میٹرک پاس امریکی صدر
کسی بڑے عہدے کا اہل ہونے کے لیئے زیادہ تعلیم یافتہ ہونا ضروری شرط نہیں ہے۔ آپ کے پاس احساس ذمہ داری ہے، خلوص نیت سے محنت کر سکتے ہیں اور ایماندار بھی ہیں تو دنیا میں کوئی بھی بڑا کارنامہ انجام دے سکتے ہیں۔ پھر دنیا بھر کے عہدے کسی ایک گروہ یا مخصوص انسان کی وراثت نہیں ہیں۔ لھذا کوئی بھی بڑا اعزاز حاصل کرنے کے لیئے یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کے پاس کالج یا یونیورسٹی وغیرہ کی کوئی ڈگری بھی ہو۔
امریکہ کے سابق صدر ہیری ایس ٹرومین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک غریب کسان کا بیٹا تھا اور اس کے پاس صرف ہائی سکول کے میٹرک کا سرٹیفکیٹ تھا، جو 12 اپریل 1945ء کو دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کا سربراہ بنا۔سابق امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی وفات کے بعد ہیری ٹرومین صرف 82 دن تک وائس پریذیڈنٹ رہنے کے بعد امریکہ کے 33ویں صدر کے عہدے پر فائز ہو گیا جس نے 20 جنوری 1953 تک صدارت کے فرائض سرانجام دیئے۔
یہ امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین 8 مئی 1884ء کو لامر، میسوری میں ایک غریب کاشتکار اور مویشیوں کے تاجر جان اینڈرسن ٹرومین کے گھر پیدا ہوا. اس کا باپ بہت لاپرواہ اور سست آدمی تھا جو بہت جلد دیوالیہ ہو گیا. خوش قسمتی سے ہیری کی ماں کو وراثت میں کچھ زمین ملی تھی جس پر اس کے باپ نے کاشتکاری شروع کر دی اور غربت کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے ہیری کو کالج نہ بھیج سکا. اس کے باوجود ہیری حساب کتاب میں ماہر تھا جس وجہ سے ہائی سکول کے بعد اسے بنک میں ملازمت مل گئی. اس کے باپ کی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا کاشتکاری میں اس کا ہاتھ بٹائے. ہیری کو کھیتوں میں کام کرنا ہرگز پسند نہیں تھا مگر باپ کے اصرار پر ہیری بنک کی جاب چھوڑ کر کسان بن گیا. کاشتکاری میں اس نے حد درجہ محنت کی اور کچھ ہی عرصے بعد وہ علاقے کا بہترین کاشتکار کہلانے لگا. ہیری ٹرومین کو کتابوں کے مطالعے کا بہت شوق تھا اور اسے معلوم ہو گیا تھا کہ اچھی پیداوار کے لئے ایک فصل کے بعد دوسری کون سی فصل کاشت کرنی ہے. اسے مطالعہ کا اس قدر شوق تھا کہ کھیتوں میں ہل چلاتے وقت بھی وہ کتابوں کا مطالعہ کرتا رہتا تھا. اس کا کہنا تھا کہ اس نے زندگی میں سب سے زیادہ کتابیں ہل چلاتے ہوئے پڑھی تھیں. ہیری کے بقول دس سالہ کاشتکاری کے دوران اسے کوئی منافع نہیں ہوا. وہ جو بھی کماتا تھا قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتا تھا. یوں ہیری ٹرومین کا خاندان ایک عرصہ تک غربت کی چکی میں پستا رہا۔
سنہ 1914ء میں باپ کے انتقال کے بعد ماں، بہن، اور بھائی کی کفالت کا بوجھ بھی ہیری کے کندھوں پر آن پڑا. اس نے فارم کی دیکھ بھال کے لئے ایک مزارعہ رکھ لیا اور خود فوج میں بھرتی ہو گیا. فوج میں بھرتی ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ کاشتکاری کی زندگی سے دور بھاگنا چاہتا تھا.

ہیری ٹرومین نے پہلی جنگ عظیم میں آرٹلری آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں. مقام حیرت ہے کہ موٹے عدسوں کی عینک استعمال کرنے والا انتہائی شرمیلا لڑکا جسے کھیل کود میں کوئی دلچسپی نہ تھی وہ فوج میں نہ صرف بھرتی ہو گیا بلکہ اپنی شاندار کارکردگی سے بہترین سپاہی اور کمانڈر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا. وہ جنگی سازوسامان کو صاف ستھرا اور ہر وقت تیار رکھتا تھا. اس نے بدمعاش آئرش ریکروٹوں کو فرسٹ ریٹ فوجیوں میں تبدیل کر دیا. ہیری کے آنے سے پہلے یہ ریکروٹ اپنے چار کیپٹن بھگا چکے تھے. ہیری نے کمان سنبھالتے ہی انہیں تیر کی طرح سیدھا کر دیا.
جنگ کے بعد ہیری نے کچھ عرصہ مردوں کے کپڑوں کی دکان چلائی. پھر کئی اور کاروبار کئے لیکن ہر کاروبار ناکام رہا. آخرکار ہیری نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا. اس زمانے میں سیاست میں قدم رکھنے کے لئے کسی سیاسی گروپ کا حصہ ہونا ضروری تھا. میسوری میں اس وقت دو سیاسی گروپ تھے. یہ بات ایک معمہ ہے کہ ہیری نے بدنام زمانہ "پینڈرگاسٹ” گروپ کو جوائن کرنے کا انتخاب کیوں کیا؟ پینڈرگاسٹ انتہائی بدعنوان اور شیطانی گروپ تھا. مختصر عرصہ میں پینڈرگاسٹ کی بدعنوانیوں اور پر تشدد سیاست نے ہیری کو نفسیاتی مریض بنا دیا. وہ سر درد، معدے کی خرابی اور کئی دیگر عوارض میں مبتلا ہو گیا.
اسی دوران ہیری ٹرومین نے فرضی نام سے پک وِک ہوٹل میں ملازمت اختیار کر لی. وہ بہت جلد صحت یاب ہو گیا اور پینڈرگاسٹ میں ہونے والی بدعنوانیوں پر لکھنا شروع کر دیا. اس کی یہ خفیہ تحریریں بعد میں "پک وِک پیپرز” کے نام سے مشہور ہوئیں. ان ریسرچ پیپرز میں وہ کئی بار خود سے سوال کرتا دکھائی دیتا ہے کہ، "کیا میں اخلاقی احمق ہوں؟”
ہیری ٹرومین کو سیاست میں آنے کے بعد 1922 سے 1934 تک جیکسن کاؤنٹی کا جج بننے کا موقع ملا جس کے بعد ہیری نے اپنے اختیارات ہی نہیں بلکہ سرکاری پیسہ بھی پوری ایمانداری اور دیانتداری سے استعمال کیا. اس نے لاکھوں ڈالر خرچ کر کے کچے راستوں کو پختہ سڑکوں میں بدل دیا تاکہ کسان اپنی پیداور آسانی سے منڈیوں میں لے جا سکیں. شہر میں دو خوبصورت ہال بھی بنوائے. ہیری کا دعوی تھا کہ اس نے ایک پیسے کا بھی غبن نہیں کیا. اس وجہ سے وہ ساری زندگی غریب ہی رہا. ٹام پینڈرگاسٹ ہیری کی دیانتداری سے نالاں تھا کیونکہ اس سے اس کی بالائی آمدنی کم ہو گئی تھی. اس نے ہیری سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اسے سینیٹ کا انتخاب لڑنے کی ترغیب دی. ہیری کو ججی کا منصب پسند تھا. لیکن پینڈرگاسٹ کے مجبور کرنے پر وہ 1935 میں میسوری سے ڈیموکریٹک کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہو گیا.
ٹرومین کافی جدوجہد کے بعد امریکی سینیٹ میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو گیا. دوسری جنگ عظیم کے دوران اس نے ٹرومین کمیٹی کی قیادت کی. اس کمیٹی نے فوجی اخراجات میں فضول خرچی اور بدعنوانیوں کی تحقیقات کر کے اربوں ڈالر کی بچت کی. یوں ٹرومین کو قومی پہچان مل گئی.
فرینکلن روزویلٹ چوتھی بار صدارت کا انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہے تھے. نائب صدارت کے لئے جمی برنس اور البن بارکلے کے نام زیر غور تھے. روزویلٹ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے. آخرکار نیویارک کا طاقتور سیاستدان ایڈ فلن واشنگٹن آیا اور اس نے ہیری ٹرومین کا نام تجویز کیا. روزویلٹ کے مشیروں نے اسے بتایا کہ ہم کئی بار ٹرومین سے پوچھ چکے ہیں. لیکن وہ نائب صدر بننے کے لئے تیار نہیں. ایڈ فلن کے اصرار پر انہوں نے ٹرومین سے رابطہ کیا. ٹرومین کا جواب یہ تھا کہ جب تک روزویلٹ خود پیشکش نہیں کرے گا وہ یہ عہدہ قبول نہیں کر سکتے کیونکہ روزویلٹ اسے پسند نہیں کرتا تھا. یہ حقیقت تھی کہ روزویلٹ ٹرومین کو پینڈرگاسٹ کا بدمعاش سمجھتا تھا. نیز اسے یہ اعتراض بھی تھا کہ ٹرومین کی تعلیم صرف ہائی سکول تک ہے یعنی وہ صرف میٹرک پاس ہے. لیکن ڈگریوں میں کیا رکھا ہے۔ ادھر وائٹ ہاؤس کی انتظامیہ میں اشرافیہ کے تعلیمی اداروں مثلا” ہارورڈ، پرنسٹون، برکلے اور سٹینفورڈ کے گریجویٹ موجود تھے. اس کے باوجود روزویلٹ کی نظر انتخاب نے بلآخر ٹرومین کو کال کرنے پر مجبور کر دیا.
اگلے سال فرینکلن ڈی روزویلٹ اور ٹرومین الیکشن جیت گئے. چند ماہ بعد 12 اپریل 1945ء کو روزویلٹ کا انتقال ہو گیا اور ہیری ٹرومین ریاستہائے متحدہ امریکہ کے تینتیسویں صدر بن گئے۔
صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی ہیری ٹرومین کو اپنے دور صدارت (1945-1953) میں بہت سے قومی اور عالمی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا. دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ (1945) سے پہلے ٹرومین نے "ہیروشیما” اور "ناگاساکی” پر ایٹم بم گرانے کی اجازت دی جس کے نتیجے میں جاپان نے ہتھیار ڈال دیئے اور دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہو گیا.
اقوام متحدہ کا قیام سنہ 1945ء میں ہوا اور ٹرومین نے عالمی امن کے فروغ کے لئے اقوام متحدہ کے قیام کی حمایت کی. سنہ 1947ء میں ٹرومین نے نظریہ کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے "ٹرومین نظریہ” پیش کیا. یونان اور ترکی کو کمیونزم کی یلغار سے بچانے کے لئے امداد دی. مارشل پلان 1948 کے ذریعے جنگ زدہ یورپ کی تعمیر نو میں مدد کی اور امریکی اتحاد کو مضبوط کیا. برلن ایئر لفٹ (1948–1949) کے ذریعے سوویت یونین کی ناکہ بندی کے دوران مغربی برلن کے شہریوں کو فضا سے ضروریات زندگی پہنچانے کا انتظام کیا. 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت ٹرومین اسرائیل کی نئی ریاست کو تسلیم کرنے والا پہلے عالمی رہنما تھا. خیال رہے روزویلٹ اور ان کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ عربوں سے خوشگوار تعلقات کی وجہ سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں نہیں تھے. اسرائیل کے حامی عیسائی مبلغین نے ٹرومین کو قائل کر لیا کہ اسرائیل کا قیام بائبل کی پیش گوئی کے عین مطابق ہے. لہذا خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسرائیل کو تسلیم کرنا فرض کر لیا گیا. صدر ٹرومین نے سنہ 1949ء میں کانگریس کی مخالفت کے باوجود فئیر ڈیل کے ذریعے شہریوں کو ان کی بنیادی ضروریات مثلا” خوراک، رہائش، اور صحت کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے اصلاحات کیں. کوریائی جنگ (1950-1953) میں جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کے حملوں سے بچانے کے لئے اس جنگ کے دوران امریکی افواج کی قیادت کی. یہ کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کی پالیسی کا حصہ تھا. ایگزیکٹو آرڈر 9981 کے ذریعے امریکہ کی مسلح افواج میں نسلی علیحدگی کا باضابطہ طور پر خاتمہ کیا.
سنہ 1953ء میں وائٹ ہاؤس سے رخصتی کے بعد ٹرومین میسوری واپس چلے گئے جہاں انہوں نے اپنی یادداشتیں لکھیں اور ٹرومین لائبریری قائم کی. ان کا انتقال 26 دسمبر 1972ء کو 88 سال کی عمر میں ہوا. ٹرومین کو ایک فیصلہ ساز رہنما کے طور پر یاد کیا جاتا ہے. ابتدائی غیر مقبولیت کے باوجود انہوں نے بہت سے جرات مندانہ فیصلے کئے. ان کے ان فیصلوں کی بدولت دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا، کمیونزم کی یلغار رکی، اور امریکہ جدید دنیا کا رہنما بن گیا. خارجہ پالیسی، شہری حقوق، اور معیشت کی بحالی میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں.
ہیری ٹرومین کی ازدواجی زندگی کی کہانی بھی بہت دلچسپ اور سبق آموز ہے. ہیری ٹرومین کو 6سال کی عمر میں اپنی کلاس کی ایک سنہرے بالوں والی خوبصورت لڑکی ایلزبتھ والیس سے عشق ہو گیا. وہ کلاس میں اس سے آگے بیٹھتی تھی. اس نے عہد کر لیا کہ وہ ایلزبتھ کے سوا کسی لڑکی سے شادی نہیں کرے گا. آخرکار 35 سال کی عمر میں ٹرومین 34 سالہ ایلزبتھ سے شادی کرنے میں کامیاب ہو گیا. یہ کیسے ممکن ہوا؟ ایلزبتھ کے چاہنے والے بیشمار دولت مند نوجوان موجود تھے. لیکن اس نے شادی کی ہر پیشکش ٹھکرا دی. کیوں؟ جب ایلزبتھ ابھی نوجوان تھی تو اس کے باپ ڈیوڈ والیس نے خودکشی کر لی تھی. اس زمانے میں خودکشی کو نہ صرف بہت برا سمجھا جاتا تھا بلکہ یہ خاندان کی شہرت پر بدنما داغ بن جاتا تھا. لوگ خودکشی کرنے والے کو "پاگل” سمجھتے تھے. نیز انہیں یقین تھا کہ پاگل پن کا یہ جین اولاد میں منتقل ہو جاتا یے. اس شرمندگی سے بچنے کے لئے ایلزبتھ کی ماں بچوں کو لے کر میسوری سے ریاست کولوراڈو چلی گئی تھی. باپ کے غم کی وجہ سے ایلزبتھ کافی عرصہ ڈپریشن کا شکار رہی. اس وجہ سے بھی وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی. اسے خدشہ تھا کہ جونہی خاوند کو اس کے باپ کی خودکشی کا علم ہوا تو وہ اسے طلاق دے دے گا.
اس کے باوجود ہیری ٹرومین نے کسی نہ کسی طرح اسے شادی کرنے پر آمادہ کر لیا. نیز اس نے ایلزبتھ کو یقین دلایا کہ وہ اپنی زندگی میں اس کے باپ کی خودکشی کی کہانی پریس میں آنے نہیں دے گا. ٹرومین نے اپنا وعدہ پورا کیا. ٹرومین کے صدر بن جانے کے باوجود امریکی پریس اس کہانی سے بے خبر رہا. ٹرومین اور ایلزبتھ نے یہ کہانی اپنی اکلوتی بیٹی مارگریٹ سے بھی چھپائے رکھی.
ہیری ٹرومین ایک خاندانی آدمی تھے. وہ نہ صرف اپنی بیوی اور بیٹی سے بے پناہ محبت کرتے تھے بلکہ اس نے اپنی سیاسی مصروفیات کے باوجود اپنے وسیع خاندان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنائے رکھا. وہ اکثر اپنے آبائی شہر میسوری میں آزادی کے ساتھ آتا جاتا رہتا تھا.
اتنی کامیاب ترین زندگی گزارنے کے باوجود یہ کلنک کا ٹیکا بھی امریکی صدر ہیری ٹرومین کے ماتھے پر لگا کہ جب پرل ہاربر پر وہ جاپانی بمباری کو برداشت نہ کر سکا تو اس نے جنگ عظیم دوم میں پہلی اور آخری بار جاپان کے دو شہروں "ہیرشیما” اور "ناگاساکی” پر ایٹم بم گرانے کے پروانے پر دستخط کر دیئے۔ تعلیم کم ہونے کے باوجود ترقی تو کی جا سکتی ہے اور بڑے عہدوں پر بھی فائز ہوا جا سکتا ہے۔ لیکن تعلیم (اور علم) کو خود پر لاگو کیئے بغیر "انسانیت” نہیں سیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ٹرومین کی شخصیت پر ایسا داغ ہے جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ہیری ٹرومین کے دور صدارت میں 6 اور 9 اگست 1945ء کو انسانی تاریخ کا سب سے شرمناک واقعہ پیش آیا جو آج بھی تاریخ کا بدترین دن مانا جاتا ہے۔ اس دن کو امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم گرائے جس سے دیکھتے ہی دیکھتے 2 سے 3 لاکھ کے درمیان لوگوں کی جان چلی گئی۔ آج اس دن کے بارے میں سوچا جاتا ہے تو آنکھوں سے آنسوں امڈ آتے ہیں کہ کیا دنیا میں ایسے انسان بھی ہو سکتے ہیں جو لاکھوں بے گناہ لوگوں کی جان منٹوں میں لے سکتے ہیں۔ اس واقعے نے پوری انسانیت کی دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایٹمی بمباری کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے معصوم لوگوں کے جسموں سے گوشت پگلھنے لگا تھا۔ اس دن کو تاریخ میں سیاہ ترین دن سمجھا جاتا ہے۔ اسی بمباری کی وجہ ہے کہ آج بھی اگر ہیروشیما یا ناگاساکی میں لوگ پیدا ہوتے ہیں تو ان میں کوئی نہ کوئی خلقی نقص پایا جاتا ہے۔

بے شک ہیری ٹرومین کو امریکہ، برطانیہ اور دیگر اتحادی قومیں جنگ عظیم دوم کا ہیرو مانتی ہیں مگر جس میٹرک پاس صدر نے ایٹم بم چلانے کی اجازت دی اور جس سے ایک ہی دن میں جاپان میں اتنی تباہی ہوئی اور لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اتر گئے اسے باقی دنیا مسیحا کیسے مان سکتی ہے۔
Images Courtesy Wikipedia

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |