تحریک لبیک کا گوجر خان میں جلسہ اور سعد رضوی کی انگوٹھی
سطح سمندر سے 1700فٹ کی بلندی پر واقع ضلح راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کے حلقہ این اے 52 میں سابق ایم پی اے چوہدری ریاض اور سابق سپیکر قومی اسمبلی و سابقہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے درمیان مقابلہ ہے۔ یہ ایک کانٹے دار مقابلہ ثابت ہونے جا رہا ہے۔ اس حلقہ میں چوہدری ریاض نون لیگ کو چھوڑ کر تحریک لبیک کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ راجہ پرویز اشرف پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں۔ دو روز پہلے اس حلقے میں تحریک لبیک (TLP) کے امیر محترم سعد رضوی اور چوہدری ریاض نے جلسہ کیا جسے گوجر خان کی تاریخ میں سب سے بڑا اور کامیاب ترین سیاسی اجتماع قرار دیا جا رہا ہے۔ اسی حلقہ میں چوہدری ریاض اور ان کے چھوٹے بھائی چوہدری محمد خورشید زمان نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دو نئے ریکارڈ قائم کر رکھے ہیں اول چوہدری ریاض نے 1985، 1988، 1990، 1993 اور 1997 میں کامیابیاں سمیٹیں اور وہ مسلسل 5مرتبہ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ دوم چوہدری محمد خورشید زمان نے 1997 کے الیکشن میں ایم این اے کی نشت پر جب پیپلزپارٹی کے امیدوار راجہ پرویز اشرف کو شکست دی تو اس وقت وہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں منتخب ہونے والے 25سال اور کچھ دن کے کم عمر ترین پارلیمنٹیرئین منتخب ہوئے تھے جو ابھی تک ایک ریکارڈ ہے۔ اس الیکشن میں منتخب ہونے والی اسمبلیوں میں چوہدری ریاض پنجاب کے محکمہ بنکنگ اور کوآپریٹو سوسائٹیز کے وزیر اور ان کے چھوٹے بھائی چوہدری خورشید زمان مرکز میں وفاقی وزیر کے عہدے کے برابر پارلیمانی سیکرٹری برائے دفاع بنے۔
گوجر خان پوٹھوار کا دل ہے جسے 1974ء میں بلدیہ کا درجہ دیا گیا تھا۔ شہر کی آبادی تقریبا اڑھائی لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یہ شہر تقریباً 10 مربع میل پر مشتمل ہے۔ یہاں کا بیشتر علاقہ ہموار ہے جس کے شمال کی طرف پہاڑی سلسلہ ہے جو تحصیل کلرسیداں اور تحصیل کہوٹہ کی پہاڑیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں کے لوگ انتہائی انتہائی عقیدت مند اور مذہبی ہیں۔ مشہور اسلامک سکالر اور موٹیویشنل سپیکر پروفیسر رفیق اختر کا تعلق بھی گوجر خان سے ہے۔ چوہدری ریاض کا تحریک لبیک کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا ان کے حق میں ایک نیک شگون ہے۔ تحریک لبیک نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے بعد پنجاب میں تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے مقتدرہ نے لایا ہے اور پروان چڑھانے میں اسکی سیاسی مدد کی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو اس حلقے سے چوہدری ریاض کے جیتنے کا زیادہ امکان ہے اور پنجاب کے دیگر حلقوں میں بھی ٹی ایل پی درجن بھر سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی تو مقتدرہ وافر مقدار میں موجود دیگر آزاد ممبران کو ساتھ ملا کر انہیں پی ٹی آئی کا رستہ روکنے یا پھر ان کو بوقت ضرورت نون لیگی حکومت کو دباو’ میں رکھنے کے لیئے استعمال کرے گی۔
تحریک لبیک دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں عشق رسول ﷺ کی وجہ سے عوام کے دلوں میں ایک خاص مقام رکھتی ہے کیونکہ اس کے قیام کا عملی منصوبہ مرحوم خادم رضوی رحمتہ اللہ علیہ کے دماغ میں سلمان تاثیر کے کیس میں نامزد اور شہید ممتاز قادری کی رہائی کی کوششوں کے دوران آیا تھا۔
جب فرانس میں رسول اللہ ﷺ کے خاکے لگائے گئے تو تحریک لبیک پنجاب میں اٹھ کھڑی ہوئی اور سخت احتجاج کیا کہ فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کئے جائیں اور اس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔ اس وقت تحریک لبیک نے اعلان کیا تھا کہ وہ 20اپریل کو اسلام آباد کے فیض آباد چوک پر دھرنا دے گی۔ اس وارننگ کے بعد پاکستان کی سول حکومت گھبرا گئی تھی اور تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کو گرفتار کر لیا گیا تھا تاکہ 20اپریل کے دھرنے کو روکا جا سکے۔ لیکن تنظیم کے سربراہ کی گرفتاری کے بعد پاکستان بھر میں پُر تشدد مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔
سنہ 2017ء میں جب نواز شریف کی حکومت تھی تو تحریک لبیک جب دھرنا دینے کیلئے اسلام آباد میں آ رہی تھی تو شیخ رشید جو اس وقت اپوزیشن میں تھے انہوں نے ٹی ایل پی کی حمایت میں حکومت کو وارننگ دی تھی کہ اب پاکستان میں یا رسولؐ اللہ کی ایسی تحریک چلے گی کہ تمہاری لوٹی ہوئی دولت بھی کام نہیں آئے گی۔
تحریک لبیک پاکستان کی بنیاد خادم حسین رضوی نے 2017 میں رکھی۔ بریلوی سوچ کے حامل خادم حسین رضوی محکمہ اوقاف کی ملازمت کرتے تھے اور لاہور کی ایک مسجد کے خطیب تھے۔ لیکن 2011 میں جب پنجاب پولیس کے گارڈ ممتاز قادری اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا معاملہ سامنے آیا تو انھوں ممتاز قادری کی کھل کر حمایت کی جس کے نتیجے میں پنجاب کے محکمہ اوقاف کی جانب سے انھیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔
اس کے بعد نہ صرف خادم حسین رضوی نے ناموس رسالت قانون اور آئین کی شق 295سی کے تحفظ کے لئے تحریک چلائی بلکہ ممتاز قادری کی رہائی کے لئے بھی سرگرم رہے اور جنوری 2016 میں ممتاز قادری کے حق میں علامہ اقبال کے مزار پر ریلی کا انعقاد بھی کیا۔
اسی سال جب ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی تو اس کے خلاف احتجاج کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک کا رخ کیا۔ اسی دھرنے کے اختتام پر مولانا خادم رضوی نے اعلان کیا تھا کہ وہ ‘تحریک لبیک پاکستان یا رسولؐ اللہ’ کے نام سے باقاعدہ سیاسی جماعت کی بنیاد رکھیں گے۔ ابھی الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان کو بطور سیاسی جماعت رجسٹر بھی نہیں کیا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد خالی ہونے والی این اے 120 کی نشست پر جب ضمنی الیکشن ستمبر 2017 میں ہوئے تو جماعت کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شیخ اظہر حسین رضوی نے انتخاب میں حصہ لیا اور 7130 ووٹ حاصل کئے جو جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں سے بھی زیادہ تھے۔ اس کے بعد تحریک لبیک نے مولانا خادم رضوی کی قیادت میں اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد اور الیکشن ایکٹ 2017 میں مجوزہ ترامیم کے خلاف اسلام آباد کا ایک بار پھر رخ کیا اور نومبر 2017 میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم، فیض آباد پر رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف ایک طویل اور بظاہر کامیاب دھرنا دیا جس نے نہ صرف مولانا خادم رضوی بلکہ تحریک لبیک پاکستان کی شہرت میں بے حد اضافہ کیا۔
ٹی ایل پی نے مذکورہ دھرنے کے بعد 2018 کے عام انتخابات میں چاروں صوبوں میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا اور قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کل 559 امیدوار کھڑے کیئے جن میں سے دو امیدوار سندھ اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب بھی ہوئے جبکہ ایک امیدوار نے مخصوص نشست حاصل کی۔ قومی اسمبلی کے انتخابات میں ان کی جماعت ووٹوں کے اعتبار سے ملک میں پانچویں بڑی جماعت تھی اور انھیں 22 لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔
خادم رضوی کی نومبر 2020 میں وفات کے بعد ان کی جماعت نے ان کے بیٹے سعد رضوی کو تحریک لبیک کا نیا سربراہ مقرر کیا۔ خادم حسین رضوی کی وفات کے بعد فروری 2021 میں سعد رضوی کی قیادت میں حکومت نے ٹی ایل پی کے ساتھ فرانس کے سفیر کی پاکستان بدری اور فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات کے خاتمے پر مبنی ان کے مطالبات کے حوالے سے دوسرا معاہدہ کیا جس سے عوام میں تحریک لبیک کی عزت و وقار، محبت اور شہرت میں مزید اضافہ ہوا جو وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی بڑھتا رہا۔
گوجر خان میں چوہدری ریاض کی کامیابی کے لیئے اس تہلکہ خیز جلسے کے بعد تحریک لبیک کی شہرت چہار دانگ تیزی سے پھیلی ہے۔ اس موقع پر تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی نے چوہدری خورشید زمان کو سفید چاندی کی ایک انگھوٹی پہنائی۔ الیکشن 2024 میں راجہ پرویز اشرف اور چوہدری ریاض کا یہ مقابلہ اپنے اندر سوچنے والوں کے لیئے بہت سامان لیئے ہوئے ہے۔ نون لیگ کو چوہدری ریاض کا 40سال کی رفاقت کے بعد خیر آباد کہہ کر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا نون لیگ کے مستقبل پر کسی "شب خون” مارنے سے کم نہیں ہے۔ 8فروری والے دن چوہدری ریاض یا راجہ پرویز اشرف کی چاندی ہوتی ہے، یہ دور کی کوڑی لانے والی بات نہیں بلکہ تجزیاتی سوچ رکھنے والوں کے لیئے یہ ایک کھلا راز ہے کہ اس حلقے میں کون میدان مارتا یے؟
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔