آٹھ اکتوبر 2005 کی یادیں
محمد ذیشان بٹ
مصروف تھے سب اپنی زندگی کی الجھنوں میں
ذرا سی زمین کیا ہلی ، سب کو خدا یاد آ گیا
قوموں پر مشکلات آتی ہیں اور زندہ قومیں اس کا مقابلہ جواں مردی سے کرتی ہیں اور اپنے بعد میں آنے والوں کے لیے مثال بن جاتی ہیں ویسے تو ملک عزیز آغاز سے ہی نازک حالات سے گزر رہا ہے ۔ لیکن آٹھ اکتوبر 2005 کا دن پاکستان کی تاریخ کا سب سے مشکل ترین دن تھا ۔ صبح بالکل عام دنوں جیسی ہی تھی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ہماری تاریخ کا یہ ایک ڈرونا ترین دن بن جائے گا جس جس نے وہ دن دیکھا ہے اس کی ایک ہی دعا ہوگی کہ یہ دن کسی دشمن پہ بھی آئے
گورنمنٹ ڈگری کالج کا طالب علم تھا ، صبح پہلے پیریڈ میں دیر ہوگی استاد محترم سے عزت افزائی کرانے کا ارادہ نہیں تھا اس لیے لان میں بیٹھا پہلا پیریڈ گزرنے کا انتظار کر رہا تھا کہ 8:50 پر زور دار جھٹکا لگا ۔ خود کلامی کرتے ہوئے کہا کہ بٹ صاحب گھر جاؤ اور نیند پوری کرو پڑھ لیتا تو سی میںتھ ۔ اچانک سامنے روشن دان پر لگے شیشے ٹوٹے ہر طرف گھبراہٹ کا عالم تھا شور تھا زلزلہ ،زلزلہ ۔ پاکستان کی تاریخ کا شدید ترین زلزلہ تھا جس نے 1935 میں آنے والے تباہی کن زلزلے کا بھی ریکارڈ توڑ دیا ۔ ہمت تھی ان بزرگ اساتذہ کی جنہوں نے دوبارہ طلبہ کو کلاسوں میں بٹھا کر پڑھائی کا آغاز کروا دیا لیکن جو جانا چاہ رہے تھے ان کو روکا بھی نہیں ۔ کلاسوں میں میری طرح کسی کا دل نہیں لگ رہا تھا ۔ اچانک ایک دوست کے نمبر پر فون آیا کہ اسلام اباد میں مرگلہ ٹاور گر گیا ہے ۔ یہ سننا تھا کہ میں بھی کلاس سے نکلا اور گھر کی طرف بھاگا یہ سوچتے ہوئے کہ ہمارے گھر تو آثار قدیمہ کے ہیں ان کا کیا بنا ہوگا ۔ بنی پہنچا تو والد گرامی سامنے سے آرہے تھے کہ تیرا ہی پتہ کرن جا ریا ساں ۔ گھر جانے سے پہلے وہاں کی خیریت معلوم ہوئی تو قریب ہی بہن کے گھر کی طرف چل پڑا ۔ بے چینی اپنے عروج پہ تھی قریب پہنچا تو گلی میں بزرگ خواتین اور معصوم بچے کلمہ پاک کا ورد کر رہے تھے دل کو اطمینان ہو گیا بہن بھائی نے ایک دوسرے کو دیکھا تو تسلی ہوئی ۔ ٹی وی لگایا تو پتہ چلا کہ اصل قیامت تو کشمیر اور خیبر پختون خواہ میں آئی ہے ۔ پورے پورے علاقے زمین بوس ہو چکی ہے اچانک جو رئیس تھے وہ فقیر ہو گئے تھے ۔ گھروں میں لاشیں ہی لاشیں تھیں ۔ تدفین کرنے کے لیے گھر کا ایک فرد بھی نہیں تھا ۔ لیکن آسمان نے وہ منظر بھی دیکھا کہ پوری قوم کچھ دنوں کے لیے ہی سہی ایک تھی ان دنوں میں نہ کوئی پٹھان تھا نہ پنجابی نہ وہابی تھا نہ شیعہ نہ کوئی ہندو تھا نہ عیسائی ہر آنکھ اشکبار تھی ۔
پورے پاکستان سے جو ہو سکا سب نے کیا جہاں مدد کا اعلان ہوا وہاں پاکستانیوں نے لبیک کہا ۔ پھر مدد چاہے مال سے ہو ، جان سے یا ہمدردی کرنے سے کوئی بھی پیچھے نہیں ہٹا ۔ وہ شاید واحد موقع تھا جب ہمارے میڈیا نے بھی مثبت کردار ادا کیا ۔ ہر فنکار نے ہر کھلاڑی نے خود تعاون کیا لوگوں کو بھی احساس دلایا کہ اللہ کریم کا بہت احسان ہے کہ آج بھی ہم مدد کرنے والوں میں سے ہیں وہ چاہتا تو ہم پر بھی یہ وقت لا سکتا تھا۔ ہاں یہاں ہمارے رل طبقے کا ذکر نہ کرنا بڑی زیادتی ہوگی کچھ دن کے لیے ہی ان کے دلوں میں بھی خوف خدا بیٹھ گیا ان کے لباس اور انداز میں واضح تبدیلی آئی ۔ پوری دنیا نے پاکستانی قوم کی یکجہتی کی تعریف کی یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہندوستان سمیت پوری دنیا نے پاکستانیوں کی مدد کی امریکہ میں بیٹھے دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹ جو یہ سوچتا ہے کہ ساری دنیا اس کی تھی ان جیسوں سے بھی اللہ نے کشمیر کے لوگوں کی مدد کروائی افسوس پاکستانی قوم کی یکجہتی کچھ ہی دن کے لیے تھی جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ان علاقوں میں زندگی بہتر ہوئی ہم سب بھول گئے اور اپنے دنیا کے معاملات میں مصروف ہو گئے پھر وہی کینہ ، بغض عداوت ، تعصب ہر جگہ نظر آنے لگا ۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے دلوں کو بھی ایسے جھنجوڑ دے کہ ہم پھر سے ہمیشہ کے لیے ایک ہو جائیں اور یہ ملک امن کا گہوارہ بن جائے اور پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہو ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تمام مسلمانوں سمیت پوری دنیا کو اپنی عافیت میں رکھے زلزلے اور دوسری قدرتی آفات سے محفوظ رکھے آمین
محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔