ایم ڈی کیٹ:قائمہ کمیٹی کی تجاویز
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
میڈیکل کے شعبے میں طالب علموں کا داخلہ ہمیشہ سے ہی ایک کٹھن مرحلہ رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں پاکستان میں میڈیکل کالجوں کے ملک گیر داخلہ ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) کے ضمن میں سامنے آنے والی بے ضابطگیوں اور شکایات نے اس عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس سال بھی ایم ڈی کیٹ کے حوالے سے بڑے پیمانے پر شکایات سامنے آئیں جنہوں نے سرکاری حلقوں میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ایم ڈی کیٹ کے خاتمے اور میڈیکل یونیورسٹیوں کو از خود داخلہ دینے کی تجویز زیر بحث آئی ہے جو کہ اچھی خبر ہے۔
پاکستان میں میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے ملک گیر سطح پر امتحانات کا آغاز 2000 کی دہائی میں ہوا تھا۔ اس کا مقصد طلبا کی میرٹ پر داخلے کو یقینی بنانا تھا تاکہ میڈیکل کے شعبے میں صرف مستحق اور محنتی طلبا کو موقع مل سکے۔ تاہم وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ نظام مسائل کا شکار ہوتا چلا گیا جن میں امتحانات کی شفافیت، سوالات کی تیاری اور نتائج کے اجرا میں بے ضابطگیاں شامل ہیں۔
اس سال بھی ایم ڈی کیٹ کے انعقاد میں مبینہ بے ضابطگیوں کی خبریں سامنے آئیں جن میں امتحانی مراکز پر ناقص انتظامات، سوالات کی غیر معیاری نوعیت اور نتائج کے حوالے سے اعتراضات شامل ہیں۔ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبا کے لیے یہ ٹیسٹ ایک کڑی آزمائش بن چکا ہے کیونکہ ان کے والدین کو مہنگے کوچنگ سینٹرز کی فیس ادا کرنی پڑتی ہے جو کہ ان کی مالی استطاعت سے باہر ہے۔
قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی نے تجویز دی ہے کہ ایم ڈی کیٹ کو ختم کر دیا جائے۔ میڈیکل یونیورسٹیاں خود اپنے داخلہ امتحانات کا انعقاد کریں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) صرف نیشنل لائسنسنگ امتحان کے ذریعے ڈاکٹروں کو لائسنس جاری کرے۔
قائمہ کمیٹی کی یہ تجاویز اندرون اور بیرون ملک میڈیکل تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے لیے یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے اہم سمجھی جا رہی ہے۔
ایم ڈی کیٹ کے خاتمے سے درج ذیل کئی سوالات گردش کررہے ہیں:
کیا میڈیکل یونیورسٹیاں اپنے داخلہ امتحانات کے انعقاد میں شفافیت برقرار رکھ سکیں گی؟
کیا غریب اور متوسط طبقے کے طلبا کے لیے داخلہ کا عمل آسان ہو سکے گا؟
کیا یہ اقدام کوچنگ سینٹرز کی اجارہ داری کو ختم کر سکے گا؟
ایم ڈی کیٹ کی موجودہ پالیسی میں طلبا کو ان کے انٹرمیڈیٹ یا اے لیول کے نتائج کے علاوہ ایک اضافی امتحان دینا پڑے گا۔ یہ نظام ان طلبا کے لیے غیر منصفانہ ہے جو اپنے تعلیمی ریکارڈ میں شاندار کارکردگی دکھانے کے باوجود داخلہ حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
ملک میں کوچنگ سینٹرز کی تعداد میں اضافے نے ایم ڈی کیٹ کے امتحانات پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ یہ سینٹرز بھاری فیسوں کے عوض طلبا کو داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کرواتے ہیں، جس سے غریب اور دیہی علاقوں کے طلبا کے لیے مساوی مواقع ختم ہو جاتے ہیں۔
بیرون ملک میڈیکل تعلیم حاصل کرنے والے گریجویٹس کو پی ایم ڈی سی کے مخصوص امتحانات کے ذریعے قومی دھارے میں شامل ہونے کا موقع دیا جاتا ہے۔ تاہم ان امتحانات کی نوعیت اور معیار پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔
ایم ڈی کیٹ کے خاتمے اور میڈیکل یونیورسٹیوں کو خود مختار داخلہ دینے کی تجویز ایک اہم قدم ضرور ہے لیکن اس کے لیے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں:
غریب اور امیر دونوں طلبا کے لیے شفاف اور یکساں داخلہ پالیسی کا نفاذ کیا جائے۔
کوچنگ سینٹرز کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔
غریب اور متوسط طبقے کے طلبا کے لیے اسکالرشپ اور مالی معاونت کے پروگرام منعقد کیے جائیں۔
امتحانی نظام کی ڈیجیٹلائزیشن اور مانیٹرنگ کی جائے۔
میڈیکل کالجوں کے داخلہ ٹیسٹ کا موجودہ نظام اصلاحات کا متقاضی ہے۔ ایم ڈی کیٹ کے خاتمے اور یونیورسٹیوں کو داخلہ دینے کا اختیار دینے کی تجویز ایک مثبت اقدام ہوگا بشرطیکہ اس میں شفافیت اور مساوات کو یقینی بنایا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے اور ایک ایسا نظام وضع کرے جو محنتی اور ہونہار طلبا کی حق تلفی نہ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ کوچنگ سینٹرز کی اجارہ داری کو فوری طور پر ختم کرنے اور دیہی علاقوں کے طلبا کے لیے مواقع بڑھانے پر بھی توجہ دی جائے۔
Title Image by aymane jdidi from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |