یہ موضوع آج کا جدید نہیں بلکہ صدیوں سے زیرِ بحث ہے , اور پورا زور یہ ثابت کرنے میں صرف کیا جا رہا ہے کہ دونوں میں سے کون زیادہ مظلوم ہے ؛ میں نے اس کا خالصتاً منطقی انداز میں جائزہ لینے کی کوشش کی ہے ,
سوال یہ ہے کہ کیا تمام مرد برابر ہیں؟ کیا تمام عورتیں برابر ہیں؟ تو یقناً جواب یہ ہو گا کہ علم , مرتبے , صلاحیت کے اعتبار سے بالکل بھی برابر نہیں ہیں , حتیٰ کہ تمام انبیاء بھی برابر نہیں ہیں تو پھر مرد و عورت برابر کیسے ہو سکتے ہیں ؟
اگر جنسی حوالے سے بات کی جائے تو کیا فرق بالکل واضح نہیں ہے، آسان ترین مثال : کپڑے دھونے اور خُشک کرنے کی مشین آپس میں جُڑی ہوتی ہیں اور دونوں پر لفظِ مشین بھی صادق آتا ہے , مگر ایک کا کام دھونا اور دوسری کا کام خُشک کرنا ہے , بعینہ مرد و عورت دونوں پر لفظِ انسان تو صادق آتا ہے , مگر دونوں کی صلاحیتوں میں واضح فرق ہے , دونوں کی افادیت اپنی اپنی جگہ مُسلَّم ہے مگر الگ الگ —
زندگی کا اگر فطری تقاضوں پر تجزیہ کیا جائے تو مرد جَبِلّی طور پر مثلِ منزل ہے یعنی کہ عورت کے فطری تقاضوں کی منزل …….
جِنسی اعتبار سے مرد اور عورت کے درمیان زندگی اور محبت کا رشتہ ہے , زندگی محبت کے بغیر نامکمل اور محبت زندگی کے بغیر ادھوری ….. عورت محبت ہے اور مرد زندگی ….. زندگی محبت کے بنا نفرت انگیز ہے اور محبت زندگی کے بغیر بے نام ونشاں — اس کی آسان مثال مگس یعنی شہد کی مکھی اور پھول کی سی ہے , شہد کی مکھی کی زندگی اس میں ہے کہ پھولوں کا رس چُوسے , اور پھول کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ خُوش دلی و مسرت سے مگس کو اپنا رس دے , پس مگس کے لیئے پھول سرچشمہءِ حیات ہے , اور پھول کا رس محبت و مسرت و سکون کا قاصد , تو یوں جنسی حوالے سے مردوعورت کا رشتہ باہمی احترام کا متقاضی ہے ,
اگر حقوق کے حوالے سے بات کی جائے تو, حقوق تو بس حقوق ہوتے ہیں , حقوق مساوی یا برابر کیسے ہو سکتے ہیں , حقوق تو اس کائنات کی ہر ذی روح شے کے ہیں , انسانوں کے درمیان , والدین کے حقوق , بیوی کے , شوہر کے , بچوں کے , اساتذہ اور طلباء کے …. غرضیکہ معاشرے کے تمام افراد کے حقوق ہیں , کیا سب کے حقوق برابر ہو سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں , یہ برابری تو معاشرے کے توازن کو بگاڑ دے گی , میرے خیال میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ حقوق کی بات تو سبھی کرتے ہیں , مگر فرائض کی ادائیگی میں سب کوتاہ ہیں ,
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے میں برابری کا تصور کیوں پیدا ہوتا ہے ؟ میرے ناقص خیال میں یہ خواہش استحصال سے جنم لیتی ہے , اور استحصال عدمِ خُود شناسی سے وقوع پذیر ہوتا ہے ہم میں سے بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جسم اور روح کے بنیادی ترین تعلق اور اہمیت کے بارے میں جاننے کے متمنی ہوتے ہیں , جو اپنی ہستی میں چُھپے انسان کا کھوج لگانے کے خواہشمند ہوتے ہیں ,
یہ جسم مٹی , آگ , ہَوا , پانی کا مرکب بالکل جنگلی و وحشی جانور کی مثل ہے , جو اپنے مرکب کی وجہ سے اپنی جسمانی خواہشات کے تابع ہے , اور روح جوکہ سراپا پاکیزگی و نور ہے , اس جسم کو نکیل ڈالتی ہے , روح جوکہ امرِ ربّی ہے , اگر اس کو امرِ ربّی کے تابع رکھا جائے تو طاقتور ہوتی ہے ,اور جسم کو بھٹکنے اور وحشی پن سے روکتی ہے ……
ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیئے کہ عورت یا مرد کی آزادی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جسم و روح کو الگ الگ کر کے آوارہ چھوڑ دیا جائے , آزادی بھی درحقیقت پوشیدہ مگر محسوس کی جا سکنے والی زنجیر ہے , فطری اور جَبِلّی حدود و قیود اور قوانین کی پاکیزہ زنجیر ……. کوئی بھی فرد جب بھی ان حدود کی خلاف ورزی کرے گا وہ اپنے نفس کو زخمی اور مجروح کرے گا , اور ذلّت و بدی کی غلامی میں جکڑا جائے گا …….
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ روح کے معالج/معلمین/علماء اپنا اہم ترین کردار ادا کریں , مگر افسوس کہ اُن کی تو اپنی واضح اکثریت خُود خواہشاتِ نفسانی کے تابع ہے , اور سارے بگاڑ کی بنیادی ترین وجہ بھی شاید یہی ہے , ………….. اگر مرد خُود کو مہربان , پُرسکون , پاکیزہ منزل ثابت کر دے , تو یقیناً عورت اور بچے خُود کو پُرسکون اور محفوظ تصور کریں گے , اور اگر عورت خُود کو سراپا محبت و مسرت بنا لے تو پھر برابری کا یہ جھگڑا خُود بہ خُود ختم ہو جائے گا ………
سیّد مونس رضا
معلم، مدبر، مصنف
ریٹائرڈ او رینٹل ٹیچر
گورنمنٹ پائیلیٹ ہائر سیکنڈری اسکول
اٹک شہر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔