تبصرہ نگار: اقبال زرقاش
مہر النساء مہر جو مہر جمالی کے نام سے شناخت رکھتی ہیں روشنیوں کے شہرکراچی کی طرح رنگ و نور کا استعارہ ہیں۔گھر گھرہستی سے لے کر درس گاہ تک اور درس گاہ سے کار سرکار کے فرائض منصبی کے نباہ تک،سماجی اختیارات سے لے کر سرکار ی اختیارات تک اور جمالیات سے لے کر ادبیات تک ایک ہمہ جہت شخصیت اور بے مثال شاعرہ کے درجہ پر فائز نظر آتی ہیں۔اعلیٰ تعلیم، سماجی و سرکاری رتبہ، خدمت خلق، ادب و ثقافت سے وابستگی،جمال حیات سے انکشاف ذات تک ان کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔روشنی کو عام کرنے اور رنگ ونور سے عامتہ الناس کے استفادے کے لیے ان کا شمار دل جلا کر سرعام رکھ دینے والوں میں ہوتا ہے۔
شاعری مہر جمالی کے لیے اظہار ِذات کا ایک ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کی عام فہم سادہ اور سیدھے سبھاؤکے قالب میں پیش کیا ہے۔ محبت کا سفر اُن کا اولین شعری مجموعہ ہے جس میں تہتر غزلیں،چار نظمیں، ایک حمد ایک نعت اور ایک قومی نغمہ شامل ہے۔ ایک سو چھتیس صفحات کو محیط اس شعری مجموعہ میں زیب ازکار حسین، پروفیسر رضیہ سبحان، پروفیسر ڈاکٹر ریئس احمد صمدانی کی تقاریظ جبکہ اسحاق ساجد، مرید عباس، خاور شکیل اور ڈاکٹرا نور زیدی کی آراء شامل ہے۔
مہر جمالی نے خوبصورت بحور، مناسب اوزان اور عروض کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ذات اور عرفان ذات کی گُھتیوں کو سلجھانے اور داخلی جذبات اور احساسات اور معاملہ بند ی کے بیانات کو جانی پہچانی زمینوں میں اظہار کا وسیلہ بنایا ہے۔رعائیت، لفظی تکرار،لفظی سہل ممتنع محاورات کا استعمال، تلمیحات کا خوبصورت بیان مہر جمالی کا خاصا ہے۔ غم جاناں اور غم دوراں، جذبات کی ترجمانی، جدت طبع، حسن ادا اور ندرت بیان، محبت، عورت،مناظر فطرت،معاشرتی جبرواستحصال، سماجی و معاشرتی روئیے اور وہ سب کچھ جو خوبصورت شاعری کے لوازم ہوتے ہیں مہر جمالی کے محبت کے سفر میں نمایاں نظر آتے ہیں۔
مہر جمالی نے جہاں خوبصورت تراکیب استعمال کی ہیں وہاں ڈرامائی انداز، منظر نگاری اور موسیقیت کا اہتمام بھی کیا ہے۔ ان کی بحریں مترنم اور قافیہ ردیف میں صوتی آہنگ پایاجاتا ہے۔ مہر جمالی نے جدت اور روائیت کو ہم آہنگ کرتے ہوئے غزل کے کلاسیکی رنگ کو متاثر نہیں ہونے دیا اور غزل کی روایت کو اظہار ذات کا وسیلہ بنایا ہے۔
مہر جمالی کے یہ اشعار دامن دل کھینچتے نظر آتے ہیں۔
؎ درویش نے دروازہ بجا کر یہ کہا کل
اس گھر مین پرندوں کے لیے کوئی شجر ہے
؎اس بار مختصر ہی ہوئے خود سے ہم کلام
اس بار آئینے کو سنورنے نہیں دیا
؎ملتے ہیں کئی لوگ مگر اس سے مجھے کیا
میری خوشی تو آپ کا دیدار ہے سائیں
؎اس دل میں کوئی اور تو رہتا ہی نہیں اب
آ دیکھ تیرے بعد یہ ویران پڑا ہے
؎عالم خواب سے نکلیں گے تو روئیں گے بہت
نیند ٹوٹے گی تو لوگوں یہ قیامت ہو گی
؎یہ ترک تعلق نہیں ہے تو کیا ہے
وہ دُشمن کی باتوں پہ ہاں کر رہے ہیں
؎تو نے دیکھا نہیں دل میں کبھی شام کا ڈر
کھا گیا مجھ کو مرے ہجر کے انجام کا ڈر
؎ہم محبت میں تیر ا نام بھی لینے سے رہے
ہم کو بدنام نہ کردے یہ ترے نام کا ڈر
؎نہیں نہیں یہ کسی اور کی زباںہے مہر
نہیں نہیں یہ آپ کا انداز گفتگو ہی نہیں
؎چلے جانا ابھی ٹھہروذرا تم
یہ دل کچھ فیصلہ کرنے لگا ہے
اقبال زرقاش
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔