فکر و نظر کے پھول جب غزلیہ آہنگ اختیار کرتے ہیں تو درد اور آہ غزل کی روح میں آبشاروں کی طرح گرتے ہیں اور جب یہی درد غزل سے کشید ہو کر نعتیہ رنگ اختیار کرتا ہے تو جذبوں کی شدت، فکری نظافت اور ندرت میں ڈھل کر آقاؐ پاک کے اطہر دربار میں لے جاتا ہے جہاں انسان عشقِ رسولؐ میں کیف و مستی کی کوثر سے فیض یاب ہوتا ہے اور اسے نعت عطا ہوتی ہے نعت گو شعرا اللہ کریم کے پسندیدہ افراد ہوتے ہیں جن کو اللہ رب العزت اپنے فضل سے نوازتا ہے ان خوب صورت طینت افراد سے ایک حافظ عبدالجلیل بھی ہیں جنہیں نعت کی دولت سے مالا مال کیا گیا۔
حافظ محمد عبدالجلیل الحاج خلیل گُل کے گھر تحصیل جنڈ کے محلہ لنگر خانہ میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتداٸی تعلیم گورنمنٹ پراٸمری سکول پی اے ایف بازار کوہاٹ اور گورنمنٹ ہاٸی سکول نمبر 3 کوہاٹ میں حاصل کی جہاں ان کے والد پاکستان ریلوے میں ملازم تھے
گورنمنٹ ہاٸی سکول جنڈ سے 1975 میں میٹرک کیا۔اس دوران مدرسہ دارالعلوم غوثیہ جنڈ سے اپنے شفیق اساتذہ محترم الحاج قاری کرم الٰہی اور محترم حافظ قاری رب نواز کی زیر سرپرستی حفظِ قرآنِ کریم مکمل کیا۔ گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج کوہاٹ سے 1980 میں گریجوٸیشن کی۔اس دوران 1984 میں مرکزی دارالقرإ بہادریہؒ کوہاٹ میں قاری المقری سید گلفام شاہ ؒ سے تجوید و قرأت کی سند حاصل کی۔ بعد ازاں پشاور یونیورسٹی سے 1985 میں ایم۔اے اسلامیات، 1988 میں ایم۔اے اُردو , 1998 میں ایم۔اے تاریخ اور 2002 میں بی۔ایڈ کیا۔اس دوران 1982 میں پاکستان ریلوے کنکریٹ سلیپر فیکٹری میں بطور سینٸر کلرک ملازمت اختیار کی 37 برس بعد گریڈ۔16 میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے اس دوران 1998 سے 2019 تک سر سید کالج آف ایجوکیشن کوہاٹ میں بی۔ایڈ کلاسز اور کوہاٹ لا کالج میں ایل۔ایل۔بی کلاسز اور درایں اثنإ الخیر یونیورسٹی کوہاٹ کیمپس میں ایم۔ایڈ کلاسز کو بطور وزیٹنگ فیکلٹی پڑھاتے رہے درایں اثنإ چند سال مرکزی دارالقرإ بہادریہؒ میں بطور مدرس پڑھاتے رہے۔ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنے آباٸی شہر جنڈ میں آ گئے اور آجکل جامع مسجد غوثیہ جنڈ میں خطابت اور جامعہ ضیإ الکرم للبنات جنڈ ( شاخ جامعہ محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف ) میں تدریس کے فراٸض انجام دے رہے ہیں
مشقِ سخن میں اپنے معروف شاعر و ماہرِ تعلیم جناب پروفیسر محمد اسلم فیضی اور معروف نعت گو شاعر” قومی سیرت ایوارڈ یافتہ” اشفاق احمد غوری سے اصلاح لیتے ہیں۔
یہ نعتیہ رنگ ذاتی کاوش سے ممکن نہیں ہوتا بلکہ اللہ رب العزت کی ذات ایسے قدسی صفات کے حامل انسانوں کو الہام کی رم جھم میں نوازتا ہے اور اُس شخص پر ہمارے آقاؐ جو روحِ مصور ہیں ، جو مرسلِ داور ہیں ، جو مالکِ زلف معنبر ہیں ، جو اشرف واکمل ہیں، جو احسن و اجمل ہیں، جو احمدِ مرسل ہیں جو مظہرِ اول ہیں، جو قلبِ مجلی ہیں، جو والی ء مہر نبوت ہیں، جو وارثِ مہر رسالت ہیں، جو مہر جلالت ہیں، جو عین عدالت ہیں، جو خضر و ولایت ہیں جو قسیم و جسیم ہیں، جو تسنیم و وسیم ہیں، جو روف و رحیم ہیں،جو خلیل و حکیم ہیں، جو حاملِ قرآں ہیں جو باطنِ قرآن ہیں، جو مظہرِ رحمت ہیں، جو مصدرِ راحت ہیں، جو مخزنِ شفقت ہیں، جو عین عنایت ہیں، جو مظہرِ انوارِ حق ہیں جو مصدرِ اسرار حق ہیں، جو ہادی روشن ضمیر، جو خواجہ بیکس نواز ہیں، جو بشر القوی ہیں، جو خیرالورٰی ہیں، جو محب الورٰی ہیں وہ اپنی نگاہِ کرم کرتے ہیں تو وہ شخص نعت کے بیکراں سمندر سے صوتی یاقوت و مرجان اور لولو جیسے گوہر نایاب حاصل کرتا ہے اور ہماے آقاؐ پاک اُسے ایک عجیب کیف و طرب اور سر مستی عطا کرتے ہیں
ایسے شخص کو جب مودت اور عشق باہم مل جاتے ہیں تو دستِ قدرت قرارِ بے قراراں سے روشنی، چاشنی ،خوشبو، طمانیت، روح میں بالیدگی، محبوب خدا کا دامن اور نہ جانے کیا کیا وصف عطا کرتا یے جس کا اظہار وہ اپنے نگار خانہ ء شعر میں ڈھلے فن پاروں کے عکس ہائے جمیل سے یوں ظاہر کرتے ہیں:۔
مرے ہاتھوں نے تھاما ہے ترے محبوبؐ کا دامن
جلیلِ بےنوا پر کیا یہی احسان کم تیرا
دربارِ مصطفٰی صلٰی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سخاوت کے کرشمے دیدنی ہوتے ہیں جہاں دنیا کے سلطان بھی ادنٰی گدا گر بن کر سوال کرتے ہیں اور فیوضِ نبویؐ سے برکات ،بخشش اور علم و عرفان کی خیرات حاصل کرتے ہیں جب روحانی طور پر شعرا اپنے وجدان کو درِ نبیؐ پر لے کر جاتے ہیں تو وہ عشقِ رسولؐ سے منور ہوتے ہیں الہامِ کلام کی وجہ سے
حبیبِؐ خدا کے عشق سے آشنا ہوتے ہیں تو جدتِ خیال کے ریشمی تبسم کو لطیف حسن و رعنائی کے ساتھ قرطاس پر ایسے نقش کرتے ہیں جیسے حافظ عبدالجلیل نے یہ اشعار نقش کیے ہیں :۔
محبوب کے قدموں میں اک سیل رواں دیکھا
ہاتھوں میں لیے کاسہ ہر پیر و جواں دیکھا
عُشاق چلے جس دم سرکار کے روضے سے
آنکھوں میں جھڑی دیکھی دل گریہ کناں دیکھا
معراج پر بہت کچھ لکھا گیا اور ہر شاعر نے اپنے اندازِ فکر سے روشنی کشید کر کے معراج پر کلام لکھا ہے لیکن حافظ صاحب چونکہ عالم دین بھی ہیں اس لیے قرآن و حدیث کے دائرے میں رہ کر بہت خوب صورت شعر لکھا ہے جس میں سہل ممتنع بھی ہے اور معراج کا اختصار بھی ہے صنعت تلمیح کا خوب صورت استعمال بھی یوں کیا ہے :۔
اقصٰی میں سارے مرسلیں سدرہ پہ تھے روح الامیں
سب دیکھتے ہی رہ گئے اوجِ کمال آپؐ کا
جب شمائل و جمال وخصالِ مصطفیؐ کی درخشاں گفتگو ہو تو آپ ہی خاصہ کردگارؐ، شافع یومِ قرارؐ، صدرِ انجمنِ لیل و نہارؐ، مدنی تاجدارؐ، سیدِ ابرارؐ، احمدِ مختارؐ، حبیبِ غفارؐ، محبوبِ ستارؐ، ،، آفتابِ نو بہارؐ ہیں جن کی آمد سے کائنات روشن ہو گئی اللہ رب العزت نے آپؐ کی میلاد پر پورے جہان کی عورتوں کو اولادِ نرینہ سے نوازا صنم کدوں کے بت گر گئے فضائیں مرحبا مرحبا کی صداوں سے گونج اٹھیں تیرگی ضیا میں بدل گئی دروغ گوئی کے رسیا حق گوئی و بیباکی کے علمبر دار بن گئے حضورؐ کی آمدِ پر نور کو شعر کی نزاکت میں حافظ صاحب نے کتنی حسن و رعنائی سے زینتِ قرطاس کیا ہے ملاحظہ کیجیے:۔
آئے مرے حضورؐ تو منظر بدل گئے
احوال سارے دہر کے یکسر بدل گئے
ان کے ہاں مودت، عقیدت وجذبات کی فراوانی و ورافتگی، سلاست ،تخلیقی جواہر، وسعت مطالعہ ، الفاظ کی صوتی ترنگ، حسیاتی نظام سے واقفیت، معاصر منظر نامے پر عمیق نظر ، ادب و حضوری کی ملی ُجلی کیفیات ایسے ملتی ہیں جیسے ہر وقت آنکھیں بند کر کے وہ گنبدِ خضرٰی کا دیدار کر رہے ہوں اور آسمان سے نور کی کرنیں روضہ ء اطہر میں جاتی ہیں اور روضے سے وہی کرنیں ان کے سینے کو یوں منور کر رہیں ہیں کہ وہ جیسے مدینہ میں نگاہ جھکائے بارگاہِ نبوی میں دست بستہ کھڑے ہوں اور حضورؐ کی چشم التفات ان پر ہو ان وجدانی کیفیات کا درخشاں اظہاریہ اس شعر میں یوں رقم کرتے ہیں:۔
اُن کی چشمِ کرم کا اشارہ ہوا
گھر میں بیٹھے مری حاضری ہو گئی
قیامت کے مناظر کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالٰی سورہ تکویر میں ارشاد فرماتا ہے کہ "جب آسمان پھاڑ دیا جائے گا اور جب ستارے بکھر جائیں گے” کو پڑھ کر دل دہل جاتے ہیں اور اللہ بزرگ و برتر کی ہیبت طاری ہو جاتی ہے ان حالات میں انبیاء بھی گھبرائے ہوئے ہوں گے اور ان کے پاکیزہ لبوں پر "نفسی نفسی” کی پکار ہو گی ایسے میں ہمارے نبیؐ اکرم جو
مونسِ آدم ہیں جو خیرِ مجسم ہیں جو صدرِ مکرم ہیں جو نورِ مقدم ہیں جو نیرِ اعظم جو مرکزِ عالم ہیں، جو قبلہِ عالم ہیں جو کعبہ اعظم ہیں جو جانِ مجسم ہیں جو نورِ مجسم ہیں جو فخرِ دو عالم ہیں جو مرسلِ خاتم ہیں جو وارثِ زمزم جو وارثِ کوثر ہیں اُن کی مبارک آواز گونجے گی "امتی امتی” تو خدا وند کریم کے حکم سے گناہگاروں کی شفاعت ہو گی اور جس کے ہاتھوں میں حضورؐ کا علم ہو گا وہ حشر کی تپتی ہوئی دھوپ سے اماں پائے گا ان ہی خیالات کے دھنک رنگ شاعر نے شعر کی صورت میں یوں ڈھالے ہیں :۔
اُٹھے گا سرخرو ہو کر وہی میدانِ محشر میں
کہ جس کے ہاتھ میں تیری غلامی کا علم ہو گا
نبیلِ فکر جب عمل کے لیے پر تولتی ہے تو اُسے قرآن کی یہ آیت مسکرا کر ارفع عمل پہ گامزن کرنے کی دعوت دیتی ہے
” ورفعنا لک ذکرک” یعنی
” حبیبؐ ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے”
اب بلندی کی حد نہیں بتائی تاکہ کوئی نا فہم اس ذکر کی بلندی کو ناپتا نہ رہے اُس کا وجدان جتنی زیادہ پرواز کرتا رہے اسے درود و سلام اور نعت خوانی کا اوج نہ مل سکے امت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بخشش کے بہانے اتنا زیادہ ہیں کہ جس کا ادراک ہی نہیں ہو سکتا۔ حضورؐ کے مسلسل ذکر سے باطن صاف ہوتا ہے اور انسان کو اپنے قرب و جوار سے ایک خوشبو آنی شروع ہو جاتی ہے جسے وہ محسوس کرتا ہے حضورؐ
پُرنور کے اس شاعر نے بھی اپنی مختلف نعوت میں درود کی عظمت بیان کی ہے اور اس کیفیت کو حاصل کرنے کے لیے یہی دعا کی ہے۔ملاحظہ فرمائیے:۔
ہوتا رہے دن رات درودوں کا وظیفہ
ہو جائے معطر مرے گھر بار کا موسم
آفاق میں ہوتا ہے درودوں کا وظیفہ
جاتی ہے غلاموں کی سوغات مسلسل
آنحضور صلٰی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ با برکات سے رب کریم نے خود عشق کیا ہے اور فرمایا ہے کہ محبوبؐ! اگر میں آپ کو خلق نہ کرتا تو کائنات کی کوئی چیز خلق نہ کرتا ۔یعنی کائنات کن فکاں میں ستاروں سے لے کر گل و بلبل تک سب آپ کی خاطر خلق کیے گئے ہیں ہمارا وجود بھی آپؐ کا مرہونِ منت ہے کائنات کے راز خواہ وہ نہاں ہوں یا عیاں ۔ وہ سب آپ کے لیے خلق کیے گئے ہیں اللہ پاک کی ان ہی نوازشات کا ذکر شاعر نے یوں بیاں کیا ہے:۔
محبوبِ ذوالجلال ہے میرے نبیؐ کی ذات
عنوانِ قیل و قال ہے میرے نبیؐ کی ذات
جس انسان کو حضورؐ سے عشق ہو تو وہ مدینے کے ذروں کو بھی چومتا ہے ان ذروں کو وہ آنکھوں کا سرمہ بنا کر آنکھوں کے نور کو بڑھانا چاہتا ہے اُسے اُس کا وجدان مدینہ میں ہی دفن ہونے کے لیے کہتا ہے کیونکہ جن ذروں کو آقا پاک کے نعلین نے چھوا ہے وہ مبارک ذرے بھی عاشقوں کو سکون و طمانیت کی دولت سے مالا مال کرتے ہیں شاعر بھی مدینے جا کر واپس نہ پلٹنے کی تمنا کرتا ہے مدینہ ہی اُس کی منزل ہے وہ مدینے سے آگے نہیں جانا چاہتا کیونکہ جن فضاوں میں آقاؐ پاک نے سانس لیا ہے وہ ہوائیں بھی ابھی تک معنبر ہیں جن میں نبوت کی خوشبو پوشیدہ ہے مدینے کے سفر کے متعلق انہوں نے الفاظ کو ایسے تراشا ہے:۔
آخری جس کی منزل ہو خاکِ مدینہ
زندگی میں اک ایسا سفر مانگتا ہوں
مدینے کو جاوں مری جستجو ہے
پلٹ کر نہ آوں یہی آرزو ہے
آنحضورؐ کا سراپا جس نے بھی دیکھا ہے وہ بہت خوش نصیب ہے اس کی آنکھیں بھی خوش نصیب ہیں اور اس کی سانسیں بھی مقدر کی دھنی ہیں کیونکہ اس کی سانسوں نے آنحضورؐ کی خوشبو فضاوں سے کشید کی ہو گی حضور پاک جیسا کوئی بھی نہیں ہے تاریخ عالم نے دیکھا ہے کہ آنحضور کا سایہ نہیں تھا جس کا سایہ نہیں تھا اس کا ثانی کون ہو سکتا ہے اللہ رب العزت نے آپؐ کی مدحت میں قرآن نازل کر کے بتا دیا ہے کہ جس کی اللہ نعت کہے اس کا ثانی کوئی بھی نہیں ہو سکتا۔ اسی بات کو شاعر یوں بیان کرتا ہے:۔
آپ ہیں ممدوحِ یزداں،کون ہے ثانی بھلا
ہر زباں پر ہے رواں ذکرِ مدامی آپؐ کا
وہ جب مجھ سے پوچھیں بتا کوئی خواہش
مرا ہاتھ بس اُن کی نعلین پر ہو
حضرت محمدؐ جو رسولِؐ خدا ہیں جو مبداء کائنات ہیں جو مخزنِ کائنات ہیں جو منشائے کائنات ہیں جو مقصودِ کائنات ہیں جو سیدِ کائنات ہیں جو سرورِ کائنات ہیں جو مقصدِ حیات ہیں آپؐ پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا مگر ان کی توصیف کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔
حافظ عبدالجلیل کے عشقِ رسولؐ میں ڈوبے ہوئے اتنے زیادہ اشعار ہیں کہ جن پر تبصرہ کرنے کے لیے دل دھڑک رہا ہے مگر طوالت کا خوف دامن گیر ہے اس لیے چند اشعار جو میں نے منتخب کیے ہیں وہ قارئین آپ کی نذر کرتا ہوں :۔
مفلسی میرے آنگن سے رخصت ہوئی
ذکر تیرا مرا چارہ گر ہو گیا
جن کو مرے نبیؐ نے کملی میں لے لیا ہے
رہتے ہیں دور اُن سے رنج و بلا ہمیشہ
تیرے حسن و جمال کی باتیں
صبح کرتے ہیں،شام کرتے ہیں
خوشبوئے مصطفٰؐی کی میں برکت سمیٹ لوں
مجھ کو حرا و ثور کی خلوت میں لے چلو
درِ مصطفٰی پر حضوری کی خاطر
دلِ مضطرب چشمِ نم مانگتا ہوں
کب جھیل سکے گا یہ مدینے کی جدائی
دل اب ترے در پر ہی چھوڑ چلے ہیں
سجے گی اُس پہ دستارِ فضیلت علم و عرفاں کی
کہ جو سر بھی، مرے آقاؐ ! تری چوکھٹ پہ خم ہو گا
میں لت پت ہوں گناہوں میں مگر اے رحمتِ عالم
جو پھر بھی آپؐ بلوائیں نہیں ہے کچھ عجب، آقاؐ
تبصرہ کے آخر میں حافظ عبدالجلیل کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ غفارالعیوب ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور ان کے عقل و شعور پر نعتیہ الہام کی رم جھم جاری و ساری رکھے ۔آمین
سیّد حبدار قائم
آف غریب وال اٹک
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔