی اچھا شاعر ہو تو اس کے چاہنے والوں سے زیادہ اس کے حاسد ہوتے ہیں اور یہی اس کے اچھا ہونے کی دلیل ہے کسی شاعر نے داود تابش جیسے شاعر کے لیے کیا خوب کہا ہے کہ
تنقید کر کے میرے ہنر کی اڑان پر
تسلیم کر رہا ہے وہ میرے مقام کو
اس ضمن میں محمد داود تابش اپنی کتاب درِ بتول پر دلی سپاس کے مستحق ہیں میں انہیں اٹک کے تمام لکھاریوں کی طرف سے مبارک باد پیش کرتا ہوں
درِ بتول سے چند اشعار ملاحظہ فرماٸیے:۔
روزِ جزا ملے گی اسے قربتِ حضور ﷺ
کثرت سے پڑھ رہا ہے جو سرکار ﷺ پر درود
خواب میں آپ ﷺ کی شہِ والا
دیکھ لوں ساتھ آل کی صورت
میں ہوں دربارِ شہِ ﷺ کون و مکاں کا شاعر
اپنی اس عہد میں قیمت میں سمجھ سکتا ہوں
کوٸی دیکھا نہیں چشمِ افلاک نے
تیرے حسین سا سیدہ فاطمہ
ان کے علاوہ منقبت کی صورت میں جن جن ہستیوں کو داود تابش نے اپنی کتاب کی زینت بنایا سبھی تحریریں قابلِ ستاٸش اور پیاری ہیں دعا گو ہوں کہ پروردگار آپ کی توفیقات میں مزید اضافہ فرماٸے۔
آمین
سعادت حسن آس
اٹک شہر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔