محفل شعروادب کیمبل پور
محفل شعر ادب16 ستمبر1957کو قائم ہوئی ۔یہ تنظیم ضلع اٹک میں سب سے زیادہ فعال،مفید،کارآمد اور سب سے زیادہ عمر پانے والی ادبی تنظیم ہے۔اس وقت اٹک کے ہر چھوٹے بڑے ادیب پر اس تنظیم کے اثرات ہیں۔نذر صابری مرحوم اس کے بانی اور سیکرٹری تھے،اور مرتے دم تک وہ اس کے سیکرٹری رہے البتہ چند ماہ کے لیے پروفیسر منظور بھی اس تنظیم کےسیکرٹری کے عہدے پر متمکن رہےلیکن صابری صاحب کی علمیت اور شخصیت کی وجہ سے ان کی حیثیت بارھویں کھلاڑی جیسی تھی ۔ اس محفل کے اجلاسوں میں ’’دعوتِ عام ‘‘کی روایت نہیں تھی۔ہجوم اکٹھا کرنے کی بجائےاجلاسوں میں موضوع کی مناسبت سےاُن مخصوص افراد کو دعوت دی جاتی،جن کی اپنے موضوع پر گرفت ہوتی تھی۔موضوع یا طرح مصرع کا انتخاب کر کے لکھنے والوں کو تین چار ماہ کا وقت دیا جاتا تا کہ وہ اپنے موضوع کی مناسبت سےمناسب مطالعہ اور تیاری کر کے اجلاس میں آئیں۔ضلع اٹک میں نعتیہ خدمات کے حوالے سے یہ تنظیم کسی تعارف کی محتاج نہیں۔نذر صابری خود اعلیٰ پائے کے نعت گو شاعر تھے اور سرتاپا عشق رسول اورنعت کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے،اس لیے تنظیم کے مزاج میں عشق رسول اور نعت کے رنگ نمایاں تھے۔نذر صابری محفل شعرو ادب کی نعتیہ روایت کو خود اس طرح بیان کرتے ہیں:’’پہلے پہل دینی،خصوصاََ نعت کے حوالے سے محفل پروگرام نہیں کراتی تھی،پھر میں نے اس جانب توجہ دی کہ جس ہستی کے نام سے ہم زندہ ہیں ،اُس سے کوئی اجلاس منسوب نہ ہو،[اس کے بعد]ہم نے بھرپور اور خوب صورت نعتیہ محفلیں منعقد کیں‘‘۔ محفل شعرو ادب کے طرحی نعتیہ مشاعروں کی روداد کو’’ارمغان اتک‘‘کے نام سے شایع کیا جا چکا ہے۔
آبروئی ہر دو سرا‘‘کے مضامین کا اجتماع اوراشاعت بھی نہ صرف مجلس کا اچھوتا کام ہے،بلکہ حضورﷺ کی ذ ات مبارک سے نذر صابری کی محبت و عقیدت کا اظہاریہ بھی ہے۔نعتیہ انتخاب جو ’’گل دستہ ‘‘کے نام سے شایع ہوا،بھی محفل کے ایک مخصوص مشاعرے کی روداد ہے ۔
"اداس لمحوں کی یادیں”محفل شعرو ادب کے اکتالیس اجلاسوں کی رودادیں ہیں۔محفل کے زیر اہتمام مختلف شخصیات کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں وہ محفلیں منعقد ہوئیں یا مرحومین کی یاد میں جو تعزیتی اجلاس انعقاد پذیر ہوئے،وہ اس کتاب میں یک جا کر دیے گئے ہیں”۔
نذر صابری مرحوم محفل شعرو ادب کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ہر اجلاس کی روداد لکھتے رہے ہیں؛تقریبات کی روداد لکھنا کوئی اتنی بڑی بات نہیں بلکہ یہ تو ذمہ داری ہےلیکن جس بے باک لیکن سلجھے ہوئےاندازمیں نذر صابری روداد لکھتے،ایسا اسلوب دیکھنے میں نہیں آیا۔حاضرینِ محفل کی آمدورفت،منتخب اشعار،تنقیدی محفل کی صورت میں اعتراضات ، خوبیاں،خامیاں،حاضرین کی حرکات و سکنات ،اٹھنے بیٹھنے کا انداز،غیر حاضر احباب کے نام،ماکولات ،کھانا ، چائے وغیرہ ، اور ان کی لذت ،صاحبِ خانہ کی مہمان نوازی،مزاج غرض ہر چیز رجسٹر میں درج کر دی جاتی لیکن ان کا اندراج کسی کی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔
روداد نویسی کی یہ روایت نہ صرف ضلع اٹک کی ادبی تاریخ لکھنے والوں کے لیےتاریخی دستاویز ہے بلکہ ضلع اٹک کی تہذیب و ثقافت کا بھی مستند حوالہ ہے ۔اس محفل نے کتابوں کی تقریب رونمائی کی خدمت بھی انجام دی، مذاکروں کا انعقاد کیا،مشاعرے برپا کیے،بعض نام ور شخصیات مثلاََ سیرت،خلفائے راشدین ،خسرو، غالب، اقبال وغیرہ کے یوم ولادت یا اُن کی برسی کے حوالے سےاجلاس منعقد ہوتے رہے۔یہ تقریبات رسمی یا معمولی نوعیت کی نہ ہوتی تھیں بلکہ ان میں شخصیات کے حوالے سے قیمتی مقالے پڑھے جاتے،گفتگو ہوتی۔مقالے پڑھے جانے کے بعد موضوع کی مناسبت دعوتِ عام دی جاتی ۔نذر صابری غیر معمولی باتوں کو نوٹ مسلسل نوٹ کرتے رہتے اور بعد میں انھیں روداد کی صورت میں قلم بند کردیتے اوریوں وہ روداد رسمی نوعیت کی روداد کی بجائے تاریخی دستاویز بن جاتی۔
مجلس کا عام رویہ یہ تھا کہ اجلاس سے پہلے "صاحبِ صدارت”کا اعلان نہ کیا جاتا ۔ حاضرین میں سے کسی ایک کو کرسیِ صدارت کے لیے منتخب کر لیا جاتا۔مجلس کی ایک اور خوبی یہ رہی کہ شخصیات کا انتظار کیے بغیر تقریب مقررہ وقت پر شروع کر دی جاتی۔تقریب کا آغاز حاضرین کی تعداد پر منحصر نہیں تھا،بلکہ اعلان کردہ وقت کو اہمیت دی جاتی،راقم نے چار آدمیوں کی موجودگی میں اجلاس کو مقررہ وقت پر شروع ہوتے دیکھا ہے۔اسی وجہ سے ہر آدمی اجلاس میں بروقت پہنچنےکی کوشش کرتا،کبھی کبھار ایک آدھ آدمی دیر سے بھی آجاتا لیکن اِن آنکھوں نےکبھی کبھی یہ بھی دیکھا ہے کہ سیکرٹری نے دیر سے آنے والوں کو محفل سے نکال دیا۔لیکن چونکہ تمام اہلِ قلم اور سخن فہم شخصیات سے نذر صابری کا محبت اور احترام کا رشتہ تھا،اس لیے ایسی صورت حال میں بھی بد مزگی پیدا نہیں ہوتی تھی۔
تقریب کے دوران میں ماحول کو پرکشش، متحرک اور فعال رکھنے پر نذر صابری کو ملکہ حاصل تھا۔جب دیکھتے کہ غیر ضروری سنجیدہ گفتگو اور بھاری مقالات سے ماحول میں بے زاری نمایاں ہونے لگی ہے تو کسی نعت خواں سے نعت کا تقاضا کر دیتے،کوئی ایسا دل چسپ واقعہ بیان کر دیتے جس سے بوریت دور ہو جاتی۔
محفل کا دعوت نامہ بھی اچھوتا ہوتا تھا۔تحریر سادہ لیکن پر کشش ہوتی تھی۔دعوت نامہ پڑھنے والے حیرت زدہ اور کبھی سحر زدہ ہو جاتےکہ ادبی پروگراموں کا دعوت نامہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ایک دعوت نامہ جو میرے پاس محفوظ ہے،کچھ اس طرح ہے:
"دعوتِ تبصرہ
مکرمی پروفیسر سید نصرت بخاری صاحب!سلامِ مسنون
کیپٹن(ر)عبداللہ خان کی تازہ ترین علمی و دینی پیش کش”والذین معہ”کی تقریبِ پذیرائی 21۔فروری بروز اتوار 10 بجے بلدیہ کے کانفرنس ہال میں منعقد ہو رہی ہے۔آپ سے گزارش ہے کہ اس تقریب میں اپنے قیمتی تبصرہ کے ساتھ بروقت تشریف لا کر اربابِ محفل کو شکریہ کا موقع دیں۔
سیکرٹری
مورخہ:دس فروری محفلِ شعرو ادب
سیکرٹری جس کو دعوت دیتے اُس سے اپنی ڈائری یا کاغذ پر دستخط لے لیتے تا کہ سند رہے اور بہ وقت ضرورت کام آئے۔اور دستخط کرنے والا دعائیں کرتا رہتا کہ خدا وہ وقت نہ لائے جب اس کے دستخط اعترافِ جرم کے طور پر اس کے رو بہ رو پیش کیے جائیں۔جو شرکت سے معذوری کا اظہار کرتا اس کو دعوت نامہ نہیں دیا جاتا۔
عام طور پر محفل کے اجلاس ہوٹل وغیرہ کی بجائےمختلف احباب کے گھروں میں منعقد کیے جاتے ،جن میں صرف اساتذۂ فن شریک ہوتے،البتہ ہونہار نو آموز شعرا کو خوش آمدید کہا جاتا اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔محفل کے ہر پروگرام میں نذر صابری کے ہمدمِ دیرینہ رانا افضال علی خان دامے،درمے،قدمے ،سخنے شریک رہتے۔رانا صاحب کی خدمات کے ذکر کے بغیر محفلِ شعرو ادب کا باب نا مکمل رہے گا ۔اسی طرح کتب خانہ مقبول عام کے مالک سید اقبال شاہ کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی۔کتب خانہ مقبول عام’’ محفلِ شعر و ادب‘‘ کا غیر علانیہ دفتر اور میٹنگ پوائنٹ تھا۔محفل سے وابستہ اور شعر بھر کے دیگر ادیب اسی جگہ نذر صابری صاحب کی سرپرستی میں محفل جماتے ۔ محفل کے تمام معاملات یہاں طے پاتے۔دعوت نامے اسی دکان پرمرتب ہو کر تقسیم ہوتے۔چائے کے دور چلتے،کبھی کبھی کھانا بھی کھا لیا جاتا،نمازیں پڑھی جاتیں۔محفل کی شایع کردہ کتب اسی دکان پر دستیاب ہوتیں ۔ رانا افضال کی طرح اقبال شاہ صاحب بھی دامے ،درمے، قدمے، سخنے ہر طرح سے تعاون کے لیےآمادہ دکھائی دیتے۔
اٹک کےاہل علم و ادب محفل شعرو ادب کے اجلاس کی دعوت اور اس میں شرکت کو اپنے لیے اعزاز اور سند سمجھتے تھے،اور اس بات کی تشہیر کرتے کہ انھیں محفل کی طرف سے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہےیا وہ محفل کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔صاحب زادہ ابوالحسن واحد رضوی اس تنظیم کی سرگرمیوں کے نہ صرف شاہد ہیں بلکہ ان کے ادبی ذوق کے پیچھے محفلِ شعرو ادب کی تربیت ہے؛ وہ محفل شعروادب کی کارکردگی کے بارے میں رقم طراز ہیں:’’صابری صاحب اور چند دیگر اربابِ ادب نے ایک نئی تنظیم بہ نام’’محفلِ شعرو ادب‘‘کی بنیاد رکھی جس کاتاسیسی اجلاس16۔ستمبر1957کو انعقاد پذیر ہوا۔۔۔محفل کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے یومِ تاسیس سے لے کر آج تک مسلسل بغیر کسی تعطل کےاپنی منازل طے کرتی جا رہی ہے ۔ ۔ ۔ اور یہ امر محفلِ شعرو ادب کے بانی جناب نذر صابری کی ذات کا مرہونِ منت ہے‘‘۔
ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جن کی ادبی پرورش محفلِ شعرو ادب کے اجلاسوں میں ہوئی؛انھوں نے اس تنظیم کو ایک طالب علم کی حیثیت سے بھی دیکھااور بعدازآں وہ اس کا لازمی جز بن گئے؛اس تنظیم کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتےہوئے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں:’’اس کا علمی و ادبی سفر لگ بھگ ساٹھ برسوں پر[کو ]محیط ہے۔اس طویل سفر کے دوران میں محفل نے نئے لکھنے والوں کی ذہنی اور فکری تعمیر کا فریضہ بہ حسن و خوبی انجام دیا۔محفل کے زیرِ اہتمام سیکڑوں اجلاس انعقاد پذیر ہوئے۔یہ اجلاس رنگا رنگی اور تنوع کے ذائقے سے سرشار ہیں۔نذر صابری کی ذہنی کشادگی اور وسعتِ نظری کے تمام تر رنگ محفل کے اجلاسوں میں پوری طرح جگمگاتے دکھائی دیتے ہیں۔یہ محفل دِین اور ادب کے خوب صورت امتزاج کا مظہر ہےاسلامی پروگراموں میں ادب کی سرشاری اور ادبی پروگراموں میں دین کی روشنی گھلی ہوئی ہے۔محفل کا اختصاصی میدان نعت کی مجالس کا اہتمام ہے۔مجلس کے زیرِاہتمام نعت کے طرحی اور غیر طرحی مشاعرے ہی منعقد نہیں ہوئے بلکہ نعت کے موضوعات ،فکر اور فن کے حوالوں سے بھی کئی اجلاس اور محفلیں منعقد ہوئیں۔فروغِ نعت میں محفل کی کارگزاری لائقِ تحسین اور قابلِ تقلید ہے۔مشاعرے،مذاکرے ،تنقیدی اجلاس، اور نعتیہ محافل کے ساتھ ساتھ خصوصی اجلاس جن میں کتابوں کی رونمائی، سعدی ، حافظ،رومی،غالب،اقبال،خسرو اور دیگر مشاہیر علما اور روحانی و مذہبی شخصیات کے حوالے سے تقریبات ،معروف اہل قلم کے ساتھ شاموں کا سلسلہ اور مرحومین کی یاد میں تعزیتی اجلاس شامل ہیں۔محفل کے یہ مختلف النوع اجلاس رسمی اور عمومی نہیں بلکہ علمی اور ادبی رنگ کے حامل ہیں۔بانیِ محفل کی رہ نمائی اور فیضانِ نظر اِن محفلوں میں وجد و کیف کی ایسی دلآویزی شامل کر دیتا ہے جو دامنِ فکرو نظر کو بصیرت کے نئے مفاہیم سے آشنا کرتی ہے۔محفل کے زیر اہتمام منعقدہ اِن اجلاسوں میں ۔۔۔ملک کی نام ور علمی و ادبی شخصیات اِن میں شریک ہوتی اور فکرو نظر کی قندیلیں روشن کرتی رہیں۔نذر صابری صاحب نے محفل شعرو ادب کے تمام اجلاسوں کی رودادیں جس اہتمام کے ساتھ قلم بند کی ہیں وہ انھی کا حصہ ہے۔یہ رودادیں کئی دفاتر پر محیط ہیں۔۔۔اشاعتی سرگرمیوں میں بھی محفل برابر شریک رہی۔گلدستہ،رومی و تبریزی،عکس رخِ یار،ارمغانِ اتک بحضورسیدِ لولاک ﷺ اور دوسری کئی کتب کی اشاعت مجلس کی اشاعتی سرگرمیوں کا اظہاریہ ہیں‘‘۔
پروفیسر انور جلال کا شماربھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی آنکھوں سےمحفل شعرو ادب کی پہلی اینٹ رکھتے دیکھی؛ان سے زیادہ محفل کی سرگرمیوں سے کون آشنا ہو سکتا ہے۔وہ محفل شعرو ادب کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف اور اس کے بانی کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین یوں پیش کرتے ہیں:’’اگر محفلِ شعرو ادب کے قیام کی وجۂ تسمیہ جاننے کی کوشش کی جائے تو اس کی تہ میں وہی اُن کا’’ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا ‘‘کا جذبہ کارفرما نظر آتا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ یہ تصنیفی و تحقیقی لگن کے باوجود ان کے جذبۂ جنوں کی تشفی نہ ہوتی تھی۔اس تشنگی کو دور کرنے کے لیے انھوں نے اپنی عقل و دانش کے نئے نئے بوٹے کھلانے کو انھوں نے اس وسیع مرغزار میں قدم رکھا۔بڑھتی ہوئی عمر اور ریٹائرمنٹ کے باوجود یہ ہمیشہ اُن کی جولان گاہ بنا رہا۔
برسوں پہلے محفل شعروادب کا ننھا سا خوش نما پودا لائبریری ہی میں کھلا جس کی خوش بو دھیرے دھیرے برسوں تک پھیلتی چلی گئی۔۔۔پچاس برس سے اوپر عرصہ بیت جانے کے باوجود محفلِ شعرو ادب روزِ اول کی طرح جواں ہے۔۔۔اجلاس منعقد ہو رہے ہیں۔۔۔علمی و تحقیقی کاوشیں برابر جاری رہتی ہیں۔۔۔نذر صابری نے محفلِ شعروادب کی بنیاد رکھتے ہوئے اپنی سرزمین کے لوگوں کے ذوق کی تسکین کا خوب خوب لحاظ رکھا۔۔۔بے شمار ادبی و علمی تنظیمیں دم توڑ گئیں لیکن محفل شعرو ادب اپنا جادو جگاتی رہی۔کبھی گورنمنٹ کالج لائبریری،کبھی گورنمنٹ پائیلٹ ا سکول،کبھی ڈسٹرکٹ کونسل لائبریری ،کبھی خود اُن کے گھر،کبھی کسی اوردوست کے ہاں،کبھی شہر کے ایک حصے میں کبھی دوسرے کونے میں اس کے اجلاس ہوتے رہے۔یہ شہر کی واحد تنظیم تھی جس میں ہر شعبے کے مایہ ناز ہنر کار آتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔۔۔آپ ان رودادوں کو پڑھیے جہاں تنقیدی وتحقیقی شعور کی خوش بو بکھیری وہیں اٹک کی تاریخ کو بھی محفوظ کر لیا ہے۔۔۔محفل شعرو ادب کے یہ اجلاس اتنے متنوع ہوتے کہ بعض اوقات سیکرٹری کی عقلِ رسا کی داد دینی پڑتی۔۔۔ان اجلاسوں کی رپورٹیں نہایت دل چسپ اور بار بار پڑھنے کے لائق ہیں‘‘۔
سیدمحمد تحسین حسین محفل شعر وا دب کی خدمات کو یوں یاد کرتے ہیں:’’اٹک میں شعرو ادب کے حوالے سے سرگرمیاں محفل شعروادب کے وجود کی مرہون منت ہیں اور کسی صلہ ستائش ،انعام و تعریف کی امیدوں و توقعات کے بغیر محفل شعروادب کی یہ سرگرمیاں ہی ہیں جن کی وجہ سے ۔ ۔ ۔نوجوان شعرا کی تربیت و حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔۔۔یوں عملاََ محفل ایک تربیتی اسکول کا درجہ رکھتی
ہے۔جہاں سے بے شمار ادیب اور شاعر کامل ہو کر علم و ادب کے ذریعے معاشرہ کی انتہائی قیمتی مگر خاموش خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ۔ ۔ محفل شعرو ادب کے قد کاٹھ، اس کی علمی حیثیت ،مقام و مرتبہ اور خدمات کا اندازہ اس کی کارکردگی کی سابقہ[سابق]تاریخ سے لگایا جا سکتا ہے۔محفل کے زیر اہتمام بے شمار مذاکرے،مباحثے،مشاعروں[مشاعرے] اور یومِ خسرو ،یومِ غالب ، خلفا ئے راشدین کے ایام اور محفلِ مسالمہ منعقد کی گئیں جن میں پاکستان اور عالمی شہرت کی حامل شخصیات شریک ہوتی رہیں۔۔۔محفل شعر و ادب کی سرگرمیوں کا ایک خصوصی پہلو اس کے نعتیہ مشاعرے ہیں۔۔۔ایسے نعتیہ مشاعروں میں شرکت سےجہاں ایمان و عشق کو تازگی اور جلا نصیب ہوتی ہے وہاں قوت عمل و حرکت کی دولت بھی ملتی ہے‘‘۔
رسالہ’’قانون گو شیخ‘‘لاہورکے مدیر عبدالقادر نےمحفلِ شعرو ادب کے ابتدائی سالوں کی کارکردگی، سیکرٹری کی دلچسپی اور اجلاسوں کی نوعیت دیکھتے ہوئے محفل کو تاریخ ساز تنظیم قرار دیا تھا؛وہ لکھتے ہیں :’’محفل شعروادب ایک ننھا سا آسمانِ ادب ہے جس پر بے شمار چھوٹے بڑے ستارے جلوہ ریز ہیں۔اس کا ہر جلسہ کیمبل پور کی ادبی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوتا ہے‘‘۔
گل دستہ‘آبروئی ہر دوسرا،ارمغانِ اتک کے علاوہ محفل شعرو ادب کے اکتالیس اجلاسوں کی رودادبھی محفل کےپلیٹ فارم سے ’’اداس لمحوں کی یادیں‘‘کے نام سے شایع ہو چکی ہے۔
مجلس شعرو ادب ایک ادبی تنظیم ہی نہیں تھی بلکہ ایک اکیڈمی تھی۔نذرصابری کی وفات کے بعد ان کے بیٹے خالد نے تنظیم کو جاری رکھنے کی کوشش کی اور ایک دو اجلاس بھی منعقد ہوئے لیکن یہ سلسلہ مزید آگے نہ بڑھ سکا ۔یوں اٹک میں نصف صدی سے زیادہ عرصہ علم و ادب کی ترویج و اشاعت اور خدمت کرنے کےبعد تنظیم کا باب نذر صابری کی وفات (دسمبر۔2013)کے ساتھ خاموش ہو گیا۔
ایم فل
پروفیسر اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
One thought on “محفل شعروادب کیمبل پور”
Comments are closed.